لیکن سب دیکھ رہے ہیں کہ ہر صوبہ میں ہی نہیں مرکزی حکومت میں بھی اس کا دخل ہندی سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آج بھی اچھی انگریزی کے بغیر کوئی بڑا افسر نہیں بن سکتا۔ رہی اردو تو اس کا کوئی کتنا بھی قابل اور ممتاز ہو وہ صرف ہندی اور اردو کے بل پر نہ آئی اے ایس بن سکتا ہے نہ پی سی ایس، نہ ایم بی بی ایس اور نہ انجینئر۔
مسز سونیا گاندھی کی قیادت والی حکومت میں تو حالت یہ تھی کہ وزیر مالیات، وزیر دفاع، وزیر پٹرولیم تقریباً آدھے وزیر وہ تھے جو ہندی میں بول نہیں پاتے تھے خود وزیر اعظم جب ہندی میں تقریر کرتے تھے تو ان کا انداز دیدنی ہوتا تھا اور اجلاس کے دوران ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اس ملک کی زبان ہی انگریزی ہے۔
معلوم نہیں یوپی ہندی ساہتیہ سمیلن کو اترپردیش میں اردو دوسری سرکاری زبان بن جانے کے بعد ہندی کی کون سی حق تلفی نظر آئی کہ وہ لنگر لنگوٹ کس کر سپریم کورٹ تک چلے گئے۔ اور ہم نہیں جانتے کہ وہاں سے ناکامی کے بعد لوجہاد جیسا کون سا فتنہ برپا ہوگا؟ سپریم کورٹ نے اپنے فاضلانہ فیصلے میں جو کچھ کہا وہ آپ سب نے پڑھ بھی لیا اور سن بھی لیا۔ اس فیصلہ پر اردو حلقوں میں پھر ایسا ہی جشن ہے جیسا اردو کو دوسری سرکاری زبان قرار دینے کے بعد ہوا تھا۔ اردو کے ممتاز ادیب ڈاکٹر ملک زادہ منظور صاحب نے بھی اس فیصلہ پر مسرت کا اظہار کیا اور ڈاکٹر مسلم نوری وغیرہ نے بھی اسے دستور کی فتح قرار دیا۔ اردو اکادمی کے چیئرمین ڈاکٹر نواز دیوبندی نے کہا کہ عدالت کے اس راحت افزا فیصلے سے محبان اردو کے حوصلوں میں اضافہ ہوا ہے اور اب اترپردیش اردو اکادمی بھی لسانی زبان کے طور پر اردو کو ابتدائی اسکولوں میں لازمی مضمون کے طور پر شامل کرنے کا حکومت سے مطالبہ کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب صوبہ میں اردو کی نشر و اشاعت کی راہیں کھلیں گی اور اردو پھلے پھولے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ حکومت یوپی سے اردو کو ثانوی زبان کے طور پر داخل کئے جانے کی درخواست کریں گے۔ مسٹر نواز دیوبندی نے سپریم کورٹ میں برسوں سے سماعت کے لئے پڑے اس مقدمہ کے فیصلہ کو اردو کی فلاح و بہبود کا ضامن قرار دیا۔ ڈاکٹر نواز صاحب نے کہا کہ اردو نواز سماجوادی حکومت اردو کے لئے اب مزید اقدام کرے گی اور اب سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد سرکاری سطح پر اردو کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوں گی۔
ہمیں عرض کرنا ہے کہ ملائم سنگھ صاحب نے 1989 ء میں اردو کو دوسری سرکاری زبان قرار دیا تھا۔ اور سپریم کورٹ میں 1997 ء سے ہندی ساہتیہ سمیلن کا یہ مقدمہ سماعت کے لئے پڑا تھا اور جہاں تک حافظہ کام کرتا ہے سپریم کورٹ نے دوسری سرکاری زبان کے حکم کو اسٹے بھی نہیں کیا تھا یعنی اب تک ملائم سنگھ حکومت کو کچھ بھی کرنے کی پوری آزادی تھی۔ پھر سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد ایسا کیا مل گیا کہ اب اردو حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ رہی ہے؟ اکادمی کے چیئرمین صاحب نے بھی یہ نہیں کہا کہ اب اردو لازمی طور پر ابتدائی اسکولوں میں شامل ہوجائے گی یا اسکولوں میں ثانوی زبان کے طور پر داخل ہوجائے گی بلکہ یہ کہا ہے کہ ایسا کرانے کی حکومت سے درخواست کریں گے۔
اردو کا اصل مسئلہ تو سہ لسانی فارمولے کا ہے جب تک اردو کو سہ لسانی فارمولے میں جگہ نہیں ملے گی بس وہی ہوگا جو بہار میں ہورہا ہے یا اترپردیش میں 1989 ء سے ہورہا ہے۔ اردو ایک اختیاری مضمون ہے جس کے نہ پڑھنے والے ہیں اور نہ پڑھانے والے۔ پڑھنے والے اس لئے نہیں ہیں کہ اسے پڑھنے کے بعد دینی معلومات تو ہوجائیں گی مگر کوئی دنیاوی فائدہ نہیں ہوگا اردو والوں کی طرف سے بار بار کہا گیا ہے کہ اردو کو جب تک روزی روٹی سے نہیں جوڑا جائے گا اردو کا بھلا نہیں ہوگا لیکن حکومت نے اس پر غور نہیں کیا۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ اردو اکادمی کے لئے جو سکریٹری صاحب بھیجے گئے انہیں اردو نہیں آتی تھی۔ اس وقت منور رانا صدر تھے انہوں نے ہنگامہ مچایا تو شمیم صاحب کو بھیجا گیا۔ اترپردیش کا عربی فارسی بورڈ اردو اکادمی سے بہت بڑا ادارہ ہے اس کے تحت ہر سال پانچ لاکھ سے زیادہ بچے امتحان دیتے ہیں حکومت کا اس کے ساتھ سلوک یہ ہے کہ نہ اس کی کوئی عمارت ہے نہ باقاعدہ دفتر نہ چیئرمین کے لئے کوئی الگ کمرہ اور انتہا تو یہ ہے اس کے اسٹاف میں زیادہ تعداد ان کی ہے جو صرف ہندی جانتے ہیں اور عربی فارسی بورڈ میں نوکری کررہے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے یا ہندی ساہتیہ سمیلن کی ذلت اور اردو دشمنی کی ہار سے ہمیں خوشی نہیں ہوئی لیکن ہماری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ عدالت کے فیصلہ سے ہمارے سنہرے خوابوں کی تعبیر کیسے مل گئی؟ حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیں تھے جو فیصلہ سے کھل گئے اردو کے لئے شری اکھلیش یادو کی حکومت اگر ایک سال پہلے کچھ کرسکتی تھی تو اب بھی بس وہی کرسکتی ہے سماجوادی حکومت نے کہا ضرور کہ آپ اردو میں درخواست دیجئے آپ کو اردو میں جواب ملے گا لیکن ہمیں تو کوئی ایسا ملا نہیں جس نے بتایا ہو کہ سرکاری افسر نے اسے اردو میں جواب دیا ہے؟ ہم تو صرف دعا کرسکتے ہیں کہ خدا کرے ڈاکٹر نواز دیوبندی اردو اسکولوں میں اردو تعلیم کو ثانوی طور پر پڑھوانے میں کامیاب ہوجائیں یعنی سہ لسانی فارمولہ میں اردو کو جگہ دلوادیں۔
جواب دیں