شکریہ! حضرت مچھر

پھر تاریکی نے حواس کو اپنی چادر میں لپیٹ لیا۔۔۔ میری آنکھ بند مگر ذہن بیدار تھا۔ ایک اندرونی کشمکش سے دوچار تھا۔ یا پروردگار! یہ کیا ہوگیا۔ دماغ اور زبان کے درمیان رابطہ قطع کیوں ہوگیا۔ اسی کشمکش کے دوران پھر نیند یا غشی طاری ہوگئی۔ یہ جمعہ 21فروری کا واقعہ ہے۔ ایک دن پہلے اچانک بخار نے شدید حملہ کیا اور اسی شام سے غنودگی طاری ہوگئی تھی۔ جمعرات کی شب اور ہفتہ کی دوپہر تک کیا ہوا، کیوں ہوا، کیسے ہوا کچھ کچھ یاد ہے ایک خواب کی طرح۔ زندگی میں شاید یہ پہلا موقع تھا جب میں اس کیفیت سے دوچار ہوا۔ اتنا یاد ہے کہ بچوں نے محلے ہی کے ایک نرسنگ ہوم میں منتقل کیا۔ ہفتہ کو جب حواس پوری طرح سے بحال ہوئے تو کڑواہٹ ناقابل برداشت تھی۔ فیزیشن نے پہلے معائنہ کیا۔ اس دوران اسے میرے بائیں پیر کو دکھایا گیا اور فیزیشن کو میری حالت کی وجہ سمجھ میں آگئی۔ اس نے میرے کاندھے پر تھپتھپاتے ہوئے کہا کہ پریشانی کی بات نہیں ہے‘ مچھر کے کاٹنے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔
مچھر کا کاٹنا ایک عبرتناک سزا بھی ہوسکتا ہے۔ انسان تو بیمار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ جو شافی ہے‘ اس نے ہر مرض کا علاج بھی رکھا ہے۔ مچھر کا ذکر آتے ہی میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ ایسا کونسا گناہ ہوا‘ جس کی وجہ سے یہ حالت ہوئی۔ ایک معمولی سا مچھر۔۔۔
مگر مچھر معمولی کہاں ہوتا ہے۔ اس کا تو ذکر حقیر مثال کے طور پر ہی سہی‘ قرآن مجید میں ہی کردیا گیا‘ اور یہی مچھر خدائی کے دعویدار نمرود کے عبرتناک کیفر کردار کا سبب بنا۔ یہ مچھر ہی ہوتے ہیں جنہیں ایک ملک دوسرے ملک کے خلاف ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کرتا ہے جن کے ذریعہ وائرس پھیلائے جاتے ہیں۔ اور اب بھی جیلوں میں قیدیوں کو جو سب سے زیادہ سزا ملتی ہے وہ مچھر کاٹنے سے ملتی ہے۔ انہی مچھروں نے تو دواخانوں کو آباد کرکے رکھا ہے۔ بہرحال میں دل ہی دل میں پروردگار سے دعا مانگتا رہا اس کے کرم کی کہ اگر یہ میرے کسی گناہوں کی سزا ہے تو اسے معاف فرما۔
مچھر اور انسان کا ازل سے تعلق رہا ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان میں خون کا رشتہ ہے۔ جس طرح انسان کے آپسی خون کے رشتے نقصان پہنچاتے ہیں‘ حضرت مچھر بھی اس معاملہ میں پیچھے نہیں رہتے۔ کیوں کہ ان کی بقاء انسانی خون پر ہی ہے۔ مچھر اور ہم ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ہم اسے ضرب المثل کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں جیسے مچھر پہلوان، مچھر مار، وغیرہ وغیرہ۔ مچھروں سے دفاع کے لئے ہم نے ہر دور میں کوشش کی۔ کبھی خود کو دھوئیں کے حصار میں محصور کیا تو کبھی مچھر دان میں پناہ لی مگر جب مچھروں کو ان کی اہمیت کا اندازہ ہوا کہ ان سے بچاؤ کے لئے جو ساز و سامان استعمال کیا جارہا ہے اسے مچھر دان کانام دیا جارہا ہے۔ تو انہوں نے خود اس میں پناہ لینی شروع کی اور ہم خود کئی بار مچھر دانی کے اندر گھنٹوں ان سے مقابلہ کرتے رہے۔ جب ہم تھک جاتے تو وہ اپنی مدھر آواز کیساتھ فاتحانہ انداز میں مچھر دان میں گشت لگاتے اور پھر اپنی پسندیدہ جگہ پر ڈنک لگاتے۔ ہم انہیں مارنے کی کوشش میں اپنے آپ کو مار لیتے۔ کئی بیویوں کو ہم نے حالت نیند میں مچھر مارنے کے بہانے شوہر کو طمانچے لگادیتے دیکھا ہے اور یہ اعتراف کرتے ہوئے کوئی جھجک نہیں کہ ہم بھی ان میں شامل ہیں۔
مچھر مار بتی ایجاد ہوئی۔ دمہ کے مریض بڑھ گئے۔ پھرفال آؤٹ جیسی مچھر بھگاؤلکویڈس کی ایجاد ہوئی تو جیسے مچھر برادری کے اچھے دن آگئے کیوں کہ اب تو جیسے ہی یہ لکویڈ سوئچ میں لگاکر آن کیا جاتا ہے جانے کہاں کہاں سے چھپے ہوئے بلکہ اڑوس پڑوس کے اور دورو دراز بستیوں کے مچھر بھی پہنچ جاتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے نظام کلب میں ہم نے اپنے جانے پہچانے معقول شخص کو دیکھا جو تنہا فضا میں بیاٹ گھوماتے داخل ہورہے تھے۔ کچھ دیر کے لئے ہمیں یہ خیال ہوا کہ ثانیہ مرزا یا سائنا نیہوال کا اثر اس قدر ہوگیا ہے کہ اچھے خاصے لوگ بھی تنہا ہی سہی اپنا شوق پورا کررہے ہیں۔ کچھ دیر بعد انہوں نے اپنے شوق کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس بیاٹ سے گیند یا کاک نہیں بلکہ مچھر کو نشانہ بناتے ہیں۔
مچھروں کی بدولت مچھر مار ادویات کی انڈسٹریز زندہ ہے۔ یہ ان کا طفیل ہے کہ ہاسپٹلس آباد ہیں۔ ملیریا، ٹائیفاڈ، ڈنگو جیسے امراض عام ہیں۔ ہر کچھ عرصہ بعد ڈنگو کی وباء پھیلتی ہے۔ کبھی اسے جاپانی بخار کا نام دیاجاتا ہے اور ڈاکٹرس اور میڈیکل ہالس کا سیزن شروع ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ شبہ ہوتا ہے کہ محکمہ بلدیہ اور ڈاکٹرس میڈیکل ہالس کے درمیان خفیہ ساز باز ہے۔ کیوں کہ اگر وہ شہر کی صفائی باقاعدگی سے کرتے رہے تو مچھروں کے لئے شہر میں کیا کام۔ اس کی تحقیقات کی جانی چاہئے۔
مچھر ہماری معیشت کے استحکام کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔ ان کی بدولت کتنی انڈسٹریز کامیاب ہیں۔ چاہے وہ ان سے بچاؤ یا ان کے داخلے کو روکنے کے لئے تیار کی جانے والی آہنی جالیوں والی صنعت ہو یا مچھر کش ادویات صنعت۔
بہرحال ڈاکٹر نے بتایا کہ مچھر کاٹنے سے جو میری کیفیت ہوئی اسے Cellulitis کہتے ہیں۔ جسم کے نچلے حصے پیروں پر جب مچھر کاٹتا ہے‘ اس سے جو انفیکشن پھیلتا ہے۔ جلد کے کمزور حصہ پر خراش، جلا ہوا حصہ ہو یا جلد کٹی پھٹی ہو تو اس حصہ پر بیکٹریا اثرانداز ہوتے ہیں۔ مچھر بھی انسان کی طرح کمزوریوں کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔ ایک فرد ہو یا خاندان یا کوئی ملک اس میں کوئی کمزوری ہو یا رشتوں میں دراڑ‘ دشمن اسی کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اسی کمزور حصہ پر نشانہ بنانے اسے زیر کرلیتے ہیں۔ ایک مچھر بھی اسی طرح انسان کو جو اپنے آپ کو سب کچھ سمجھنے لگتا ہے آسانی سے زیر کرلیتا ہے۔ اس مرض کے علاج کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ تاثرہ ٹانگ کو ہمیشہ سطح سے اونچی رکھی جائے۔ اگرچہ کہ ہمیشہ سے ہم ’’گرے تو گرے اپنی ٹانگ اونچی‘‘ کے قول پر اٹل رہے‘ مگر عملی طور پر ٹانگ اونچی رکھنے کا موقع آیا تو اپنے آپ سے شرم سی آنے لگی۔ Cellulitis سے مکمل شفایابی کے لئے کم از کم ایک مہینہ درکار ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ان دنوں وقت پنکھ لگاکر اڑنے لگا ہے۔ مگر جو لوگ مختلف امراض میں دواخانوں میں زیر علاج ہیں ان کے لئے وقت کچھوے کی رفتار سے چلتا ہے۔
نرسنگ ہوم کے بیڈ پر رات میں نہ جانے کتنی بار آنکھ کھلتی ہے اور دوسری بار نیند آنے تک کتنے خیالات، وسوسے، اندیشے منڈلاتے رہتے ہیں۔ یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے مسلمان پیدا کیا اور اس نے ایمان راسخ عطا کیا کہ جو بھی ہوتا ہے اچھے ہی کے لئے ہوتا ہے۔ شاید جسم کو اور اعصاب کو آرام کی ضرورت تھی۔ وہ اس بہانے پوری کی جارہی ہے۔ یہ راتیں جو انشاء اللہ زندگی میں ’’آرام کے لئے‘‘ نصیب ہوں گی‘ مطالعہ کے ذریعہ کاٹی جاسکتی ہیں۔ ذہنی تطہیر، روح کی آلودگیوں کو سلف صالحین کے ملفوظات کے مطالعہ سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ مکمل حواس میں آنے کے بعد پہلی رات ایسے ہی کتاب کا سرسری جائزہ لیا تو مجھے محسوس ہوا کہ جس طرح سے پیر کا انفیکشن مختلف دواؤں سے آہستہ آہستہ دور ہورہا ہے اسی طرح ذہن پر چھائی ہوئی آلودگی، گرد و غبار چھٹنے لگی ہے۔ شاید میری زندگی کا یہ پہلا موقع ہے کہ میں لگ بھگ ایک ہفتہ دواخانے میں زیر علاج رہا‘ کسی انسان کو اپنی اصلاح کے لئے اپنے گناہوں سے توبہ کے لئے ایک اچھے مستقبل اور سیدھے راستہ پر چلنے کے عزائم کے لئے اُسے بیمار ہونا چاہئے۔ کیوں کہ حالت مرض میں انسان کو اپنی بے بسی کا احساس ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر نعمت سے کراہیت اور اپنی ہر محبوب شئے سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ یوں تو بحیثیت مسلمان ہم باربار کہتے ہیں کہ ہر شئے پر قادر اللہ کی ذات ہے مگر انسان اپنے اقتدار، دولت، طاقت، جوانی، اولاد کے زعم میں ہر عمل سے یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے جیسا کہ قسمت سنوار سکتا ہے کسی کا نصیب بگاڑ سکتاہے کسی کو تباہ و تاراج کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے کسی کو آسمانوں تک پہنچانے کے وعدے کرتاہے مگر حالت مرض میں ہی اس انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ تو کچھ بھی نہیں اس کی دولت، اس کا اقتدار، اس کا سب کچھ اس کی زبان کی کڑواہٹ کو کم نہیں کرسکتا۔ اس کی حالت کو رتی برابر بدل نہیں سکتا۔ ہم مستقبل کے منصوبے بناتے ہیں ایسا کریں گے، ویسا کریں گے، مگر جب ایک معمولی مچھر کا ڈنک آپ کے تمام منصوبوں کو پامال کردیتا ہے تو ایسے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول یاد آنے لگتا ہے کہ ’’جب جب میرے منصوبے ناکام ہوئے میں نے اللہ کو پہچانا‘‘۔
بہرکیف! انسان جب تک پریشان ہوتا ہے‘ بیمار رہتا ہے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔ جب اس کی پریشانی اللہ تعالیٰ دور ہوجاتا ہے اور وہ صحت یاب ہوجاتا ہے تو اپنی اصلیت پر آجاتا ہے۔ کم از کم بستر مرض پر اس کے خیالات تو بدلتے ہیں اور کسی قدر نیک ہوجاتے ہیں۔ ہم بھی آج ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ ان پر قائم رکھے۔ ویسے ہم حضرت مچھر کے احسان مند بھی ہیں کہ وہ ہم سے محبت کا اظہار نہ کرتے اور ہم ان خیالات کا اظہار نہ کرتے۔

«
»

ایک تھا بادشاہ

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے