مسلم پرسنل لاء بورڈ بننے سے پہلے برسہابرس سے امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے اہتمام میں یہ خدمت کی جارہی تھی۔ یہ دونوں ریاستیں انتہائی غریب ہونے کی وجہ سے ایسے معاملات کا شکار رہتی تھیں کہ چھوٹے چھوٹے معاملات کے لئے بھی انہیں اتنا خرچ کرنا پڑتا تھا کہ جس کا معاملہ ہو وہ تباہ ہوجاتا تھا۔ ان ریاستوں میں زیادہ تر معاملے ایسی شادیوں کے ہوتے تھے کہ کسی لڑکے نے شادی کی پھر سال دو سال کے بعد وہ یہ کہہ کر کہیں چلا گیا کہ ممبئی جارہا ہے وہاں سے کماکر لائے گا یا تمہیں بھی بلالے گا اور پھر ایسا غائب ہوا کہ برسوں اس کی کوئی خبر ہی نہیں ملی۔ اور وہ بدنصیب انتظار کرتے کرتے کوئی غلط قدم اٹھا بیٹھی یا وہ بھی کسی کے ساتھ بھاگ گئی۔ امارت شرعیہ نے اس پر روک لگانے کے لئے پورے بہار و اُڑیسہ میں ہر شہر میں ایک مرکز بنایا اور گاؤں گاؤں اعلان کرایا کہ اگر کوئی ایسا واقعہ ہو تو امارت شرعیہ کے دفتر میں اس کی اطلاع کی جائے۔ اس کے بعد وہ ہفت روزہ نقیب میں اس کا اعلان کرتے تھے اور پوری تفصیل کے بعد لکھ دیتے تھے کہ اگر چھ مہینے کے اندر خود حاضر ہوکر یا اپنے کسی سرپرست کے ذریعہ یا اپنی تحریر میں اپنا بیان نہیں درج کرایا تو آپ کو مفقود الجز قرار دے کر آپ کا نکاح فسخ کردیا جائے گا اور آپ کی اہلیہ کا کسی دوسرے کے ساتھ نکاح کردیا جائے گا۔
امارت شرعیہ نے اس کی کامیابی کے بعد چھوٹے چھوٹے طلاق یا ترکہ کے مسائل بھی اپنے ہاتھ میں لے لئے اور اس طرح دارالقضاء کی بنیاد پڑگئی۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کیونکہ کل ہند تنظیم ہے اس لئے اس نے جب اسے اپنا یا تو کشمیر سے کنیا کماری تک پورے ملک میں اس کا جال پھیل گیا اور سوامی ذہن کے ہندو وکیل یہ سمجھنے لگے کہ اب مسلمانوں کو شاید ہماری ضرورت ہی نہ رہے۔ یا اور کوئی بات ہو؟
ہمیں یاد نہیں کہ کبھی کسی مسلمان وکیل نے کسی ہندو تنظیم کو یا کسی بھی ہندوؤں کے مسئلہ کو عدالت میں اٹھایا ہو اور نہ ہمارے ہندو وکیلوں کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے سامنے جاٹوں کی پنچایتوں یا کھاپ پنچایتوں کی تفصیل بیان کرتے۔ عدالت نے مسلمانوں سے کہا کہ آپ کسی کو اس کی عدم موجودگی میں سزا نہیں دے سکتے۔ لیکن کسی بھی شہر یا صوبہ کی کھاپ پنچایت میں جو سزائیں دی گئی ہیں اس پر کسی نے نہ اعتراض کیا نہ اُن کے پنچوں کو تاعمر جیل میں ڈالنے کا حکم دیا۔ دارالقضاء زیادہ سے زیادہ مفقود الجز مان کر اس کی بیوی کو دوسرا نکاح کرنے کی اجازت دے دیتا ہے لیکن کھاپ پنچایت تو سزائے موت دیتی ہے اور اس پر عمل بھی کراتی ہے۔ پورا ملک جانتا ہے کہ درجنوں لڑکے اور لڑکیاں گولی سے، تلوار سے اور لاٹھیوں سے موت کے گھاٹ اتار دی گئیں اور نہ مارنے والوں کو سزا ہوئی نہ حکم دینے والے جاہل پنچوں کو۔ اسی کھاپ پنچایت نے ایک ایسی بھی سزا دی ہے جس کی پوری دنیا کی عدالتوں میں نظیر نہیں مل سکتی۔ کہ ایک لڑکا اور اسی گاؤں کی لڑکی گھروں سے بھاگ گئے مسئلہ پنچایت میں آیا تو فیصلہ کیا گیا کہ جو لڑکا بھاگا ہے اس کی جوان بہن بھاگنے والی لڑکی کے بھائی کے پاس بیوی کی حیثیت سے رہے گی اور اس پر عمل بھی کیا گیا لیکن کسی کی غیرت نے جوش نہیں مارا۔
ہزار احترام کے ساتھ سپریم کورٹ کا ہر حکم تسلیم لیکن یہ بھی عرض کرنا ہے کہ کبھی اس نے اس پر بھی غور کیا کہ درجنوں لڑکیوں اور لڑکوں کو قتل کردینے والوں، قتل کرا دینے والوں اور قتل کا حکم دینے والوں میں سے کسی ایک کو بھی پھانسی یا عمر قید کیوں نہیں ہوئی؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جس متوازی عدالتی نظام کا مسلمانوں پر الزام لگایا جارہا ہے اس سے زیادہ طاقتور متوازی حکومت کھاپ پنچایت ہے۔ ہر جوڑے کے قتل کی تھانے میں رپورٹ ہوتی ہے لیکن گرفتاری اس لئے نہیں ہوتی کہ یہ بتانے والا کوئی نہیں ملتا کہ کس کس نے قتل کئے؟ اور کوئی زبان اس لئے نہیں کھولتا کہ جس نے زبان کھول دی اس کا حقہ پانی بند یعنی وہ یا بھوکوں مرجائے یا خودکشی کرلے۔ یہ پنچایتیں اتنی طاقتور ہیں کہ ہریانہ، راجستھان اور اترپردیش کی کسی حکومت یا کسی مرکزی حکومت کی ہمت نہیں ہے کہ ان کے اوپر ہاتھ ڈال سکے اور اس کے اُجڈ اور جاہل پنچ ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ اگر کسی حکومت میں دم ہے تو وہ کھاپ پر ہاتھ ڈال کر دکھائے۔
دارالقضاء کو شرعی عدالت مسلمانوں نے نہیں کہا اس لئے کہ شاید شرعی عدالتیں صرف سعودی عرب میں ہوں ہندوستان میں تو یہ کوشش صرف غریب مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے معاملات کے لئے عدالتوں میں جاکر ان کی ہستی کو مٹانے سے بچانے کے لئے کی گئی ہے اس میں زیادہ تر طلاق اور ترکہ کے مسائل آتے ہیں اور ان کے متعلق اسلامی شریعت میں اتنی تفصیل دے دی گئی ہے کہ جو حضرات فتوے دینے کے ذمہ دار بنائے جاتے ہیں ان کے پاس بہت بڑے بڑے مفتیوں کے فتوؤں کی نظیروں کی جلدیں بھی ہوتی ہیں جس سے وہ ضرورت کے وقت مدد لیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ فتنہ اور ایسے فتنے اب سبرامنیم مارکہ حکومت کے بعد اور زیادہ کھڑے کئے جائیں گے لیکن ان سب کا جواب جاٹوں، گوجروں اور تیاگیوں کی پنچایتیں اور کھاپ پنچایت ہے اگر دو چار نوجوان مسلمان وکیل زیادہ سے زیادہ جہالت سے بھرے سزائے موت کے فیصلے جمع کرکے وہ عدالتوں میں پیش کردیں اور دریافت کریں کہ ایسے فیصلے دینے والی کھاپ عدالتوں پر آپ کیوں روک نہیں لگاتے اور حکومتیں کیوں بے بس اور لاچار ہیں؟؟؟ تو شاید ہماری انگلی اُٹھنا بند ہوجائے۔
جواب دیں