شرمندہ نہیں جھوٹے ہیں چنمیانند

حفیظ نعمانی

72 سال کے سوامی چنمیانند اپنے سیاسی سماجی سرکاری اور مذہبی اثرات کے ساتھ جھکی ہوئی گردن پر سر رکھے ہوئے جیل بھیج دیئے گئے انہوں نے ایک مہینہ تک ہر مورچہ پر مقابلہ کیا وہ اسی خوش فہمی میں رہے کہ اگر بھگوا سرکار کے دَور میں بھی بھگوا پوشاک زیب تن کرنے والا نہ جیتا تو کب جیتے گا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایس آئی ٹی نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو اسے کرنا چاہئے تھا۔ ہر قدم پر محسوس ہوتا تھا کہ وہ بھی یہی چاہتی ہے کہ سوامی جی کو معصوم ثابت کردے۔ 18  تاریخ کو این ڈی ٹی وی انڈیا پر ساڑھے آٹھ بجے آدھے گھنٹے اس پر مباحثہ ہوا اور ایک چمچہ کے علاوہ قانون سے واقف لوگوں نے الزام ایس آئی ٹی پر لگایا کہ اسے یا تو اندر سے حکم ہے کہ پارٹی حکومت اور دھرم کی خاطر سوامی کو جیسے بھی ہو بچاؤ یا وہ خود بھی یہ سوچ رہے ہیں کہ ایک دھرم گرو کو گندی دلدل میں ڈوبنے سے بچالیں۔
گونڈہ کے ایک خاندان کا لڑکا کرشن پال سنگھ صرف یہ دیکھ کر کہ جو کوئی سادھو سنت ہوتا ہے اس کا کیسے کیسے اعزاز اور اکرام کیا جاتا ہے؟ وہ خود بھی سنت بن جاتا ہے اور گھر کے مذہبی لوگ جب یہ دیکھ رہے تھے کہ اپنا بچہ سوامی بن رہا ہے تو اسے کیوں روکتے؟ لیکن ایک بات کوئی نہیں دیکھتا کہ جس الزام میں سوامی چنمیانند آخرکار ذلیل ہوکر جیل گئے ہیں ان سے پہلے کتنے بڑے بڑے اور مشہور ہی نہیں چھوٹے چھوٹے بھی اسی طرح ذلیل ہوئے تو کیوں ہوئے؟ اس حقیقت کو جو تسلیم نہیں کرے گا کہ انسان اپنی فطرت سے نہیں لڑسکتا اور صرف عزت اور دولت کے اختیار کی ہوئی پابندیوں میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ فطرت کے تقاضوں، بھوک، پیاس اور جنسی دباؤ کو انسان سے چھین لے۔ کہا جارہا ہے کہ چنمیانند کے خلاف پہلے بھی اسکول کی ایک لڑکی نے آبروریزی کی شکایت کی تھی۔ لیکن وہ اتنی تعلیم یافتہ اور تیز نہیں رہی ہوگی اس لئے سوامی جی نے اس کا منھ بند کردیا۔ اب جس لڑکی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس نے آج کی ایجادات کے بل پر ایسے ثبوت اپنے قبضہ میں کرلئے کہ ان کو جب تحقیق کرنے والوں کو دکھایا تو ان کے پاس قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا اور انہوں نے کہہ دیا کہ اور زیادہ کیا کہوں بس اتنا کافی ہے کہ میں شرمندہ ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ شرمندہ نہیں ہیں شرمندگی کی منزل وہ ہوتی ہے جب کوئی رنگے ہاتھوں پکڑا جائے۔ اور جس غلطی پر شرمندگی کا اظہار کیا جارہا ہو وہ اتفاق سے ہوگئی ہو چنمیانند تو بنے بنائے آشرم میں آگئے تھے اور آشرم تو بنائے ہی ایسے جاتے ہیں کہ ایک نہیں ایک درجن گوپیاں بھی اندر ہوں تو وہ آنکھوں سے اوجھل کردی جاتی ہیں۔ مردوں کی یہ کمزوری نہیں ضرورت ہے اور آپ نے بھی پڑھا ہوگا کہ درختوں میں بھی نر اور مادہ ہوتے ہیں اور اگر کہیں کئی پیڑ مادہ ہوں تو جب تک نر درخت وہاں نہیں لگے گا وہ پھل نہیں دیں گے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ سوامی بن جانے کے بعد سب کچھ تو مل جاتا ہے بس وہ نہیں ملتا جو فطرت کا شدید تقاضہ ہوتا ہے اور جو کوئی اپنی بچی کے مستقبل کے لئے سوامی جی کے پاس اسے لاتا ہے اس کے جانے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہوگا کہ جیسے اٹھتی ہوئی خوشبو سے بھرا ہوا کھانے کا تھال کسی نے سامنے سے اُٹھا لیا وہ مقام حاصل کرنے کیلئے کہ جس کے بعد سونے اور پتھر میں فرق نہ محسوس ہو جیسے ریاض کئے جاتے ہیں وہاں تک گنے چنے جاپاتے ہیں اور جو راستے سے ہی لوٹ آتے ہیں وہ لباس تو پہنے رہتے ہیں مگر ڈیرہ سچا سودا کے بھگوان بن جاتے ہیں اور پھر ہر طرف منھ مارتے ہیں۔ یہ بڑے دل گردہ کا کام ہے کہ بھگوان کے بھگت پر گندہ الزام لگائے اور ثابت بھی کردے۔
جس تیز اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی نے چنمیانند کو جیل بھجوایا ہے اس نے اگر پانچ کروڑ کا مطالبہ کیا تو بعد میں کیا جب وہ اپنا کروڑوں کا جسم بابا کو دے چکی تھی۔ اگر وہ بابا کو بغیر کچھ دیئے روپئے مانگتی تو وہ مجرم تھی لیکن ایس آئی ٹی کی وہ تیزی جو چنمیانند سے سوال جواب کے وقت گونگی ہوگئی تھی وہ لڑکی اور اس کے ساتھیوں کے لئے دھاردار تلوار بن گئی اور تڑپڑ جیل بھیج دیا جیسے اصل مسئلہ پھروتی کا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ سرکاری غلاموں کو ایسے باباؤں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے پسینہ آجاتا ہے وہ ڈرتے ہیں کہ کیا خبر ان میں کوئی اصلی بابا ہی ہو؟
چنمیانند نے یہ تو قبول کرلیا کہ وہ اس لڑکی کے جسم سے کھیلتا رہا اور اس عمر میں وہ جو کرسکتا تھا وہ کرتا رہا اس نے آبروریزی کے الزام کو غلط بتایا اور ایس آئی ٹی نے شاید اس لئے اسے مان لیا کہ 72  سال کا سبزی کھانے والا اس عمر میں اس قابل نہیں رہتا کہ وہ کسی کی آبروریزی کرسکے۔ رہی یہ بات کہ اسے کتنے دن کی سزا دی جاسکتی ہے تو وکیل وہ بتائیں گے جو کتابوں میں لکھا ہے لیکن ہم وہ بتارہے ہیں جو ہمارے ملک میں ہوتا ہے کہ یہاں سزا نہیں دی جاتی اور 376  کے مجرموں کو زیادہ سے زیادہ سزا کا قانون تو بنتا ہے مگر سزا دیتے وقت سزا دینے والے کو شاید یہ خیال آجاتا ہے کہ جس کی آبرو جانی تھی وہ تو گئی اور کتنی ہی سزا دے دو واپس نہیں آسکتی تو زیادہ سزا دینے سے ایک گھر اور برباد ہوجائے گا اس لئے نام کے لئے تھوڑی سی سزا دے دو۔ یہی سوامی چنمیانند کے ساتھ ہوگا کہ شرم سے جو سر جھک گیا ہے وہ اُٹھے یا جھکا رہے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور جیل میں رکھ کر بھی حکومت کا علاج پر خرچ ہوتا ہی رہے گا اس لئے اب فکر نہ کرنا چاہئے۔

 

«
»

تری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت

بیماری آزمائش ہےاور تندرستی ہزار نعمت!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے