اُن گھروں کے بچوں کو بھی اہل خانہ لازمی طورپر حفظان صحت کیلئے ٹیکہ لگوانا ضروری سمجھنے لگ گئے ہیں۔ عوامی طورپر صحت کے معاملوں میں تبدیلی کااحساس اُس وقت ہوا جب یونی سیف کے میڈیا وزٹ کے تحت ’مشن اندردھنش‘کاقریب سے جائزہ لینے کا موقع ملا۔ڈبلیو ایچ او،آئی کے ای اے فاؤنڈیشن ،روٹری اور حکومت ہند و ریاستی حکومتوں کے اشتراک و تعاون کے ذریعہ چلائے جارہے ’مشن اندردھنش‘ کی حقیقی تصویر واقعی دلچسپ بھی ہے اور کئی لحاظ سے حیرت انگیز بھی!
واقعہ یہ ہے کہ بچوں کی ٹیکہ کاری کی شرح کو90فیصدتک پہنچانے کیلئے یونی سیف نے ’مشن اندردھنش‘ نامی ایک پروگرام متعارف کرایا ہے جس میں ایسے بچوں کو ٹیکہ فراہم کرانے کانشانہ مقرر کیاگیاہے جو روٹین کی ٹیکہ کاری سے کسی اسباب وعلل کی وجہ سے مستفید نہیں ہوپارہے تھے۔اس پروگرام کو متعارف کرانے کا مقصد ہی دراصل یہ ہے کہ محروم بچوں تک رسائی حاصل کی جائے اور انہیں وہ تمام خوراک مہیا کرائے جائیں جن کی فراہمی حفظان صحت کیلئے لازمی ہے۔چنانچہ اس مقصد کو کامیاب کرنے کی غرض سے پہلے ایک سروے کا سہارالیا گیا اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ’روٹین امونائزیشن ‘کے باوجود کن کن علاقوں میں بچوں کو ٹیکہ فراہم کرائے جانے میں زیادہ کامیابی نہیں مل رہی ہے۔اس طرح سروے میں ملک کے201اضلاع کو نشان زد کیا گیا جنہیں ٹیکہ کاری کے حوالہ سے ’’ہائی رسک ڈسٹرکٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے ان سے متعلقہ بچوں کیلئے اضافی کوشش کرنے کی بات سامنے آئی۔مشن اندردھنش نامی پروگرام انہی ضلعوں میں چلائے جارہے ہیں۔یہ بتادیں کہ بہار کے جن 14ضلعوں کو اس پروگرام میں شامل کیا گیا ہے،اُن میں ریاستی داراحکومت پٹنہ بھی شامل ہے،جہاں کے دیہی علاقوں میں ابھی اوسط سے کم لوگ اپنے بچوں کو لازمی ٹیکہ دلاتے ہیں۔مشن اندردھنش کے تحت نہ صرف یہ کہ بچوں کی ٹیکہ کاری کو یقینی بنایاجارہاہے بلکہ حاملہ خواتین کو بھی حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں اور ان کو لازمی طبی سہولت فراہم کرائی جاتی ہے۔
یونی سیف نے ’مشن اندردھنش‘ کے تحت جاری پروگرام کا جائزہ لینے کی خاطر دہلی سے چنندہ صحافیوں پر مشتمل ایک ٹیم کو بہار کے دورہ پر بھیجا جس میں راقم الحروف کے علاوہ کالم نگار محترمہ الکاآریہ،آل انڈیاریڈیو سے وابستہ صحافیہ رومی ملک،طبی امور سے متعلق پربھات خبر کے خصوصی نامہ نگار سنتوش کمارسنگھ،ہماراسماج کے معاون مدیرارشدندیم،خبررساں ایجنسی آئی اے این ایس کے صحافی اشیش کمار مشرا،فوٹوجرنلسٹ شوم بسواورسی ایم آرٹی کی کو آرڈی نیٹر محترمہ سلطنت نقوی شامل تھیں۔9مئی سے11مئی کے درمیان اس ٹیم میں شامل صحافیوں اور فوٹو جرنلسٹوں کے علاوہ بہار یونی سیف سے متعلق اہلکاروں نے پٹنہ اور گیا کے متعدد مراکز کا جائزہ لیا اور یہاں طبی امور سے متعلق ان کاموں کا بطور خاص مشاہدہ کیا جو یو نی سیف کے ذریعہ پائلٹ پروجیکٹ کے تحت مختلف جگہوں پر چلائے جارہے ہیں یا جن کی نگرانی کسی نہ کسی شکل میں یونی سیف کررہی ہے۔بہارکا دورہ کرنے والے صحافیوں کی رہنمائی کیلئے یونی سیف،ڈبلیوایچ او،پاتھ اور روٹری کے اہلکار سرگرم نظر آئے ۔دوسرے لفظوں میں کہاجاسکتا ہے کہ بہار میں طبی امور سے متعلق بیداری کا جوخوش گوار نتیجہ برآمد ہورہا ہے،اُس کے مشاہدے کی صورت پیدا کرنے میں مقامی اہلکاروں و ذمہ داروں نے خصوصی دلچسپی دکھائی جس کی وجہ سے صحت کے معاملوں میں بدلتے بہارکی بہت سی اچھی تصویر یں بھی سامنے آئیں اورکچھ دلخراش مناظر بھی دیکھنے کو مل گئے جن کی بنیادپر یہ نتیجہ بھی برآمد کیاجاسکتاہے کہ بہار کے طبی عملوں کی پول بھی کہیں نہ کہیں اس دورہ کے دوران کھل گئی!۔
’مشن اندردھنش‘پروگرام کی فعالیت کا اندازہ لگانے اور بہار میں طبی امور سے متعلق حقیقی صورتحال دیکھنے اور سمجھنے کا سلسلہ 9مئی کو پٹنہ پہنچنے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا جب یونی سیف کے مقامی ذمہ داروں کی رہنمائی میں صحافیوں کی دو الگ الگ ٹیم منیر اور داناپور کے مضافافی علاقہ کے دورہ پر پہنچی۔یہ دونوں ہی علاقے پٹنہ ضلع کا حصہ بھی ہیں اور ترقی کے فیوض و برکات سے محروم بھی۔دوسرے لفظوں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ’’ چراغ تلے اندھیرا ‘‘دیکھنا ہو تو اِن دونوں علاقوں کا جائزہ لے لینا کافی ہوگا جہاں اکیسویں صدی کے ہندوستان کی وہ تصویربھی دیکھنے کو مل جائے گی،جس کا تصور دہلی اوراقوام متحدہ کے صدر دفتر میں بیٹھے یونی سیف کے بھی بہت سے لوگ شاید نہ کرسکیں۔یعنی جہالت،غربت اور سماجی نا برابری کا وہ منظر نامہ جس کی کوکھ سے جنم لے رہا ہے ایک انتہائی پسماندہ ہندوستان! میڈیاوزٹ میں کیا کچھ دیکھنے کو ملااس کی کچھ جھلک آئندہ سطورمیں دکھانے کی کوشش کی جائے گی۔
یونی سیف کے سہ روزہ میڈیاوزٹ کاآغازریاستی دارالحکومت کے دیہی علاقہ سے ہوا۔پٹنہ ضلع کے ہیبت پورمیں واقع شنکرپور دیارہ وہ علاقہ ہے،جہاں کا سفربجائے خود ہیبت ناک ہے۔ داناپورکینٹ سے گزرتے ہوئے ساحل گنگاکی جانب چند کلومیٹر کی دوری طے کرنے کے بعد پیپاپل کے ذریعہ دریا عبور کرنااورپھر ریت کا راستہ طے کرتے ہوئے پی ایچ پی داناپور کے تحت مشن سائٹ پر پہنچنے اورایم آئی سیشن کا جائزہ لینے کے بعد یہ پتہ چلاکہ اس خطہ میں خصوصی ٹیکہ کاری کی ضرورت کیوں درپیش ہوئی۔پٹنہ کا یہ علاقہ اور یہاں کے باشندے درحقیقت موسم برسات میں ہر سال اپنا آشیانہ اجڑ جانے کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہوجایاکرتے ہیں اور نتیجتاًاُن معصوم بچوں کی ٹیکہ کاری کا عمل درمیان میں ہی موقوف ہوجایاکرتاہے۔چنانچہ ’مشن اندردھنش‘کے تحت اس خطہ میں خصوصی ٹیکہ کاری پروگرام کا انعقاد ناگزیر ٹھہرا۔یہاں کا ٹیکہ کاری مرکزجواہر رائے نامی شخص کے گھر کے سامنے بڑ کے ایک درخت کے نیچے کھلے آسمان میں بنایاگیا تھا،جہاں چند کرسیاں رکھی تھیں۔
دو چوکیوں پر ویکسین ودیگردواؤں کی موجودگی محلہ والوں کو یہ احساس دلارہی تھی کہ ٹیکہ کاری کیلئے آج یہاں ہر اُس بچہ کو لے کر پہنچنا ہے،جسے حفظ ماتقدم کے تحت معمول کی ٹیکہ کاری سے فیض اُٹھانے کا موقع نہیں مل سکاہے۔یہیں قطارمیں اپنی باری کی منتظر ایک60سالہ ضعیفہ اپنی پوتی پریتی اور پوتے بابوصاحب کے ہمراہ نظرآگئی۔شدید دھوپ کے باوجود بچوں کے ساتھ ٹیکہ کاری مرکزپرانتظار کے عمل سے گزرنا گوکہ آسان نہ تھا مگربزرگ خاتون سے دریافت کرنے پر یہ ضرورپتہ چل گیا کہ مشن اندردھنش کی اہمیت اُس کے دل میں گھر کرچکی ہے اور وہ دھوپ کی شدت کو صرف اس وجہ سے برداشت کررہی ہے کیونکہ حفظان صحت کے تقاضوں کے تحت اُسے غفلت کی نیند سونا اوراپنے پوتاو پوتی کے مستقبل کو خطرے میں ڈالنا گوارانہیں۔ماں شیلا اور باپ اندرجیت کو چونکہ پیٹ کی آگ بجھانے کی فکر بھی تھی اور اس کے بغیرشاید اُسے فاقہ کشی پر بھی مجبور ہونا پڑسکتا تھا،اِس لئے پریتی اور بابو صاحب کی ٹیکہ کاری کی ذمہ داری دادی ماں کے حصہ میں آگئی۔درجن سے زیادہ بچوں کی پرورش و پرداخت کرچکی ضعیفہ سے جب یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ اِن بچوں کو کن کن امراض سے متعلق ٹیکے لگائے جائیں گے ؟تو وہ یہ بتانے سے تو قاصر رہی لیکن اُس نے جواب میں یہ ضرور کہاکہ’ آشا‘ نے اُسے ٹیکہ لگوانے کیلئے کہا اور وہ اِن بچوں کو لے کر بڑ کے درخت کے نیچے آگئی۔
’آشا‘ واقعی شنکرپور دیارہ کے لوگوں کیلئے ’آشا‘یا امید کی کرن ہی ثابت نہیں ہورہی ہے بلکہ عام لوگوں کااُس پرمکمل اعتماد بھی ہے،یہ بات خود60سالہ ضعیفہ کے جواب سے واضح ہوگئی۔ چونکہ بزرگ خاتون خود بھی ناخواندہ ہے اور اس کا بیٹااندرجیت اور بہودھرم شیلا بھی پڑھی لکھی نہیں ہے،اِس لئے ان کیلئے ٹیکہ کاری سے متعلق گہری معلومات تک رسائی ممکن نہیں البتہ آشا اور اے این ایم پر چونکہ انہیں اعتماد ہے ،اس لئے ان کی ہدایتوں کو نظرانداز کرنابھی ممکن نہیں۔یہیں گیتا اپنے لخت جگر انکت کے ساتھ ریت کے ڈھیر پر کھڑی نظر آگئی۔دریافت کرنے پر علم ہوا کہ وہ انکت کو ویکسین لگواچکی ہے البتہ اُ سے اپنے ساتھ آنے والی پڑوس کی خاتون کی فراغت کاانتظار ہے،تاکہ اُس کے ساتھ وہ گھر لوٹ سکے۔
چونکہ وہ خالی خالی تھی،اِس لئے کچھ اِدھراُدھر کی باتیں کرنے اور علاقہ کو سمجھنے کا موقع مل گیا۔گفتگوکاسلسلہ آگے بڑھا تو پتہ چلا کہ یہ محلہ جسے ’ٹولہ‘کہاجاتا ہے، سال میں محض 6ماہ ہی آباد رہتا ہے جبکہ 6ماہ تک یہاں کے لوگ نقل مکانی کا درد جھیلتے ہیں۔پتلاپور پنچایت کے تحت آنے والے اس محلہ میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ آباد ہیں،جنہیں تعلیم حاصل کرنے کا نسل در نسل کبھی موقع ہی نہیں ملا۔محلہ میں کوئی پرائمری اسکول بھی نہیں ہے۔جہالت اور غربت کا حسین امتزاج یہاں دیکھنے کو ملا۔عورتیں گوکہ سترپوش تھیں لیکن مردوں اور بچوں کی نیم برہنہ حالت اُن کی اقتصادی بدحالی کی کہانی خود بیان کررہی تھی۔ یہیں چندر دیو نامی کسان بھی آکر بیٹھ گئے،وہ بھی’’ انگوٹھا چھاپ‘‘ تھے اور نتیش کمار کی سرکار کے ترقیاتی امورکی قلعی کھول رہے تھے۔اسی درمیان ایک نیم بالغ بچی ایک معصوم اور ننھی سی جان کو ٹیکہ دلوانے آگئی۔بچہ کی ماں کہاں ہے؟یہ دریافت کرنے پر گویا ہوئی ’’وہ نو شادی شدہ خاتون ہے،اِس لئے اُس کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں،اس لئے رادھیکا دیوی کی بچی کو لے کر ویکسین دلانے میں آئی ہوں‘‘۔
شنکرپور دیارہ کے اس ٹولہ میں ’مشن اندردھنش‘ کے پہلے مرحلہ میں32بچوں کو ٹیکہ لگائے گئے تھے جبکہ9مئی کیلئے22بچوں کا ہدف مقرر تھا۔دوپہر12بجے تک یہاں 16بچوں کی ٹیکہ کاری مکمل ہوچکی تھی اور اس درمیان ایک’ گیسٹ چائلڈ‘کو بھی’ آشا‘کی خاص نظر ڈھونڈ لائی جسے ٹیکہ کاری پروگرام سے فیضیاب کرانے کا موقع مل گیا۔چکیا ٹولہ میں بودوباش اختیار کرنے والی منیشا کماری یہاں اے این ایم کے طورپر ٹیکہ کاری کا فرض نبھاتی نظر آئیں جن سے گفتگو کرنے پر پتہ چلا کہ گوکہ ’مشن اندر دھنش‘ کے تحت یونی سیف کی ٹیم ٹیکہ کاری کے ہدف کو بڑھانے کیلئے سرگرم عمل ہے لیکن عوامی سطح پر ابھی مکمل بیداری نہیں آسکی ہے۔جب منیشا سے یہ سوال کیا گیا کہ جن بچوں کی ٹیکہ کاری آج ہوئی،اُن میں سے کتنے بچے ایسے ہوں گے،جن کے والدین خود ٹیکہ کاری مرکز پرپہنچ گئے ؟تو 8سال کا عملی تجربہ رکھنے والی منیشا نے بتایاکہ ’’3-4 بچوں کے والدین خود آئے مگر باقی ماندہ بچوں کے اہل خانہ سے ملنے اور انہیں پروگرام بتانے کے بعد باقی لوگ بھی آگئے‘‘۔
بچوں کی صحت وتندرستی کے تعلق سے بہار کی بدلتی تصویر کو سمجھنے کی کوشش کے درمیان یہ تاثرابھرکر سامنے آیاکہ ’’عوام سے انہی کی زبان میں گفتگو کرنے‘‘ اور صحت عامہ کے حوالہ سے انہیں سمجھانے سے نہ صرف یہ کہ لوگوں کی سمجھ میں بات آرہی ہے بلکہ وہ اپنے مقربین کو بھی بیدار کررہے ہیں۔
مہلک امراض سے بچاؤکیلئے ٹیکہ کاری کاعمل گرچہ پورے ملک میں چلایاجارہا ہے مگر بہارکی جو عمومی تصویر ابھرتی ہے،وہ اُن معنوں میں قدرے مختلف ہے کہ یہاں ناموافق و نامساعد حالات میں بھی حفظان صحت کے تئیں لوگوں میں بھی بیداری پیدا ہوئی ہے اور مفلوک الحال طبقہ بھی اب اپنے بچوں کی نگہداشت کے معاملہ میں خاصا بیدار ہوگیاہے۔اسی کے ساتھ ساتھ یہاں کے ہیلتھ ورکرس بھی جدید سہولیات سے آراستہ ہورہے ہیں۔ بیداری کا ہی ثبوت ہے کہ جہاں ایک طرف معاشرتی،تہذیبی،تمدنی ،تعلیمی اور معاشی پسماندگی کے باوجود معصوم کلیوں کی حفاظت کی فکرعام ہوئی ہے، وہیں اچھی بات یہ بھی سامنے آئی کہ ریاستی حکومت نے بھی ٹیکہ کاری کی خصوصی مہم کو استحکام بخشنے میں خصوصی دلچسپی دکھائی ہے اور نتیجتاًجن ضلعوں کو یونی سیف نے’’ہائی رسک‘‘ اضلاع کے زمرہ میں نہیں بھی رکھا ہے،وہاں بھی ریاستی حکومت اپنے طورپر خصوصی مہم کے سلسلوں کو دراز کرنے میں لگ گئی ہے۔یہ ایک مبارک قدم ہے،جس کا انکشاف یونی سیف بہار کے مقامی ذمہ داروں نے فیلڈ وزٹ کرنے والے میڈیاکے اہلکاروں کے ساتھ میٹنگ میں کیا۔
ٹیکہ کاری سے متعلقہ سرگرمیوں کا جائزہ لینے والی دہلی کے صحافیوں کی ٹیم جب گیا کے بیلا گنج میں واقع پرائمری ہیلتھ سنٹر پہنچی تو واقعی آنکھیں خیرہ ہوگئیں کیونکہ اس کا خواب وخیال میں بھی کسی نے تصورنہیں کیا تھا کہ یہاں کی خاتون ہیلتھ ورکر جنہیں سرکاری زبان میں اے این ایم کہاجاتاہے،ٹیب لیٹ بیسڈمدراینڈچائلڈ ٹریکنگ نظام سے آراستہ ہوں گی۔یہ وہ نظام ہے جس کے تحت بچوں کی پیدائش اورحاملہ خواتین سے متعلقہ معلومات خاتون ہیلتھ ورکروں کے ذریعہ آن لائن کرنے کی سہولت پیدا ہوگئی ہے۔بیلا گنج کی ایسی کم از کم 60خاتون ہیلتھ ورکروں کو یونی سیف کے پائلٹ پروجیکٹ کے تحت ٹیب مہیا کرائے گئے ہیں اور انہیں اس کی خصوصی ٹریننگ بھی دی گئی ہے کہ وہ کس طرح ماؤں اور بچوں کی کیفیات آن لائن کریں۔یونی سیف بہار کے ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر سید حب علی بتاتے ہیں کہ ’’ حاملہ خواتین اوربچوں سے متعلق معلومات یکجاکرنے کا نظام پورے ملک میں موجود ہے مگر یہ خود کاراندازمیں انجام پایاکرتا ہے۔اے این ایم اپنے رجسٹر میں تفصیلات درج کیا کرتی ہیں اوراس میں بعض اوقات تحریف سے بھی کام لینے کی شکایات موصول ہوتی رہی ہیں لیکن یونی سیف کے ذریعہ شروع کردہ یہ پائلٹ پروجیکٹ ایک مثالی منصوبہ ہے جس کے ذریعہ ڈیٹا انٹری سے ہیلتھ کے شعبہ میں مستند اور معتبرمعلومات اور اعدادوشمار سامنے آنا لازمی ہے‘‘۔بیلا گنج کی اے این ایم غالباًملک کیلئے رول ماڈل کے درجہ میں جگہ پانے میں کامیاب ہوں گی ،کیونکہ 60اے این ایم جس انداز میں تجرباتی طورپر مدر اینڈچائلڈٹریکنگ نظام سے مربوط نظر آئیں،ایسا کوئی نمونہ بہار سے باہر ملک میں کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔یونی سیف بہار کے ہیلتھ آفیسرڈاکٹرحب علی بتاتے ہیں کہ’’یونی سیف کے اس پائلٹ پروجیکٹ کے آغاز کا مقصد یہی ہے کہ اِس نظام کا تجربہ کیاجائے اور بعدہٗ اسے ملک گیر سطح پر متعارف کرانے کی گنجائش پیدا ہوسکے‘‘۔
یونی سیف کے ذریعہ شروع کیا گیا ٹیب بیسڈ’’مدر اینڈچائلڈٹریکنگ سسٹم‘‘ اگرملک میں متعارف ہوگیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دہلی میں بیٹھ کر یہ معلوم کرنا ممکن ہوجائے گا کہ کس دن،کس گاؤں میں کتنے بچوں کی پیدائش ہوئی یا کس قصبہ میں کتنی مائیں ’امید‘سے ہیں۔آن لائن نظام کاتجربہ اگر کامیاب رہاتوبعد ازآزمائش اِس کا نفاذ پورے ملک میں ہوجانے کی امید کی جاسکتی ہے جو یقیناصحت کے شعبہ میں انقلابی قدم بھی قرارپائے گا۔گیا کے بیلا گنج کوایسا محسوس ہوتاہے کہ یونی سیف نے گودلے رکھا ہے کیونکہ یہاں بچوں کی بہبودی کو یقینی بنانے والے کئی دوسرے اقدام بھی کئے گئے ہیں۔مثلاً’’پورٹیبل بے بی وارمر‘‘کی موجودگی یہاں کے شفاخانہ کی قدروقیمت میں اضافہ کا سبب بن رہاہے۔بے بی وارمر اُس مشین کا نام ہے،جس میں اُن کمزور بچوں کو رکھاجاتا ہے جن کی قبل از وقت ولادت ہوتی ہے اور جو جسمانی لحاظ سے کمزور ہوا کرتے ہیں۔’’پورٹیبل بے بی وارمر‘‘ کی خوبی یہ ہے کہ اگر بچہ کی حالت اچھی نہ ہو اور اُسے بڑے اسپتال میں منتقل کرنا ناگزیر ہوتوایسی صورت میں اُسے اس جدید آلہ سے حرارت پہنچاتے ہوئے بڑے اسپتال تک بھیج پانا خطرناک ثابت نہ ہوگا۔
بیلا گنج میں ہی ویکسین کے اُس جدید نوعیت کے اسٹور کو بھی دیکھنے کا موقع ملا جس میں مخصوص درجہ حرارت میں ویکسین کو رکھے جانے کی سہولت ہے۔ صحافیوں کی ٹیم جب بیلا گنج سے بودھ گیا پہنچی اورپھر وہاں سے ڈھوبھی کے پرائمری ہیلتھ سنٹر کا رُخ کیا تو کئی حیرت انگیز معلومات تک رسائی کی سبیل بھی نکل آئی۔یہاں کے پرائمری ہیلتھ سنٹر کے ذمہ دار ڈاکٹر اشتیاق الحق ایسے معالج کے طورپر جلوہ گر نظر آئے جنہیں علاقہ کے لوگ صحت عامہ کے شعبہ میں ایک مسیحاسے کم نہیں سمجھتے۔صرف اس وجہ سے نہیں کہ وہ خدمت خلق کا فریضہ کچھ زیادہ مستعدی کے ساتھ نبھارہے ہیں بلکہ اِس بناء پر بھی کہ اُن کی غیرمعمولی کوششوں کی وجہ سے یہاں صحت عامہ کے شعبہ میں انقلاب آفریں تبدیلی عمومی طورپر دیکھنے کو مل رہی ہے۔یہاں کے صحت مرکز کو یہ افتخار بھی حاصل ہے کہ اس علاقہ میں صد فیصدبچوں کی پیدائش یہیں ہو رہی ہے۔یعنی اب وہ زمانہ گیا،جب گھروں پر بچوں کی پیدا ئش ہوا کرتی تھی۔اسی کے ساتھ یہاں کے پرائمری ہیلتھ سنٹر کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں بچوں کو90فیصد خوراک کی فراہمی کے نشانہ حاصل کرنے میں بھی کامیابی مل گئی ہے۔ڈوبھی سے جب صحافیوں کی ٹیم نے پٹی بنگلہ جانے اور یہاں کی ٹیکہ کاری کے کاموں کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تو یہیں بہار سرکار کے’حرام خور ‘اہلکاروں کی بھی پول کھل گئی کہ وہ کس طرح فرائض کی ادائیگی سے غفلت برت رہے ہیں۔یہاں سے جب میڈیا کی ٹیم نے پٹی بنگلہ کا سفر شروع کیا تو ڈوبھی سے بہار سرکار کے ایک ایسے اہلکار کو رہبری کی ذمہ داری سپرد کی گئی،جس کا کام ہی یہ ہے کہ وہ جگہ جگہ لگنے والے ٹیکہ کاری مراکز کادورہ کر کے کام کی نگرانی کرے۔یہ بھی کسی اتفاق سے کم نہیں کہ سرکار کی فائلوں میں نگراں کا رول نبھانے والا مذکورہ اہلکار جب پٹی بنگلہ کا راستہ دکھانے کی غرض سے شریک سفر ہوا تو 10سے 15کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے اُسے راہ گیروں سے 6مقامات پر پٹی بنگلہ کا راستہ پوچھنا پڑ گیا جو یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ وہ نگرانی کے امور سے پوری طرح غفلت کا مرتکب تھا۔پٹی بنگلہ کے ٹیکہ کاری مرکز میں ایک ایسی خاتون سے بھی سامنا ہوگیا،جو کسی بھی صورت میں اپنے بچہ کو مہلک امراض سے بچاؤکا ٹیکہ لگوانے کو آمادہ نہیں تھی،مگر اچھی بات یہ رہی کہ جب میڈیا کے عہدیداروں سے اُس کا سامنا ہوا تو آخر کار وہ گھر گئی اور اپنے بچہ لے کر واپس آئی اوراُس نے آخر کار بچہ کو ویکسین لگوایا۔(یو این این)
جواب دیں