میں نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر ایک ہی دن میں تین سو لوگوں کو دفن کیا ہے، بعض شہیدوں کو ہم نے ان ہی کے گھروں میں دفن کیا، کیوں کہ ہم پر فوج نظر رکھی ہوئی تھی۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ ایک ہی دن میں ایک ساتھ ایک ہزار لوگوں کو قتل کردیا جائے، یا تین دنوں میں الگ الگ واقعات میں ایک ہزار لوگوں کو قتل کردیا جائے؟!
۵۔کیا عرب لیگ مشترکہ دفاعی معاہدہ کو شروع ہی سے قابلِ عمل بنانے سے مایوس ہوگئی ہے یا منظمۃ التعاون الإسلامی(Organization of Islamic Cooperation) اپنی تاسیس کے وقت سے ہی مایوس ہوگئی ہے، اور عرب حکومتیں شام میں سیاسی یا فوجی حل پیش کرنے سے قاصر ہیں کہ اس مسئلہ کی شکایت اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں پیش کی گئی، اس وجہ سے وہ ہمارے مظلوم لوگوں کی شام میں مدد کے لیے تیزی سے اٹھ کھڑے ہوئے؟ یقینی طور پر یہ بات نہیں ہے، بلکہ اس مرتبہ امریکہ اور حلیف ممالک نہ اقوام متحدہ کی کسی قرار داد کا انتظار کریں گے اور نہ سلامتی کونسل کی کسی تجویز کا، نہ دفعہ سات کا اور نہ دفعہ دس کا، بلکہ تجزیہ سے یہ بات صاف معلوم ہورہی ہے کہ صہیونیوں کے تحفظ اور اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے یہ امریکہ کا منصوبہ ہے، اس کا تعلق شام کے عوام سے کچھ بھی نہیں ہے۔
۶۔کیا مصرکا انسان شام کے انسان سے مختلف ہے؟! کیا فلسطین کا انسان یا عراق کا انسان یا افغانستان کا انسان یا برما کا انسان یا سوڈان کا انسان یا صومالیہ کا انسان یا۔۔۔۔۔۔ انسان ان دونوں جگہوں کے انسان سے مختلف ہے؟!پھر بین الاقوامی معاشرہ، امریکہ اور اس کے حلیف مصر میں انقلابیوں کو سبق سکھانے کے لیے آگے کیوں نہیں آرہے ہیں جنھوں نے اسی ہفتہ پانچ ہزار لوگوں کو قتل کردیا ہے اور پندرہ ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوچکے ہیں، مارنے کے بعد جنازوں کو جلایا گیا ہے اور ان کو کوڑادان میں ڈال دیا گیا ہے، اور اس کے علاوہ بہت سے ظلم وستم ہوئے ہیں۔۔۔؟! پھر یہ نشے میں موجود ضمیر اب تک کیوں نہیں جاگا ہے؟! حالانکہ یہاں مقتولین کی تعداد کیمیائی ہتھیاروں سے شام میں مرنے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے اور قتل کا طریقہ بھی بڑا ہی دردناک اور خوفناک ہے، آخر انسانی اصولوں کے پاسداروں کے نزدیک مصر اور شام کے مقتولین کے درمیان فرق کیا ہے؟!!!!
۷۔مجھ سے کئی مرتبہ سوال کیا جاچکا ہے کہ امریکہ، اس کے حلیف اور بین الاقوامی معاشرہ (جیسا کہ وہ خود کو کہتے ہیں) شامی فائل میں کب مداخلت کریں گے؟ میں نے ہمیشہ یہی جواب دیا ہے کہ اس وقت جب انقلابی فتح کے قریب پہنچ جائیں گے، جب سوال کرنے والوں کو یہ جواب سن کر تعجب کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں کہ کیا تم لوگ اتنی جلدی موجودہ واقعات بھول چکے ہیں؟! اس کی بہت سی مثالیں ہیں:
* سویت یونین نے افغانوں کا بدترین قتل عام کیا اور کیمیائی ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا، اس میں افغانستان کے دس لاکھ افراد شہید ہوئے، اور لاکھوں کی تعداد میں زخمی ہوئے، اور پوری کی پوری قوم گھروں سے بے گھر کردی گئی، پھر جب مجاہدین سویت یونین پر فتح حاصل کرنے کے بالکل ہی قریب پہنچ گئے تو امریکہ نے پاکستان، سعودی عرب اور دوسرے ممالک کے توسط سے مداخلت کی، اور جنیوا معاہدہ تیار کیا گیا، جس کو اس خوبصورت دھوکہ دینے والے پردے میں چھپادیا گیا کہ یہ معاہدہ مظلوم افغانی قوم کی مدد کے لیے کیا جارہا ہے، پھر انھوں نے ہی جہادی قائدین اور قبائل کے درمیان اختلافات پیدا کردیے، جس کے نتیجہ میں آج سو فیصدی ایک امریکی ایجنٹ وہاں حکومت کررہا ہے، اور افغانستان پر حقیقتا امریکہ کا قبضہ ہے، اور کوئی بھی ان کے ہوائی جہازوں کے بارے میں گفتگو نہیں کررہا ہے جو وہی کام کررہے ہیں جو بشار الاسد شام میں کررہا ہے، پھر بین الاقوامی معاشرہ کو کس کے خلاف زیادہ اٹھ کھڑا ہونا چاہیے، پاگل حاکم کے خلاف جواپنے ہی لوگوں کو قتل کررہا ہے؟ یا باہر سے آنے والے قابض کے خلاف جو پوری کی پوری قوم اور سرزمین کو اپنا غلام بنائے ہوئے ہے؟ ان دونوں کو جہنم میں جانا چاہئے؛ قابض حاکم کو بھی اور پاگل حاکم کو بھی۔
*بوسنیا کے صدر عزت بیگاوت تہذیب یافتہ دنیا کے سامنے بوسنیا اور ہرسک میں صربیوں کی طرف سے مسلمانوں پر کیے جانے والے بدترین ظلم وستم کے خلاف چلاتے رہے، ان ظالموں نے ڈھائی لاکھ لوگوں کو قتل کیا اور پوری کی پوری قوم کو زخمی کردیا اور ان کے علاقوں سے نکال باہر کردیا، دولاکھ مسلمان عورتوں کی عزتوں کو تاراج کیا، ان ظالموں نے چھ سال کی بچیوں کو بھی نہیں چھوڑا اور نوے سال کی بڑھیا کو بھی نہیں چھوڑا، سبھوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا، جرمنی ٹیلی ویزن نے بچوں کی ایسی تصویریں جاری کی تھی کہ ان کو سمنٹ اور کنکریٹ ملانے والی مشن میں ڈال کر گھمادیا گیا اور ان کا قیمہ بنادیا گیا۔ اس وقت کلنٹن کی قیادت میں امریکہ کی ضمیر نہیں جاگی اور نہ اس کے حلیف ممالک کی ضمیر جاگی، اسی وقت ان کو ہوش آیا جب امریکی اور مغربی انٹلی جنس نے بتایا کہمسلمان آگے بڑھ رہے ہیں اور صرب عنقریب شکست کھانے والے ہیں۔ اس وقت عزت بیگاوت خلیجی ممالک اور سعودی عرب گئے اور کہا: میں تم سے نہ افراد مانگ رہا ہوں اور نہ فوج کی درخواست کررہا ہوں، صرف میں یہ چاہتا ہوں کہ پچاس لاکھ ڈالر دے کر میری مدد کی جائے تاکہ میں اس معرکہ کو آخری شکل دینے کے لیے کچھ ہتھیار خرید لوں، اس وقت ملک فہد یا کوئی بھی امیر اپنی ایک چھوٹی سی جیب کا چلّر بھی اسلامیت یا انسانیت کے ناطہ نکال کردیتا تو کام ہوجاتا، لیکن سبھوں کی مردانگی اور انسانیت گھاس چرنے گئی، اور انھوں نے امریکہ کو ’’ڈایٹون‘‘ معاہدہ کی شکل میں مداخلت کرنے کے لیے چھوڑ دیا، جب میں ایک اسلامی کانفرنس کے لیے وہاں گیا تو میں نے کہا: یہیں پر مغربی امریکہ کے ہاتھوں بوسنیائی جہاد کو ذبح کردیا گیا، اور اس وقت عربوں نے ساتھ چھوڑ دیا جس پر انسانیت شرمندہ ہے، آخری مرتبہ میں سرایو۲۵ جون ۲۰۱۳ء کو گیا، میں نے وہاں دیکھا کہ اب بھی عیسائیوں کے گرجا گھر محفوظ ہیں، مسلمانوں نے ان پر ایک بھی گولی نہیں چلائی، مسلمان ہی جنگ کے دوران ان کی حفاظت کیا کرتے تھے، حالانکہ پورے ملک میں ان کا قتل عام کیا جارہا تھا، اور اب بھی بوسنیا تمام میدانوں میں مغرب کے ہاتھوں اغوا ہے۔
*یہی صورتِ حال صومالیہ کے ساتھ اس سے بھی بدترین حالت میں پیش آئی، جب اسلام پسند امن قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اٹھارہ سال بعد موگادیشو ائیرپورٹ نے کام کرنا شروع کردیا، اور اس سرزمین پر فتح ونصرت کی خوشخبریاں سنائی دی جانے لگی تو امریکہ اور اس کے حلیف ممالک نے مداخلت شروع کردی اور فتنہ کو دوبارہ زندہ کردیا، اوراس ملک کے اسلامی خواب کا قتل کردیا جہاں کے باشندے اسلام کی پابندی اور اس پر فخر کرنے کی اعلی ترین شکل پر قائم تھے، میں امریکہ خصوصاً کولمبس اور اوہایو میں صومالیہ کے باشندوں کے ساتھ رہا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ وہ دنیا کی افضل ترین قوموں میں سے ہے، لیکن امریکہ اور اس کے حلیف ممالک نے امن واستقرار کے خواب کو چکنا چور کردیا، اور اب بھی ان کا گلا گھونٹ رہے ہیں اور ان کے ذخائر چرا کر لے جارہے ہیں، اور ان کو فقر وفاقہ اور بیچارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور کررہے ہیں۔
* اور آخری مثال مصر کی ہے جہاں ۲۵ جنوری کے عوامی انقلاب کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی، لیکن صہیونی امریکی خلیجی سہ رخی سازش نے سب کچھ ختم کر کے رکھ دیا، یہ خلیجی ممالک صہیونی امریکی نظریات کے حامل قائدین اور مصر میں ان کے ایجنڈوں کو پناہ دیے ہوئے ہیں اور ان کے اخراجات پورے کررہے ہیں، سیسی نے واشنگٹن پوسٹ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں اعلان کیا ہے کہ وہ روزانہ امریکی وزیر دفاع کے ساتھ ملاقات کرتا تھا اور مصر کے جمہوری طور پر منتخب صدر ڈاکٹر مرسی کے خلاف انقلاب برپا کرنے، ۲۵ جنوری کے انقلاب کے تمام کارناموں یعنی پارلمنٹ، مجلس شوری اور مصر کی تاریخ میں فوج، عدلیہ اور پوری دنیا کی حقوق انسانی کی تنظیموں کی نگرانی میں منتخب ہونے والے سب سے پہلے صدر، دو سو قابل اور بہترین علماء اور قانونی ماہرین کی طرف سے تیار کردہ مصری دستورکو ختم کرنے کے لیے امریکی وزیر دفاع کے ساتھ تال میل بنائے ہوئے تھا، جس دستور پر ان لوگوں نے تمام ریاستوں اور تمام میدانوں کے پیشہ وروں کے ساتھ دو ہزار گھنٹوں سے زیادہ سنجیدہ بحث ومباحثہ کیا تھا، ان تمام کارناموں کو سیسی نے امریکہ، صہیونیوں اور خلیج کے مکمل تعاون سے ختم کردیا، یہ سبھی لوگ دیکھ رہے ہیں کہ فوج اور پولس نے پر امن مظاہرہ کرنے والوں کے ساتھ کیا کیا؟ ہزاروں کو قتل کیا، ان کو جلایا اور ان کی موت کی جعلی سرٹیفکٹ جاری کردی اور مرنے کے اسباب میں رد وبدل کردیا، اور ہٹلر کی طرح انھوں نے مار ڈالنے کے تینوں وسائل ؛قتل ، جلانے اور گلا گھونٹنے کو اختیار کیا، جیسا کہ ڈاکٹر سیف الدین عبد الفتاح نے ۲۷۔ اگست ۲۰۱۳ء کو الجزیرہ چینل پر کہا ہے، اور اس پر یہ بھی اضافہ کیا کہ ان کی موت کی سرٹیفکٹ میں خودکشی لکھا گیا ۔
کیا ان سبھی حقائق کے بعد ہم یہ تصور کرسکتے ہیں کہ خود اپنے ہی ہاتھوں یا اپنے ایجنڈوں کے ذریعہ اسلامی قوموں کو قتل کرکے، جلاکر اور ان کی سانس روک کر ہلاک کرنے کے بعد امریکہ کی بے ہوشی اور بے حسی ختم ہوگئی ہے ، اس سے بھی بڑا فریب یہ ہے کہ اوباما سات سالوں سے گونٹانامو جیل بند کرنے کا وعدہ کررہا ہے جو امریکہ کی طرف سے اس جیل کے قیام کے وقت سے ہی حقوق انسانی کے تمام اصولوں کو پامال کرنے کی سب سے بڑی دلیل ہے، لیکن اوباما نے اس وقت تک اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ہے، یہی کافی ہے کہ ہم امریکی مفکر نعوم چومکسی کی کتاب ’’ما ذا یرید حقیقۃ العم سام؟‘‘ کو پڑھا جائے، جس میں انھوں نے ایسے تاریخی واقعات کو بیان کیا ہے جن سے معلوم ہوجائے گا کہ امریکہ (جو خود رائٹر کا ملک ہے) انسانوں کو تباہ وبرباد کرنے، جلانے اور انسانی حقوق کی پامالی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ بشار اور سیسی تو اسی امریکہ کے تربیت یافتہ ہیں جس کا تربیتی نظام ہی حقوق انسانی، انسانی زندگی بلکہ انسانی قدر قیمت کو ذلیل کرنے والا ہے۔
(بقیہ اگلی قسط میں )
جواب دیں