شیر کشمیر اسٹیڈیم میں سنگھ کا شیر

وہ کشمیر جا جاکر کشمیریوں کا دل جیتنا چاہتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ وہ جب لوک سبھا کے الیکشن سے پہلے انتخابی مہم پر گئے تھے تو انہوں نے کشمیری پنڈتوں کا بھی بڑے تلخ لہجہ میں ذکر کیا تھا اور دفعہ 370 کے متعلق بھی کہا تھا کہ اس دفعہ پر بحث ہونا چاہئے کہ یہ رہے یا نہ رہے؟ لیکن اس کے بعد سے وہ چھ بار جاچکے ہیں انہوں نے نہ خود اس کا ذکر کیا اور نہ کسی اپنے ایم پی کو اس کی اجازت دی۔ 8 دسمبر کو انہوں نے شیرکشمیر اسٹیڈیم میں کشمیری عوام کو خطاب کیا اور وہی انداز رکھا جو ہر جگہ رکھتے ہیں کہ آپ نے جو مجھے پیار دیا ہے میں وکاس کی شکل میں اسے معہ سود کے لوٹاؤں گا انہوں نے اپنی گرجدار آواز میں نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے کے 47 رائفل سے ووٹنگ مشین زیادہ طاقتور ہوتی ہے کلاشنکوف کو انگلی سے دباؤ تو آدمی کی جان جاتی ہے اور مشین کا بٹن دباؤ تو وہ ملک کی تقدیر بدلتی ہے۔ وزیر اعظم نے کشمیری عوام سے کہا کہ آپ کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ میں دوں گا انہوں نے خاص طور پر نوجوانوں کو روزگار دینے کی بات کہی جس وقت وہ نوجوانوں کو مخاطب کررہے تھے اسی وقت کسی چینل کا رپورٹر بتا رہا تھا کہ تمام نوجوانوں کو تو ان کے گھروں میں بند کردیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ نے بعد میں بتایا کہ تقریر سننے کے لئے 80 بسوں اور دو ٹرینوں میں سننے والے جموں اور قرب و جوار سے لائے گئے تھے۔
نریندر مودی نے کشمیر میں بھی باپ بیٹی (مفتی اور دُختر مفتی) کی حکومت اور باپ بیٹے (فاروق عبداللہ اور عمرعبداللہ) کی حکومت کے متعلق عوام کو بتایا کہ آپ کے لئے جو بھیجا وہ سب کھا گئے۔ پھر انہوں نے بی جے پی کی مکمل اکثریت کی حکومت کو کشمیر کے ہر مسئلہ کا حل بتایا اور ووٹ لینے کے لئے عہد لیا۔ وزیر اعظم نے پاکستان کی سرحد پر کھڑے ہونے کے باوجود گذرے ہوئے دنوں میں ہونے والے واقعات کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ سرحد پر ہونے کے باوجود پاکستان کو للکارا۔ بلکہ انہیں 70 فیصدی سے زیادہ ووٹ دینے پر مبارکباد دی اور باقی تین مرحلوں میں بھی اسی جوش و خروش سے ووٹ دینے کی اپیل کی۔
موجودہ وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ نے سختی کے ساتھ الیکشن کی اس لئے مخالفت کی تھی کہ ابھی لاکھوں آدمی ایسے ہیں جن کے مکان رہنے کے قابل نہیں ہیں اور جن کے کاروبار ابھی شروع بھی نہیں ہوئے۔ ہم نے اور ہماری جیسی سوچ رکھنے والوں نے بھی کہا تھا کہ ملک کے دوسرے حصوں کے مقابلہ میں پانچ گنا سردی میں الیکشن کرانا اور ایسے لوگوں سے ووٹ مانگنا جن کی اکثریت آج بھی گرمی کی اور کمبلوں کی محتاج ہے انتہائی غیرجمہوری فعل ہے۔ رہی یہ بات کہ عمرعبداللہ کی حکومت کی چھ سال کی مدت ختم ہوگئی تھی اس لئے الیکشن کمیشن نے معمول کے مطابق اعلان کردیا معقول عذر نہیں ہے۔ ایسے بھی مواقع ہوتے ہیں جس کے لئے دستور نے صدرراج کا طریقہ رکھ دیا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ الیکشن کمیشن کو صدر راج پر آمادہ کرتی کہ وہ چھ مہینے کے بعد الیکشن کراتا۔ جن لوگوں کو شبہ ہے کہ 71 فیصدی پولنگ میں سب کچھ حقیقت نہیں ہے بلکہ وہ بھی ہے جو کشمیر میں بار بار ہوچکا ہے تو یہ بات ایسی نہیں ہے کہ اسے مسترد کردیا جائے۔ جیسے شیرکشمیر اسٹیڈیم میں ٹی وی چینلوں پر جو نظر آرہا تھا وہ خواتین کا مجمع تھا اور ان خواتین میں وہ انداز نہیں تھے جو کشمیری مسلمان عورتوں میں ہوتے ہیں۔ شاید عمرعبداللہ نے عبدالغنی لون اور مقامی بی جے پی کی طرف جو اُنگلی اُٹھائی ہے وہ اس طرح اشارہ کرنا چاہتے ہیں۔
وزیر اعظم نے ہر مہینے اپنی آمد کو کشمیریوں سے محبت کا جو سبب بتایا ہے اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ اصل وجہ یہ ہے کہ لوک سبھا کے الیکشن انہوں نے جیسے جیسے جیتے ہیں اس کے بعد ہریانہ اور مہاراشٹر میں انہوں نے کانگریس سے جیسے حکومت چھینی ہے وہ یہ چاہتے ہیں کہ کشمیر جھارکھنڈ اور ان کے بعد دہلی بھی اسی طرح فتح کرلیں اور پانچ برس پورے ہوتے ہوتے ایسا ہوجائے کہ پورے ملک میں بی جے پی کی حکومت ہو اور پورے ملک کے بادشاہ شری نریندرمودی ہوں۔
بی جے پی کو بہار، بنگال اور اُترپردیش میں زبردست مقابلہ کرنا پڑے گا اسی لئے کاموں کی تقسیم کچھ اس طرح ہوگئی ہے کہ ہر چھوٹی بڑی جگہ ڈائس پر تو مودی دہاڑیں گے اور جنہیں ووٹ لینے کا فرض ادا کرنا تھا یعنی بی جے پی کے صدر امت شاہ وہ ہر جگہ میرجعفر اور صادق تلاش کررہے ہیں جس کے وہ ماہر بتائے جاتے ہیں۔ اُترپردیش میں اب تک دو مسلمان سستے داموں میں مل جاتے تھے لیکن وہ شاید امت شاہ کے معیار پر پورے نہیں اُترے اسی لئے انہوں نے آندھرا سے ایک پوری پارٹی کو خرید لیا ہے جس نے لکھنؤ میں اپنا دفتر بھی کھول دیا اور 6 دسمبر کو بابری مسجد کے یوم غم میں شرکت کرکے اپنے کو ظاہر بھی کردیا ہے اور انجمن اتحاد المسلمین کے صدر مسٹر اسدالدین ایم پی نے تو پھوہڑپن کی حد ہی کردی کہ اعظم گڑھ کے کسی گاؤں کو اس لئے گود لینے کا اعلان کردیا کیونکہ حیدر آباد شہری سیٹ ہے اسی لئے اُترپردیش میں ملائم سنگھ کے مسلم ووٹ کاٹنے کے لئے اعظم گڑھ کے گاؤں کو گود لے رہے ہیں۔ شاید حیدر آباد اور اعظم گڑھ کے درمیان کوئی گاؤں نہیں ہے؟ مسلمان چھوٹے موٹے لیڈروں کا بکنا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن جو مسلمان اس وقت امت شاہ کے ہاتھوں بکے گا اسے کسی عالم سے معلوم کرنا چاہئے کہ اس کے اسلام پر تو کوئی داغ نہیں لگے گا؟ اسدالدین کو ملک کے ہر مسلمان لیڈر سے زیادہ پیسے ملے ہوں گے اس لئے کہ وہ مودی کو کتا اور ان کی نسل کو کتوں کی نسل کہنے کی ہمت رکھتے ہیں اس لئے ان کی قیمت سب سے زیادہ ہے اب یہ اعظم خاں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسدالدین اور امت شاہ کے رشتوں سے اُترپردیش کے مسلمانوں کو واقف کرائیں۔

«
»

ابھی انصاف بہت دور ہے

’’کن فیکون‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے