عارف عزیز(بھوپال) ہماری طبی خدمات بہت زیادہ مہنگی ہیں، جو غریبوں کی پہنچ سے کافی دور ہوگئی ہیں۔ صحت، تعلیم، کھانا پینا، رہائش زندگی کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ ہمارے ملک میں غریبوں اور امیروں کے درمیان خلیج بہت چوڑی ہوگئی ہے۔ اسے پاٹنے کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ دراصل معاشی اور سماجی ناہمواریاں […]
ہماری طبی خدمات بہت زیادہ مہنگی ہیں، جو غریبوں کی پہنچ سے کافی دور ہوگئی ہیں۔ صحت، تعلیم، کھانا پینا، رہائش زندگی کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ ہمارے ملک میں غریبوں اور امیروں کے درمیان خلیج بہت چوڑی ہوگئی ہے۔ اسے پاٹنے کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ دراصل معاشی اور سماجی ناہمواریاں صحت کی ناسازگار صورتحال کو جنم دیتی ہیں۔ غذا کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہمارے ملک کی ۰۷ فیصد مالیات اور ذرائع و وسائل پر کچھ ہزار سے بھی کم لوگوں نے قبضہ جمارکھا ہے۔ آج ملک کی تقریباً آدھی آبادی ۰۲ سے ۲۳روپے یومیہ میں گزر بسر کرنے کو مجبور ہے لیکن دوسری طرف کچھ ہزار لوگ ۵ سے ۶کروڑ روپے کا پیکج لیتے ہیں نابرابری کی یہ خلیج دنوں دن چوڑی ہوتی جارہی ہے۔ دستور میں اس کی گنجائش ہوتے ہوئے بھی کہ شہریوں کو صحت اور تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں کی ہوگی، حکومت اسے پورا کرنے سے اکثر کتراتی ہے۔ صحت سرویسس کی نجی کاری جاری ہے جس سے عام لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ عام لوگ آج جہاں بنیادی صحت خدمات کی سہولتوں کی کمی سے جوجھ رہے ہیں تو وہیں دوسری طرف ہمارا ملک میڈیکل ٹورزم کے نام پر غیر ملکی امیروں کی صحت کی سیرگاہ بنتا جارہا ہے۔ صحت خرچ کا مقابلہ جب ہم دیگر ممالک سے کرتے ہیں تو ہمارے ملک کا مقام نیچے سے چھٹا آتا ہے ۔یعنی ہمارے ملک سے اوپر ملیشیا، سری لنکا، تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش ہیں۔ چین کو تو چھوڑ ہی دیا جائے۔ سابق یوجنا آیوگ کے مطابق ہندوستان میں چھ لاکھ ڈاکٹرس، ۰۱ لاکھ نرسیس اور ۲ لاکھ ماہرین امراض دندان کی کمی تھی، ان کے ساتھ ساتھ پیرامیڈیکل اسٹاف کی بھی بھاری کمی ہے۔ موجودہ وقت میں ملک میں میڈیکل طرز علاج کے لگ بھگ ۰۰۰۵۲۱۱ ڈاکٹرس متعدد میڈیکل بورڈوں میں رجسٹرڈ ہیں جن میں سے محض ۰۰۰۵۲۱ ہی سرکاری اسپتالوں میں کام کررہے ہیں۔ قومی صحت پالیسی ۲۰۰۲ میں کہا گیا ہے کہ عوامی شعبوں کا استعمال سماج کے سبھی طبقات کے لئے نہیں بلکہ کچھ مخصوص شعبوں میں مہارت رکھنے والوں کے لئے ہی کیا جائے گا۔ جو لوگ خوشحال ہیں ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ نجی شعبوں سے صحت سرویسس کو خریدیں۔ نجی کاری کو فروغ دیئے جانے کے لئے سرکار نے معاشی خاص طور پر غیر ملکی سرکاری بیمہ پالیسی، ٹیکس رعایت وغیرہ کئی ایسے متبادل وجود میں لائے ہیں جو کہ صحت خدمات کی بازار کاری کرنے میں مددگار ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیکل ٹورزم کو بڑھاوا دیئے جانے سے بھی نجی کاری کو مدد ملتی ہے۔ ان کے مدنظر تمام ریاستوں کی حکومتوں نے قسم ہا قسم کے مخصوص پیکیج بنائے ہیں تاکہ صحت کے شعبے میں نجی کاری سے متعلقہ آلات و اشیاء کی سرمایہ کاری کو اُبھارا جاسکے۔ نجی میڈیکل اور نرسنگ کالج، نجی اسپتال، نرسنگ ہومس، ڈائگناسٹک مراکز وغیرہ کھولنے والوں کے حوصلے بڑھانے کے لئے حکومت ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ اس کے لئے انھیں سستی زمینیں، اسٹامپ ڈیوٹی میں رعایت، بجلی کے بلوں میں چھوٹ وغیرہ دی جاتی ہے۔ لگاتار صحت خدمات نجی کرنے کے پیچھے حکومت کے ذریعہ اپنائی جارہی وہ پالیسیاں ہیں جو عام لوگوں سے کئے گئے وعدوں کے خلاف جاتی ہیں۔ کیونکہ آج تو کسی بھی سروس کا اصل مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوگیا ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
22اگست2020(فکروخبر)
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں