شیرور سڑک حادثہ سے سبق لینے کی ضرورت کیوں؟

تحریر: عتیق الرحمن ڈانگی ندوی 
رفیق فکروخبر بھٹکل

شیرور ٹول گیٹ کے قریب بھیانک سڑک حادثہ میں ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے خوبصورت اور خوبرو نوجوان نے اپنی آخری سانس لی۔ ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی؟ جوانی کی شروعات تھی، ابھی تو خواہشات جنم لے رہی تھیں؟ وہ اپنے مستقبل کے حسین خواب دیکھنے ہی لگا تھا، یہی وہ عمر ہے جس میں نوجوانوں میں طرح طرح کے شوق پیدا ہوتے ہیں، اگر انہیں صحیح رخ نہ دیا جائے تو یہ خواہشات، مستقبل کے حسین خواب اور ان کے نت نئے شوق غلط رخ پر چل دیتے ہیں اور پھر اس کے بعد جب معاملہ حد سے آگے بڑھ جاتاہے تو پھر چڑیا چگ گئی کھیت والا معاملہ بن جاتا ہے۔ 
شیرور کے اس نوجوان کی عمر اٹھارہ سال سے کم بتائی جارہی ہے اور حکومتی قوانین کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر کے افراد کا  بائک چلانا  جرم ہے اور قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اتنے سخت قانون کے باوجود ہمارے بچے یہ قدم کیوں اٹھاتے ہیں؟ 

 پندرہ سال کے بعد مختلف قسم کے شوق بچوں میں پیدا ہوتے ہیں جن میں سے ایک اہم گاڑی چلانا ہے، اس شوق کو پورا کرنے کے لیے بچے کیا کیا نہیں کرتے اس بارے میں لکھنے کے علیحدہ مضمون کی ضرورت ہے۔ زیادہ تر وہ ایسے بچوں سے دوستی کرتے ہیں جن کے والدین انہیں گاڑیاں دیتے ہیں اور پھر اسی کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے گھر میں ہلہ مچاتے ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ان کی ضد کے سامنے والدین ہتھیار ڈالدیتے ہیں۔ اس موقع پر والدین کی طرف سے اپنے بچوں کو سمجھانے کی ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ عموماً اس عمر کے بچے شوق میں گاڑیاں اس تیزی کے ساتھ چلاتے ہیں کہ خدا کی پناہ! سڑکوں پر چلنے والوں کو بچوں کی جان سے اپنی جان کی فکر ہوتی ہے۔ اگر غلطی سے اس کی گاڑی کسی سے ٹکرا بھی جاتی ہے تو سامنے والے کو لڑکے سے زیادہ نقصان ہونے کے امکانات ہوتے ہیں اور بسا اوقات سامنے والا جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، کئی ایک واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ بچوں نے خود ہی اپنی جان جوکھم میں ڈال دی  اور نتیجۃً وہ اپنے خاندان والوں کو غمگین کرگئے۔ والدین کی یہ بڑی ذمہ داری ہے  کہ وہ کسی بھی صورت میں اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کو بائک ہرگز نہ دیں اور قانون پر پوری طرح عمل کرتے ہوئے اپنے لاڈلوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کی جانوں بھی خطرے میں نہ ڈالیں۔ 
یہاں ایک بات ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ اگر کم عمر بائک چلارہا ہے تو اسے روکنے والے کو کبھی کبھار اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ وہ پھر کبھی روکنے  ہمت نہیں جٹا سکتے۔ بچوں کی صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بڑوں اور چھوٹوں میں فرق نہیں کرپاتے ہیں۔ سڑک پر چلتے ہوئے کسی کم عمر کو آپ بائک نہ چلانے کی نصیحت کرکے دیکھ لیں، آپ کوبہت کم وہ ملیں گے جو آپ کی باتوں کو سن کر عمل کرنے کے بارے میں سوچیں لیکن اکثریت ایسے بچوں کی ہے جو سنی اَن سنی کردیتے ہیں اور بعض تو جواب دے کر بڑوں اور چھوٹوں کے فرق کو ہی ختم کردیتے ہیں۔ 
بہر حال موت کا آنا حقیقی ہے اور وہ کس حال میں آئے کسی کو نہیں معلوم لیکن حادثات سے ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے اور احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے ہی میں ہماری عافیت ہے۔

«
»

بنگال پر فرقہ پرستی اور فسطائیت کا حملہ ….. سب کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا چاہئے

اگر اظہار راۓ کی آزادی نہ بچی، تو آئینی جمہوریت نہیں بچ پائے گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے