شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

لیکن کیا حضرت یوسف کو اس کا علم تھا کہ ان کو کنویں میں اس لئے ڈالا جا رہا ہے اور کیا ان کو علم تھا کہ ان کو مصر کے بازار میں فروخت کیا جائے گا ۔اور پھر ایک دن آئے گا جب وہ مصر کے تاج وتخت اور اقبال وبخت کے مالک ، اور فرما روائے سلطنت مصر بن جائیں گے ۔اس وقت الکشن کے جو نتائج سامنے آئے ہیں ممکن ہے اس میں اسی طرح خیر کاپہلو ہوجس طرح حضرت یوسف کو کنویں میں ڈالنے میں اور قید کئے جانے میں خیر کاپہلو تھا ۔ اللہ کی مشییت کو کوئی نہیں جان سکتا ہے 
پیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرۂ ناچیز 
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
گلستان میں جب خزاں آتی ہے اور پھول کھلنا بند ہوجاتے ہیں تو شاخوں کو نہیں معلوم ہوتا ہیکہ خزاں کے پیچھے ایک بہار بھی پوشیدہ ہے ۔ جس طرح کرہ ارضی لیل ونہار کی کروٹیں بدلتا ہے اور جس طرح چمن میں کبھی بہارکاموسم آتا ہے اور کبھی اس پر خزاں چھاجاتی ہے اسی طرح سے سیاست کی دنیا میں بھی انقلاب آتے ہیں کبھی ایسے لوگ برسر اقتدار آتے ہیں جو انصاف پرور شریف اور سب کے خیر خواہ ہوتے ہیں اور کبھی ایسے لوگ حکومت پر فائز ہوجاتے جو انسانیت کے دشمن’ انسانوں کے قاتل ہوتے ہیں اور انسان کا خون ان کے منہ کو لگ جاتا ہے ۔ گجرات میں جس شخص نے کل مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی آج وہ ملک کا وزیر اعظم اور سربراہ بن گیا ہے اور اس کا فکری سررشتہ بندھا ہوا ہے اس تنظیم سے جس کے قائد گرو گولوالکر نے اقلیت کا صفایا کرنے کے لئے جرمنی کو موڈل بنانے کا مشورہ دیا تھا جہاں یہودیوں کی اقلیت کا صفایا کیا گیا تھا اور ہولوکاسٹ کے حوالہ سے جس کاذکر آج بھی ہول دل اور ہیبت پیدا کرتا ہے۔اب وہ جماعت اقتدار کے ایوان میں پہونچ گئی ہے جس نے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کا اور مسلم پرسنل لا کو ختم کرنے کااپنے منشور میں وعدہ کیا ہے اب جب کہ الکشن کے نتائج سامنے آچکے ہیں اور مسلمانوں کی سب سے نا پسندیدہ دشمن جماعت جسے مسلمانوں سے بیر ہے اور جسکی ساخت میں مسلم دشمنی ہے برسراقتدار آچکی ہے اب جبکہ ڈراونا خواب حقیقت بن چکا ہے۔ اس وقت مسلمانوں کو ان ہی حالات سے سابقہ درپیش ہے جو دوسو سال پہلے پیش آئے تھے ہندوستان میں جب مسلم سلطنت کا چراغ گل ہوگیا تھا اور مسلمان ۸۵۷! کی لڑائی ہار گئے تھے اور انگریزوں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اس وقت مسلمانوں کی نکبت اور ناسازگاری اور غم اور مایوسی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ اس دورکے بعد یہ دوسرااضطراب انگیز اور غارت گر سکون وعافیت واقعہ پیش آیا ہے (اذا وقعت الواقعہ ) اب مسلمانوں کے لئے یہ نئی صورت حال ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے کہ اب کیا کرنا چاہئے ’’ پس چہ باید کرد ؟‘‘
جو لوگ رسوخ فی العلم رکھتے ہیں ان کی طرف سے جواب یہ سامنے آتا ہے یا سامنے آنا چاہئے کہ ہمیں ہر حال میں ایمان اور استقامت کا ثبوت دینا چاہئے (الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا ) جو لوگ ایمان اور استقامت کا ثبوت دیتے ہیں ان پررحمت کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور انہیں ڈھارس دیتے ہیں ان کی دست گیری کرتے ہیں اور انہیں مزدہ کامیابی سناتے ہیں ۔ اس لئے سب سے پہلے ہم مسلمانوں کو یہ عزم کرنا ہوگا کہ ہم اس ملک میں دین وشریعت کے چھوٹے سے چھوٹے جزء سے بھی دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہمیں ہر قیمت پر اس ملک میں اپنی شناخت کو باقی رکھنا ہے ہمیں اپنے پروفیشن یعنی پیشہ اور کام میں ہر روز آٹھ دس گھنٹے محنت کرکے برادران وطن سے ممتاز ہونا ہے اور ہمیں ہر حال میں اتحاد و اتفاق کا ثبوت دینا ہے اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر رہنا ہے مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے یا متفقہ طور پر علماء کی جانب سے جو ہدایت نامہ جاری ہو اس کی پیروی کرنی ہے ہمیں اپنے دین پر عمل کرنے کیلئے پہلے سے کہیں زیادہ اہتمام کرنا ہے اپنی عبادتوں کو اور اپنے کردار کو پہلے سے زیادہ بہتر بنا نا ہے ۔ شعر اقبال کی زبان میں گیسوئے تابدار کو اور بھی زیادہ تابدار کرنا ہے۔ ہمیں اب ایسی قوم بن کر دکھانا ہے جو تعلیم میں بہتر تہذیب میں روشن تر جستجو میں گرم تر اور گفتار میں نرم تر اور پاک دل وپاک باز ہو ۔ہمارے کردار میں ایسی کمزوری سامنے نہیں آنی چاہئے جسے منافقت کہتے ہیں ۔ اس منافقت کی اس وقت تلقین شروع ہو گئی ہے یعنی یہ تلقین شروع ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کو چڑھتے ہوئے سورج کی پوجا کرنی چاہئے یہ نصیحت کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کو بی جے پی سے مل جانے کیلئے اور اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا نے کے لئے تیار رہنا چاہئے ، یہی منافقت ہے، منافقت کا سلسلہ الکشن سے پہلے شروع ہوگیا تھا اور انگریزی کے ایک بڑے مسلمان صحافی نے دن دہاڑے بی جے پی کی رکنیت قبول کرلی تھی کچھ اور لوگ بھی مذکورہ انگریزی کے صحافی کے نقش قدم پر چل سکتے ہیں اس منافقت سے مسلمانوں کو بچنے اور بچانے کی ضرورت ہے اب ایسی تحریریں سامنے آنے لگی ہیں جن میں بی جے پی کو آزمانے اور اس سے قریب ہونے کی تلقین کی جارہی ہے بی جے پی کون ہے؟ بے جے پی وہ پارٹی ہے جو ہندوستان میں ہندو حکومت چاہتی ہے ہندو تہذیب کا غلبہ چاہتی ہے اسلام قبول کرنے اور مذہب کی تبدیلی کی شدت سے مخالف ہے ۔ بی جے پی دراصل آر اس اس کا سیاسی ونگ ہے اور آر اس اس ’’ ہندو ہندی ہندوستان ‘‘ کا نعرہ دے چکی ہے مسلم پرسنل لا کو ختم کرنے کا عہد تو بی جے پی کے منشور میں شامل ہے بابری مسجد کی جگہ رام مندر اس کے منصوبہ میں داخل ہے ،ان تمام باتوں کی موجودگی میں بی جے پی کو قبول کرلینے اور اس سے آشنائی بڑھانے کی تلقین شروع کردی گئی ہے ۔ مسلمانوں کا اس وقت بی جے پی میں شامل ہوجانا منافقت اور زمانہ سازی کے ہم معنی ہے اور اقبال نے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ ’’ گر زمانہ باتو نہ سازد تو بزمانہ ستیز ’’ یعنی اگر زمانہ تمہارا ساتھ نہیں دیتا ہے تو تم زمانہ سے پنجہ آزمائی کرو ، اس وقت ضروری ہے مسلم قیادت اور مسلم پرسنل لا بورڈ نئے وزیر اعظم سے اور بی جے پی کی قیادت سے گفتگو کرے ، یہی حکم تھا جو حضرت موسی علیہ السلام کو دیا گیا تھا قرآن میں ہے (اذہب الی فرعون انہ طغی) 
اگر مسٹر مودی نے پارلیامنٹ میں اپنی عددی اکثریت کی وجہ سے فرعونیت دکھائی اوروہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داروں کی گفتگو سنجیدگی سے سننے کے لئے نہیں تیار ہوئے تو وہ اس بات کا ثبوت دیں گے کہ ان کے اندر اعلی ظرفی نہیں پائی جاتی ہے ۔ انہیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ مسلمانوں نے اپنے دور حکومت میں دوسرے مذاہب کے پرسنل لا کا احترام کیا اور اس میں مداخلت نہیں کی ۔ مسٹر مودی کو اقتدار کے نشہ میں یہ بھی نہیں فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ وہ اس ملک میں صرف تیس فیصد ووٹ کے ذریعہ اقتدار میں آئے ہیں اور تقریبا ستر فی صد عوام نے ان کو اقتدار کے لئے ناپسند کیا ہے اور انہوں نے ان کے خلاف ووٹ ڈالے لیکن ان کے ووٹ تقسیم ہوگئے ۔ مسٹر مودی کو یہ بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ جن تیس فیصد ووٹر نے ان کی حمایت کی انہوں نے ہرگز مسلم پرسنل لا کو بدلنے کے لئے یا رام مندر بنانے کے لئے انہیں ووٹ نہیں دیا ۔ یہ تو گذشتہ دور حکومت کا کرپشن تھا ، آسمان کو چھوتی ہوئی منہگائی تھی اور کوئی متبادل ان کے پاس نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ پارلیامنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔مسٹر مودی کو ان سب حقائق کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور منصب کے وقار کو اور کرسی کی عزت کومد نظر رکھتے ہوئے حکومت کرنی چاہئے۔
ہم مسلمانوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اللہ تعالی مالک الملک ہے ،تمام حکومتوں کا مالک ہے ، وہی جسے چاہتا ہے اقتدار عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اقتدار وحکومت چھین لیتا ہے وہ جسے چاہتا ہے عزت وسیادت سے سرخرو کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے رسوا کردیتا ہے اسی کے ہاتھ میں خیر ہے ۔اقتدار کی کنجی اسی کے ہاتھ میں ہے ،مسلمانوں کو اللہ سے خیر و عافیت مانگنا چاہئے باطل کے سامنے سر نگونی اور سبک سری اور سر بزیری سے پر ہیز کرنا چاہئے۔
سب سے پہلے تو یہ جقیقت مسلمانوں کو سمجھ لینی چاہئے کہ زندہ قومیں مسائل اور مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں اور ان ہی سے ان کی قوت اور زندگی کا اظہار ہوتا ہے ان ہی سے ان کے اندر مدافعانہ قوت کی نشو ونما ہوتی ہے جو لوگ سخت سردی یا سخت گرمی کے موسم میں رہنے کےٍ عادی ہوتے ہیں ان کی جسمانی قوت مدافعت زیادہ بہتر ہوتی ہے ۔ افراد کی طرح قومیں بھی مخالفت کی آندھیوں کے درمیان رہ کر خودکو زیادہ طاقتور اور ناقابل تسخیر اور حوصلوں سے معمور بنالیتی ہیں ان کے لئے سخت اور جاں گسل حالات قدرت کی طرف سے انعام ہوتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور صحابہ کرام نے مکی دور میں بہت سی پریشانیاں برداشت کیں لیکن مشکلات کے خار دار صحراء میں وہ ثابت قدم رہے یہ ان کی ثابت قدمی کی برکت تھی کہ مدینہ میں ان کی وہ طاقتور حکومت قائم ہوئی جسے کوئی زیر نہیں کر سکا ۔ ایمان اور حسن کردار (عمل صالح) اگر موجود ہوتا ہے تو خدا کی مدد نازل ہوتی ہے اس لئے سب سے پہلے ایمان سے اپنے دل کو اور حسن اخلاق سے اپنے کردار کو سنوار نے کی ضرورت ہے ۔ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ پرسنل لا سے متعلق ہمارے معاشرے میں جوہ مسائل بھی پیش آئیں گے انہیں ہم صرف دار القضا میں لے جائیں گے اور وہاں سے جو فیصلہ ہوگا ہم اس پر راضی رہیں گے اور ہم کسی حال میں سرکاری عدالتوں میں اپنا کیس نہیں لے جائیں گے اور جولوگ لے جائیں گے مسلم معاشرہ ان کا بائیکاٹ کرے گا ۔کیونکہ عدالت کے فیصلے شاید آئندہ مسلم پرسنل لا کے مطابق نہیں ہوں گے 
موجودہ حالات میں ایمان ، حسن عمل ، تقوی او پرہیزگاری کے ساتھ ایسے لائق انگریزی اور مقامی زبانوں کے اہل قلم کی ضرورت ہے جومسلم پرسنل لا اور اسلامی قانون کا دوسرے قوانین کے ساتھ تقابلی مطالعہ کریں اور اسلامی قانون کی برتری ثابت کریں پھر یہ مضامین انگریزی اور مقامی زبانوں کے اخبارات میں شائع کئے جائیں ، کتابچہ کی شکل میں برادران وظن کے درمیان تقسیم کئے جائیں ، مسلم پرسنلا لا بورڈ کو اس نئے کام کا چیلنج قبول کرنا ہوگا ، حالات کتنے ہی سخت ہوں مسلمان اپنے شرعی قوانین کے کسی جزؤ سے دست بردار ہونے کیلئے تیار نہ ہوں ، جس ملک میں مسلمان اپنےُ مذہب پر عمل نہ کرسکیں اس ملک سے ہجرت فرض ہو جاتی ہے ، ہجرت کا یہ ہی فلسفہ ہے ، اس لئے کسی حال میں یہ نہیں ہونا چاہئے کہ مسلمان ان بدلے ہوئے حالات میں اللہ کے نازل کئے ہوئے اور پیغمبر کے بتلائے ہوءئے قانون سے دست بردار ہو جائیں ، مسلمان اگر نئے نظام اور اس کے قوانین کے سامنے جھکنے کیلئے نہیں تیار ہوں گے تو انہیں ذلیل و خوار بھی کیا جائے گا انہیں منصب اور عہدوں سے ہٹایا بھی جائے گا لیکن یہی امتحان کا بھی موقعہ ہوتا ہےٍ کون ہے جو شریعت اسلامی کا وفادار اور خدا کا فرماں بردار بندہ ہے اور کون ہے جو مشکلات سے گھبراکر ذاتی منفعت کے لئے دین وشریعت سے دست بردار ہوجاتا ہے ، اللہ کی مدد اسی صورت میں آئے گی جب مسلمان شریعت اسلامی کے چھوٹے سے چھوٹے جزء سے بھی دست بردارہونے کیلئے نہیں تیار ہوں گے ۔ مسلمانوں کو منافقت نہیں کرنی چاہئے ۔؟مسلم قیادت کو بدلے ہوئے حالات میں نئی حکومت کے نمائندوں سے گفتگو کرنی چاہئے ۔
ان بدلے ہوئے حالات میں دین پر استقامت اور ثابت قدمی اور حسن عمل اور حسن کردار کے ساتھ جو دوسری چیز مطلوب ہے وہ تعلیم اور ہنر مندی کے میدان میں مسلمانوں کا دوسروں سے ممتاز اور ممیز ہونا ہے سچر کمیٹی کی رپورٹ کی مطابق مسلمان دلتوں سے بھی پس ماندہ ہیں ، وہ جو کبھی شاہ زمن اور خسروئے اقلیم وطن تھے وہ جاروب کشوں کے درجہ تک پہونچ گئے ہیں ، اب بدلے ہوئے حالات میں جب مسلم مخالف نقطہ نظر کے لوگ اقتدار کے ایوانوں تک پہونچ گئے ہیں اس چیلنج کو خود مسلمانوں کو قبول کرنا ہو گا ، ان کی مدد کیلئے حکومت پہلے بھی کچھ نہیں کرسکی اور اب نئی حکومت تو اور بھی کچھ نہیں کرسکے گی بلکہ شاید راستہ میں روڑے اٹکائے گی کیوکہ مسلم دشمنی اس کے ضمیر اور خمیر میں داخل ہے ، اب یہ کام خود مسلمانوں کو انجام دینا ہوگا، مسلمانوں کو اس کے لئے تیار ہونا ہوگا کہ وہ روکھی سوکھی روٹی کھائیں گے لیکن اپنی اولاد کی تعلیم سے غافل نہیں ہوں گے اور تعلیم میں ممتاز ہونے کیلئے وہ دوسروں سے زیادہ اور دوگنی محنت کریں گے ، آٹھ اور دس گھنٹے پڑھیں گے اور اپنا امتیاز ثابت کریں گے عام طور پر تعصب وہیں کام کرتا ہے جب مقابلہ برابر کا ہوتا ہے لیکن جب کوئی شخص عام اور متوسط سطح سے بہت بلند ہوجاتا ہے تو پھر لوگ اس کی صلاحیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ،. اگر مسلمان اپنی قومی زندگی کے اس خطرناک موڑ پر یہ عہد کرلیں کہ وہ اپنے دین کے کسی جزء سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں اور یہ عہد کرلیں کہ وہ اپنے حسن عمل اور اخلاق میں ممتاز بنیں گے اور اپنی تعلیمی پسماندگی کو دور کریں گے، اپنے وقت کو ضائع نہیں کریں گے او ر اس ملک میں برادران وطن سے زیادہ فائق اور ممتاز بن کر رہیں گے تو وہ اس ملک میں بوجھ نہیں ہوں گے اور ان کی قدر ومنزل میں اضافہ ہوگا، تو اب یہ تین چیزیں ہوگئیں ، تین پوائنٹس ہو گئے ،ان نازک حالات میں جن پر پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے نمبر ایک ایمان واستقامت اور نمبر دو، حسن عمل اور اخلاق اورپھرنمبر تین ، تعلیم اور ہنر مندی ۔ تعلیم کے میدان میں پیش رفت سے اقتصادی حالات بھی بہتر ہوں گے اور اقتصادی حالات کی بہتری سے تعلیم کے میدان میں اور زیادہ پیش رفت ہوگی مسلمان اپنے تعلیمی ادارہ قائم کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے تعلیم اور اقتصادیات دونوں ایک دوسرے سے مربوط اور ہمرشتہ ہیں ۔ تعلیم کے بغیر بہتر اقتصادیات کا حصول ممکن نہیں اور بہتر اقتصادیات کے بغیر اعلی درجہ کی تعلیم ممکن نہیں ۔ راستہ کی تمام رکاوٹوں کے باوجود ہمیں اپنی منزل تک پہونچنے کی کوشش کرنا ہے ۔
کس بھی ملک میں صرف اپنی جگہ بنانے کیلئے نہیں بلکہ قائدانہ اور رہبرانہ مقام حاصل کرنے کیلئے اور سب سے بلند اور مرکزی حیثیت حاصل کرنے کیلئے اور تابع نہیں بلکہ متبوع اور مقتدی نہیں بلکہ مقتدا کا درجہ پانے کیلئے اور کوئی انقلاب لا نے کے لئے مذکورہ بالا تین بنیادی باتوں ، یا تین پوائنٹ کے سوا ایک اور چیز کی بھی ضرورت ہے اور وہ ہے داعیانہ کردار ۔ اس ملک میں مسلمانوں کے لئے ایک ایسی نئی نسل کی ضرورت ہے جو تعلیم یافتہ ہو اور جو ایک طرف صاحب ایمان واخلاق ہو دوسری طرف قرآن وسنت پر اس کی گہری نظر ہو تیسری طرف وہ برادران وطن کے مذہب سے تہذیب سے روایات سے اور ان کی زبان سے واقف ہو اور ان سے گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو ۔ داعیانہ کردارکا ان خصوصیات کے بغیر ادا کرنا ممکن نہیں ۔ ملک کے گوشہ گوشہ میں بہت بڑی تعداد میں ایسے علماء کی ضرورت ہے جو ہندووں سے زیادہ ہندو مذہب کی کتابوں سے واقف ہوں جو غیر مسلموں سے ان کی زبانوں میں ڈائلاگ کر سکتے ہوں ان کی زبانوں میں ان کو اسلام کی تعلیمات بتاسکتے ہوں قرآن میں ہے کہ ہم نے پیغمبروں کو ان کی قوم کی زبان میں گفتگو کرنے والا بناکر بھیجا ( وما ارسنا من رسول الا بلسان قومہ ) اس عظیم الشان مشن کی ذمہ داری دینی مدارس کو اٹھانی چاہئے تھی ۔ کئی ہزار کی تعداد میں دینی مدارس اس ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ہر سال فارغ ہونے والے سند یافتہ علماء بن کر نکلتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی اس لائق نہیں ہوتا ہے جو غیر مسلموں سے ان کی زبان میں گفتگو کرسکے کسی کوبھی انگریزی نہیں آتی اور مقامی زبان سے بھی وہ واقف نہیں ہوتے غیر مسلموں کے درمیان کام کرنے کا نہ ان کا مزاج ہوتا ہے نہ ذوق، اس لئے وہ داعیانہ کردار ادا کرنے کے لائق نہیں ہوتے ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ یہ علماء دین معتزلہ اشاعرہ اور ماتریدیہ اور بہت سے قدیم گروہوں سے تو واقف ہوتے ہیں ، نہیں واقف ہوتے ہیں تو ان مذاہب سے جن کے ماننے والوں کے درمیان وہ رات دن رہتے بستے ہیں ۔ جب ان کو توجہ دلائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہمارا نصاب تعلیم بہت بوجھل ہے اور اس میں نہ تبدیلی کی گنجأش ہے اور نہ اضافہ کی ۔ وہ آخر ایسی کتابیں اور مضامین کیوں پڑھاتے ہیں جن کی اب ضرورت نہیں اور جن سے زیادہ اہمیت کے اور زیادہ ضروری دوسرے مضامین موجود ہیں جن کو پڑھانا اور جن کی تعلیم دینا اس ملک کے حالات کے لئے بہت ضروری ہے اور اسلام کی دعوت واشاعت کا ان پر مدار اور انحصار ہے ۔ جب تک ہمارے یہاں بے شعور علماء موجود ہیں ملت کی ضرورتوں کو پوری کرنے والی نسل سامنے نہیں آسکے گی ۔ماضی پرستی اور دقیانوسیت اس طر ح ان کے اندر سرایت کر گئی ہے کہ وہ نہ حالات کی تبدیلی کو سمجھتے ہیں اور نہ وقت کے تقاضوں ک59و ۔نتیجہ یہ کہ حالات کا رخ مسلسل خراب ہوتا جارہا ہے اور رات کی زلف برہم کی سیاہی مقدر پر غالب ہوتی جاہی ہے ۔ ہمیں صورت حال کو بدلنا ہے ۔ دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک ۔

«
»

نیپالی زندہ بھگوان کماری جس کے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے

کوئی جہاں میں اُردو کو مٹا نہیں سکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے