شانِ رسالت ﷺ میں گستاخی ناقابل معافی جرم

 

   محمد اورنگ زیب عالم مصباحی گڑھوا جھارکھنڈ

 

       آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے آخری پیغمبر جناب محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیاء و رسل آئے ہر دور میں ان کے کچھ مخالفین رہے ہیں، جب بھی انبیاء دعوت حق دیتے تو ان کی قوم کے کچھ نیک طبیعت افراد تو سر تسلیم خم کر کے دعوت حق قبول کر لیتے تھے مگر ان کی ہی قوم کے کچھ شرپسند افراد منہ موڑ لیتے تھے جن میں بعض تو صرف دعوت کا انکار کرتے، مگر کچھ شریر قسم کے لوگ انکار پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اپنے دور کے جلیل القدر نبی کا مذاق اڑاتے انہیں جداگانہ گالیاں دیتے تو کچھ ان ساری باتوں کے ساتھ انہیں مالی و بدنی اذیتیں بھی دیتے ، آپ اندازہ لگائیں کہ کسی نبی کو ان کے امتیوں نے کبھی تو شہید ہی کر ڈالا کبھی شہید کرنے کی کوشش کی خود ہمارے پیغمبر کو کفار قریش نے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا معاذاللہ،یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے انہیں اس گھٹیا منصوبے میں ناکامی دی اور انہیں خائب و خاسر کیا ، وہیں حضور ﷺ کو طائف میں جن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا یہ بھی ایک نبی ہی کا خاصہ ہے،مگر جو گستاخیاں اور دریدہ دہنی ان کے زمانے کے کفارومشرکین بھی نہیں کرتے تھے جب کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے ظالم و جابر اور شاتم و شاطر تھے اس سے کہیں بڑی بڑی گستاخی آج کے شرپسند افراد کرتے پھر رہے ہیں جبکہ ان انبیاء کے دور کے کفار و مشرکین یا منافقین انہیں دیکھتے تھے ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے ہر طرح کے الزامات لگاتے تھے جو ان سے بن پڑتا تھا مگر چونکہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں ان سے گناہ ہو ہی نہیں سکتا اس لیے ہر دور کے انبیاء بچپن ہی سے پاک دامن اور نیک طینت ہوا کرتے تھے اسی لیے اس دور کے کفار و مشرکین ان کی نبوت و رسالت کے ضرور منکر ہوا کرتے تھے مگر کبھی بھی ان کی پاک دامنی نیک نیتی پارسائی اور امانت داری پر آواز نہیں اٹھا سکتے تھے کیونکہ وہ ان کے بچپن سے واقف تھے اور کوئی انگلی اٹھاتا بھی تو صرف دشمنی اور بغض و عناد کی بنا پر اور اس کی اس حرکت پر اس کے ساتھ والے افراد ہی اس کا مذاق اڑاتے تھے،مگر آج کے شرپسند کفار مشرکین یا بنام مسلمین جو انہیں شر پسندوں کے زرخرید غلام یا باندیاں ہیں انبیاء کرام پر ایسے ایسے گھٹیا الزامات لگاتے ہیں ایسی گندی گالیاں دیا کرتے ہیں کہ شاید ہی ان دو صدیوں سے قبل کسی غیر مسلم نے دی ہو اگرچہ وہ مسلمانوں کے دیش میں نہ بھی رہے ہو بلکہ اپنے کفرستان میں ہی پناہ گزیں ہو حالانکہ آج کے یہ بہتان پرداز اور شاتمان انبیاء و رسل انبیاء کرام اور رسولان عظام کی خوبیوں سے بالکل ناواقف ہیں اگر یہ شاطر افراد روایت در روایت سنیں تب بھی ہمارے جملہ انبیاء اور رسول کی خوبیاں ہی پائیں گے ایک نام کا بھی نقص نہیں نکال سکتے اور پھر یہی چیز بذریعہ کتاب بھی دیکھیں تو ان میں بہتان نہیں لگا سکتے ۔ 

       دراصل جملہ انبیاء و رسل معصوم ہوتے ہیں (ان سے گناہ محال ہے)ہوتے ہیں بھول کر بھی ایسی فحش خطا کا امکان ہی نہیں کیونکہ اللہ نے انہیں ہدایت کے لئے بھیجا ہے اور جو خود ہادی ہوں اگر انہیں سے غلطی اور خطائیں سرزد ہو تو کوئی راہ یاب نہیں ہونگے ، جو ہدایت کے پیکر ہوں وہی گمراہ ہوں ایسا نفس الامر کے خلاف ہے درحقیقت انبیاء اور رسول میں کوئی نقص یا خطا ہوں تب نہ کوئی نقص نکالتا جب ہے ہی نہیں تو ان پر ان کے زمانے کے کفار و مشرکین بھی ایسی خطرناک بہتان نہیں لگا سکے۔ 

      زمانہ ماضی میں بھی کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیاں کئے مگر آج کے زمانے کی طرح بیجا الزامات نہیں لگاتے تھے اور جو لگاتا وہ برے انجام کو پہنچتا اور لوگوں میں خائب و خاسر اور رسوا ہوتا آپ مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کسی شخص نے ان کی پاک دامنی ان کی پارسائی اور امانت داری پہ کبھی انگلی تک نہیں اٹھائی ۔ہاں !آپ کے دشمنوں نے آپ کے خلاف چالیں چلی آپ کو تکلیف دہ کلمات ضرور کہے لیکن آپ کے پاکدامنی پر کسی نے سوال نہ اٹھائے کیونکہ آپ کے حقیقت سے واقف تھے کہ اگر ہم ان کی پاک دامنی پر سوال اٹھائیں تو ہماری بات پہ کوئی یقین نہیں کرے گا۔ 

      آپ دیکھیں کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا دشمن ولید بن مغیرہ نے آپ کو معاذاللہ مجنون کہا۔ رب العزت نے فورا قرآن میں اس الزام تراشی کی مذمت فرمائی ترجمہ: قلم کی قسم اور اس کے لکھے کی قسم تم اپنے رب کے فضل سے مجنوں نہیں ہو(سورۂ قلم) اتنا ہی نہیں بلکہ گستاخ رسول کے دس ایسی برائیاں بھی بتائے جو کہ حق پر مبنی تھے کہ اے رسول! تمہارا گستاخ بڑا جھوٹا اور جھوٹی قسمیں کھانے والا ہے ، بہت ذلیل ہے، بہت طعنے دینے والا ہے ، چغلخور ہے ، بھلائی سے روکنے والا ہے، درشت خو اور تند مزاج ہے ، کرخت آواز والا ہے ، حد سے بڑھنے والا ہے ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کی اصل میں خطا ہے( یعنی وہ حرامی ہے) وہ شخص ان آیتوں کو سن کر بڑا ہی مضطرب ہوا کہ میں اپنے اندر پہلی نو برائیاں تو پاتا ہوں مگر آخری ایک میں میں نہیں جانتا کیونکہ یہ تو میری ماں ہی جانتی ہے اسی سے یہ مسئلہ جڑا ہوا ہے پھر ولید بن مغیرہ تلوار لے کر اپنی ماں کے پاس گیا اور کہا کہ تو سچ سچ نہیں بتائی تو میں تمہیں بھی اسی تلوار سے قتل کر دوں گا اور میں خود بھی قتل ہو جاؤں گا کیونکہ مسلمانوں کے رسول نے میری دس عیوب بیان کیے مگر آخری ایک برائی تجھ سے جڑی ہے کیا میری اصل میں خطا ہے یا میں اپنے اصل پر قائم ہوں تو اس کی ماں نے کہا کہ تیرا باپ نامرد تھا مجھے اندیشہ ہوا کہ اس کے بعد اس کا مال غیر لے جائیں گے تب میں نے فلاں چرواہے کو بلا کر منہ کالا کیا جس کا نتیجہ تو ہے(روح البیان، خزائن العرفان ص977) 

     میرے عزیزوں آج بھی جو لوگ پیارے نبی کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں یقینا ان کی بھی اصل میں خطا ہی کا نتیجہ ہے ورنہ ایسی بیہودہ بہتان تراشی ہرگز نہ کرتے، انہیں نالائق اور ناہنجار لوگوں میں سے ایک نرسنگھانند سرسوتی بھی ہے جس نے ابھی چند روز قبل شان اقدسﷺ میں انتہائی بیہودہ بہتان لگایا، حالانکہ اگر اس کو اور اس جیسے دوسرے خبیثوں کا چھان بِین کی جائے تو ایسے افراد خود بے اصل اور کسی گوفے اور غار میں ڈھونگی باباؤں کے ناجائز کرتوتوں اور عیاشیوں کا نتیجہ ہوا کرتے ہیں۔بڑے ہوکر خود بھی وہی کرتوت کرتے ہیں جو ان کے ناجائز باباؤں نے کیے یعنی عیاشیاں اور لڑکیوں کی تسکری۔در حقیقت ہمارے پیارے آقا ﷺ آئینہ ہیں جسے خوبصورت اور نیک طینت اور پارسا اور پاکدامن نظر آئیں وہ خود خوبصورت اور مذکورہ صفات کا حامل ہے اور جسے اس کے برعکس نظر آئیں وہ خود اس کے برعکس ہے۔ 

      اگر ان عقل کے اندھوں کو حضور ﷺ کی زندگی سے کچھ بھی معلومات ہوتی تو ایسے نازیبا کلمات نہ بکتے، ظاہر ہے کہ جو لوگ اس قسم کے الزام تراشی کرتے ہیں گندی گالیاں بکتے ہیں اور کھلم کُھلا دہشتگردی پھیلاتے ہیں صرف اور صرف اسلام دشمنی کی وجہ سے ہے، ہندوستانی باشندوں کے امن و امان خطرے میں لانے کے لیے ہے، اور یہ ایسی خطرناک دہشت گردی ہے کہ بم دھماکے اور خطرناک وائرس سے کہیں زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے، آپ دیکھیں کہ اگر کوئی شخص کسی کے مذہبی رہنماؤں کی برائی اور اسکے متعلق نازیبا کلمات کہتا ہے تو ایک خاص طبقہ میں غم و غصہ کی لہر دوڑ جاتی ہے اور دہشتگردانہ الفاظ بولنے والے پر قانونی کاروائی نہ ہونا قانون پر سے بتدریج یقین ختم ہو جاتا ہے اور لوگ قانون کو ہاتھ میں لیکر خود فیصلہ کرنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں اور نتیجہ دنگا فساد کے سوا کچھ بھی نہیں۔ 

نرسنگھانند سرسوتی جیسے بےاصل لوگوں کے الفاظ تو نہیں دہراؤں گا مگر جس قسم کے وہ گالیاں دیتا ہے یقینا وہ عالمی دہشتگرد اور ظالم و جابر شخص ہے یہ ایسی شرمناک حرکت کرکے ہندوستانی جمہوریت کو داغدار تو کرتے ہی ہیں ساتھ مسلم سماج کے دلوں کو بھی مجروح کرتے ہیں۔ 

اس لیے میں قانون اور اسکے ٹھیکیداروں اور حکومت کے عہدے داروں سے ناامیدی کے باوجود درخواست گزار ہوں کہ اگر آپ میں ذرا سا بھی شرم باقی ہے تو ان فسادی دہشتگردوں کے خلاف فوری کارروائی اور سخت اقدامات کیے جائیں کیونکہ یہ جمہوری ملک ہے جب تاناشاہی ملک میں اس قسم کی دہشتگردی ناقابل قبول ہے تو جمہوری ملک میں ایسی حرکت جمہوریت پر بدنما داغ ہے، اسلام کسی  کے بھی مذہبی رہنماؤں کو برا بھلا نہیں کہتا مگر جس مذہب میں ظلم و ستم پروان چڑھتے ہوں جس قوم میں دہشتگردی عروج پاتی ہو اسے اسلام اور اسکے ماننے والے برداشت بھی نہیں کرتے، ملک میں امن و امان اور ترقی اسی وقت ممکن ہوگا جب خانہ جنگی سے دور پورا ملک متحدہوگا اگر ملک کے کسی بھی اقلیتی طبقہ پر کسی قسم کی مالی، بدنی یا جذباتی ظلم یا دہشتگردی ہوگا تو ملک کا امن و امان برباد ہونے کے ساتھ ملک بجائے ترقی کہ تنزلی اور بدحالی کا شکار ہوگا۔

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے