شام میں روس کی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیوں کے درمیان امریکہ نے اسے خبردار کیا ہے اوریہاں مداخلت سے باز رکھنے کی کوشش شروع کردی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ داعش کے خاتمے کے لئے اس کی قیادت میں چل رہی بین الاقوامی کوششوں میں ماسکو کو مداخلت نہیں کرنا چاہئے۔امریکی انتباہ کا اعلان وہائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جوش ارنسٹ کی طرف سے کیا گیا۔انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ امریکی صدر نے یہ واضح کر دیا ہے کہ روس کو 65 ارکان پر مشتمل اس بین الاقوامی اتحاد میں مداخلت نہیں کرنا چاہئے جو آئی ایس آئی ایس کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ جوش ارنسٹ نے کہا کہ روسی فوج کے زیادہ تر فضائی حملے ان علاقوں میں کئے گئے ہیں جہاں پر آئی ایس آئی ایس کی موجودگی کم ہے یا نہیں کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا ’’روسی جانتے ہیں کہ مسئلہ اس وقت ہی حل ہو گا جب شام میں سیاسی تبدیلی آئے گی۔ شامی صدر بشار الاسد نہ صرف ملک کی قیادت کرنے کا اخلاقی حق کھو چکے ہیں بلکہ 80 فیصد عوام کی بھی حمایت گنوا چکے ہیں۔‘‘اس بیچ روسی وزیر دفاع سرگئی شوگو نے کہا ہے کہ چار جنگی جہازوں نے آئی ایس کے 11 ٹھکانوں پر حملہ کیا اور26 میزائلیں داغی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ بحیرہ کیسپیئن سے لمبی دوری کی میزائل کا استعمال کیا گیا۔ ہدف قریب 1500 کلومیٹر دور تھا۔اس حملے میں آئی ایس آئی ایس کے 11 ٹھکانوں کو تباہ کر دیا گیااور دہشت گردوں کو کافی نقصان پہنچا ہے۔اس دوران ذرائع ابلاغ کی رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ حملے اتنے تیز ہیں کہ آئی ایس آئی ایس کئی علاقوں میں کمزور ہو رہا ہے۔ روس نے گزشتہ ایک ہفتے میں شام میں موجود دہشت گردوں پر 120 فضائی حملے کئے ہیں،اس کے بعداب روسی نیوی نے آپریشن کی کمان سنبھال لی ہے۔واضح ہوکہ شام میں تقریباگزشتہ چار سال سے سول وار جاری ہے۔ وہاں کئی گروپ صدر اسد کی فوج سے لڑ رہے ہیں جنھیں امریکہ کی حمایت حاصل ہے اور اس کی طرف سے جنگ جووں کو ہتھیار
وتربیت فراہم کی جارہی ہے۔ اسلامک اسٹیٹ نے بھی شام کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ ایسے میں اسد کے لئے اپنے اقتدار کو بچا پانا کافی مشکل ہو رہا ہے۔ایسے میں اگر روس کی مداخلت کا مقصد اسد کو بچانا ہے تو امریکہ کسی بھی حال میں اسد کی جگہ اپنے کسی پٹھو کولانا چاہتا ہے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہاں کوئی بھی داعش سے نہیں لڑرہاہے بلکہ دونوں ہی اسد کو ہٹانے اور بچانے کے کھیل میں مصروف ہیں۔
شام کے معاملے پر روس اور امریکہ جیسے ملک آمنے سامنے کیوں ہیں؟ اس سوال کاصاف جواب یہ ہے کہ امریکہ شامی صدر اسد کو اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتا ہے جب کہ روس اسد کی کھل کر حمایت کرتا ہے۔ اسد کی فوج اسلامی اسٹیٹ اور مغربی ممالک کے سپورٹ والے باغیوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔ روس اسد کی فوج کے ساتھ ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی افسروں نے دعوی کیا ہے کہ روس شام کے ان علاقوں پر بھی فضائی حملے کر رہا ہے، جہاں آئی ایس آئی ایس فعال نہیں ہے۔یہ وہ علاقے ہیں جہاں شامی صدر اسد کے خلاف کام کر رہی بہت سی باغی تنظیمیں فعال ہیں۔ روس کے ساتھ شام، ایران اور عراق جیسے ملک ہیں جب کہ روس کے خلاف امریکہ کی قیادت میں برطانیہ، ترکی ،سعودی عرب،اسرائیل اور مغربی ممالک ہیں۔ایسے میں شام کا سول وار اب بین الاقوامی سیاست کا حصہ بن چکاہے۔ دراصل، دنیا کی دو بڑی طاقتیں امریکہ اور روس، شام کے بہانے پراکسی وار کھیل رہی ہیں۔ امریکہ اور مغرب کے کئی ممالک، شام کے صدر بشار الاسد کے مخالف ہیں اور انہیں اقتدار سے بے دخل کر شام کو مال غنیمت کے طور پر آپس میں بانٹنا چاہتے ہیں۔ امریکہ پر الزام ہے کہ وہ اسد کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو ہتھیار، پیسہ اور ٹریننگ میں مدد کرتا ہے۔ایسے میں روس اگر اسد کی مدد کرتا ہے تو امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات اور بھی خراب ہو سکتے ہیں نیز شام کی صورت حال مزید دھماکہ خیز ہوسکتی ہے۔
امریکہ اور اس کے حواریوں کا ہمیشہ سے دہشت گردی کے تعلق سے دوہرا رویہ رہاہے۔ وہ کبھی بھی دہشت گردی کا مخالف نہیں رہا بلکہ اس نے دہشت گردگروہوں کو ان حکومتوں کے خلاف منظم کیا جو اس کے کنٹرول میں آنے کو تیار نہیں تھیں۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے ماضی میں طالبان اور القاعدہ کو روس کے خلاف لڑنے کے لئے مسلح کیا تھا اور آج پس پردہ وہ داعش کی بھی امداد کررہاہے۔ ورنہ کیا سبب ہے کہ ساری دنیا مل کر ایک دہشت گرد گروہ کی طاقت کو ختم کرنے میں ناکام ہے۔ کیا امریکہ، برطانیہ، جرمنی،فرانس، سعودی عرب اور اسرائیل سے زیادہ طاقت ور داعش نامی دہشت گرد گروپ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس پورے کھیل کے پیچھے دوست نما دشمن امریکہ ہے :
ظلم پیشہ، ظلم شیوہ، ظلم راں وظلم دوست
دشمنِ دل، دشمنِ جاں، دشمنِ تن آپ ہیں
اس وقت اہم سوال ہے کہ کیا شام میں ایک بار پھرامن لوٹے گا؟کیا وہ لاکھوں افراد جو بے گھر ہوگئے ہیں، انھیں دوبارہاپنے وطن واپس ہونے کا موقع ملے گا؟ کیا ایک بار پھر خلیج عرب میں زندگی اپنے پرانے ڈھرے پر آئیگی؟یہ سوال اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ شام میں دہشت گردی کے خلاف ایک نئی کوشش شروع ہوئی ہے جسے ماضی کی کوششوں کے مقابلے میں قدرے ایماندارانہ کہا جاسکتا ہے۔یہاں اب تک دہشت گردی سے لڑنے کے نام پر امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب اور اس کے مغربی حواری جو کوششیں کر رہے تھے وہ ایماندارانہ قطعی نہ تھی مگر اب روس کی طرف سے جو حملے ہورہے ہیں اور ان حملوں میں جس طرح سے دہشت گردوں کا نقصان ہورہاہے، اس سے امید بندھ گئی ہے کہ اس خطے میں ایک بار پھر امن لوٹے گا۔ امریکہ کی منافقت کے شکار شام میں اب تک لاکھوں افراد کی جانیں جاچکی ہیں۔ دنیا کی سب سے پرانی تہذیب کے نشانات تباہ کئے جاچکے ہیں۔لاکھوں لوگوں کو بے گھری کا دکھ سہنا پڑا ہے ۔ اس بیچ شام کے دلدل میں روس بھی کود پڑا ہے اور امید بندھ گئی ہے کہ دہشت گردوں کا خاتمہ ہوگا۔حالانکہ یہ بھی خوف ہے کہ کہیں شام میں ایک دوسری جنگ نہ شروع ہوجائے اور اگر روس و امریکہ نے یہاں جنگ لڑنا شروع کردیا تو اس میں نقصان شام کا ہی ہوگا۔خوشی کی بات یہ ہے کہ کئی سالوں میں کھڑے کئے گئے اسلامک اسٹیٹ کے نصف ڈھانچے کو روس کی فوج نے صرف چار دن میں ڈھیر کر دیا۔ شام میں دہشت گردوں پر روس کی تاریخی فتح کے بعد عراق نے بھی روس سے مدد مانگی ہے۔ حالانکہ دہشت گردوں کی تباہی سے امریکہ اور سعودی عرب بلبلا اٹھے ہیں۔
شام میں دہشت گردی کے خلاف روس کی جنگ کو کئی مفہوم دیئے جارہے ہیں۔ ایسا مانا جارہا ہے کہ روس نہ صرف دنیا کو جتانا چاہتا ہے کہ ڈیڑھ دہائی بعد ایک بار پھروہ دنیا کی سپر پاور بننے جارہاہے۔ اسی کے ساتھ وہ اسلامی دنیا کو یہ بات منوانے میں بھی کامیاب رہاہے ہے کہ عرب ملکوں کے ڈکٹیٹر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جھوٹ بولتے ہیں،اصل میں امریکہ اور اس کے حواریوں کے ساتھ ان کا ناپاک اتحاد ہے۔آج دنیا اس بات کو محسوس کرنے لگی ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی اسلام کے نام پر دہشت گردی ہوتی ہے، وہاں امریکہ اور سعودی عرب کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے ہر جگہ یہ دہشت گرد ایک جیسی حرکتیں کرتے ہیں۔ مثلاً مسلمانوں کو مشرک قرار دے کر انھیں قتل کرتے ہیں۔مقامات مقدسہ ، بزرگوں کے مقبرے اور تاریخی مقامات کو ڈھاتے ہیں۔ افریقہ کے ٹمبکٹو سے لے کر شام تک ان کی یہی حرکت دیکھی جارہی ہے اور تاریخ میں جائیں تو ۸۰سال قبل اسی انداز میں سعودی عرب کا قیام بھی عمل میں آیا تھا۔داعش اس وقت ایک خوفناک دہشت گرد گروپ کے طور پر سامنے آیا ہے۔اس کے پاس خطرناک ہتھیار ہیں جو امریکہ اور اسرائیل فراہم کر رہے ہیں اور اس کی حرکتوں سے اسلام کی بدنامی ہورہی ہے۔ امریکہ ایک زمانے سے کہہ رہاہے کہ وہ داعش سے جنگ کررہاہے مگر حقیقت میں وہ انھیں تحفظ فراہم کررہا ہے ۔ ور نہ کیا سبب ہے کہ ایک مدت سے لڑنے کے دعوے کے باوجود امریکہ اور مغربی ممالک کو کامیابی نہیں ملی اور چند دن میں روس نے داعش کا پورا سسٹم تباہ کردیا۔
روس نے آخر اتنا سخت قدم کیوں اٹھایا؟ اس جنگ میں کودنے سے اس کا کیا فائدہ ہے؟وہ شام کو بچانے کے لئے اب کیوں آگے آیا، پہلے کیوں نہیں آیا؟ اس قسم کے سوال اٹھنے فطری ہیں۔روس نے دہشت گرد تو مار گرائے لیکن انتہائی اہم سوال زندہ
کر دیئے۔اس کا جواب صاف ہے۔ یہ جنگ مفادات کی جنگ ہے۔ نہ تو امریکہ مسلمانوں کا حامی ہے اور نہ ہی روس کو ان کے ساتھ کسی قسم کی محبت ہے۔ اصل کھیل ہے بشارالاسد کو بچانے اور انھیں ہٹانے کا۔ امریکہ نے دہشت گردوں کا نیٹ ورک اسد کے خلاف کھڑا کیا تھا تاکہ وہ اسد کو کمزور کریں اور امریکہ یہاں اپنے کسی کٹھ پتلی کو بٹھاسکے، جب کہ روس کے مفادات اسد سے وابستہ ہیں لہٰذا وہ کسی بھی حال میں انھیں بچانا چاہتا ہے۔روس کی معیشت کا تقریبا چالیس فیصد توانائی کی برآمد سے آتا ہے۔ اس میں بھی قدرتی گیس ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نہیں چاہتے کہ گیس کے لئے یورپ ،روس پر انحصار کرے کیونکہ اگر روس کی معیشت برباد ہو گئی تو وہ پھر سے دوسری سپر پاور بننے کے خواب کو بالائے طاق رکھنے پر مجبور ہوگا۔ روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے جی بی میں دوسرے سب سے زیادہ نمایاں عہدے پر سروس دے چکے روسی صدرپوتن کسی بھی حالت میں امریکہ کے اس منشا کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ دونوں ممالک نے اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لئے شام کو محاذ کے طور پر منتخب کیا ہے۔
خلیج میں بدامنی کے لئے یہاں کے شیوخ اور مغرب ذمہ دار ہیں۔ سعودی عرب کا شاہی خاندان اور خلیج عرب کے ڈکٹیٹر نہیں چاہتے کہ خطے میں جمہوریت آئے، یہی سبب ہے کہ مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے سعودی عرب اور قطر نے سب سے زیادہ زور لگایا۔ انھیں خوف رہتا ہے کہ ان کے ملک میں بھی عوام جمہوری حقوق کا مطالبہ نہ شروع کردیں۔ امریکہ بھی نہیں چاہتا کہ خلیجی ممالک میں جمہوریت آئے کیونکہ عوام کا رویہ امریکہ کی حمایت میں نہیں جب کہ حکمراں امریکہ کے پٹھو ہیں۔ اسرائیل بھی نہیں چاہتا ہے کہ کوئی بھی عرب ملک کبھی بھی اتنا مضبوط ہو کہ اس کو رتی بھر خطرہ ہو۔ یہی سبب ہے کہ خلیج کے حکمراں طبقہ کی ہمیشہ سے اسرائیل،امریکہ اوریوروپ کے ساتھ چھنتی رہی ہے۔خلیج کی بدامنی کے پیچھے امریکی ٹیکنالوجی، اسرائیلی دماغ اور سعودی عرب کا ریال کام کرتاہے۔
جواب دیں