شجرکاری؛اسلام کی نظر میں
عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
اسلام کی آمد سے قبل عرب معاشرہ جہاں بے شمار سماجی و اخلاقی برائیوں میں مبتلا تھا،وہیں جسمانی وماحولیاتی گندگی بھی اس سماج کالازمی حصہ تھی۔عربوں کی غیر مہذب قبائلی زندگی میں صفائی اور نفاست کاکوئی اہتمام نہ تھا، طہارت ونظافت سے بے اعتنائی برتی جاتی تھی،گندے بدن اور بوسیدہ کپڑوں کے ساتھ رہن سہن کو اچھاخیال کیا جاتا تھا،عرب معاشرہ جو یہودیوں، بت پرستوں اور عیسائیوں کے طرز ِ معاشرت پر مشتمل تھا،حفطان صحت اور جسمانی پاکیزگی کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا، گھروں، محلوں اور خود اپنے آپ کو گندہ یا برہنہ رکھناعام سی بات تھی؛مگرجب اسلام کا نیر تاباں طلوع ہوا تو اس نے جہاں ایک طرف انسانیت کوروحانی بالیدگی عطا کی،اخلاق کو سنوارا اور تہذیب سے آشنا کیا،وہیں معاشرے کو ہر طرح کی آلودگی سے پاک و صاف رکھنے کے لیے کچھ اصول بتلائے نیز انسانوں کو رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، لباس پہننے حتی کہ قضائے حاجت کرنے کے طریقے سے بھی آگاہ کیا،ساتھ ہی ساتھ اس بات کا اعلان فرمایا کہ: زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد مت مچاؤ! (سورہ اعراف) یعنی قدرت نے زمین کو جس حسن و جمال اور امن وامان سے آراستہ کیاہے،اس میں کسی قسم کی تبدیلی مت کرو!عربی زبان میں ”فساد“ ایک وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے، علامہ راغب اصفہانیؒ اپنی کتاب مفردات القرآن میں فساد کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: فساد کے معنیٰ ہیں کسی چیز کا اپنی حالت ِسلیم سے بدل کر خراب حالت پر آجانا، اس کی ضد صلاح ہے، جیساکہ اہل عرب کہتے ہیں دودھ فاسد ہو گیا،یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب اس میں تغیر واقع ہوجائے، وہ بدبو دار ہوجائے یا استعمال کے قابل نہ رہے۔ پھر یہ لفظ ہر اس چیز کے لیے استعمال کیا جانے لگا جو اعتدال سے نکل جائے، جیسے ظلم اور تعدی وغیرہ۔ (مفردات القرآن مادہ فسد) زمین کی موجودہ تبدیلیوں پر بھی اس معنیٰ کے لحاظ سے فساد کا اطلاق ہو سکتا ہے؛کیوں کہ پچھلی چند دہائیوں سے زمین کا اصل نظام ِاعتدال و توازن متاثر ہوتاجارہا ہے اوراس کی حقیقی افادیت بہ تدریج ختم ہورہی ہے، جو مستقبل میں بہت بڑے خطرے کا پیش خیمہ ہے۔
نظام قدرت اور ماحولیات کا تحفظ:
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کائنات کا حسن وجمال اس کی قدرتی وفطری آب وہوا میں ہے۔ جب کبھی دنیا فطرت سے سر مو انحراف کرے گی،زمین وآسمان میں لازماً فسادوبگاڑ برپا ہوگا۔یہ قدرت کا عجیب نظام ہے کہ اس کائنات میں جہاں ماحو ل کوآلودہ کرنے والے غیر قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں، وہیں رب کائنات نے ماحولیاتی کثافت کو جذب کرنے والے اہم ترین ذرائع بھی پیدا کررکھے ہیں،زمین میں اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ساری غلاظتوں کو اپنے سینہ میں دفن کرلیتی ہے، مرنے والے انسان اور دیگر جانور اگر زمین میں دفن نہ کئے جائیں تو سارا ماحول متعفن ہوکر رہ جائے، شہروں میں کوڑا کرکٹ کی شکل میں ٹنوں منوں غلاظت،زمین اپنے سینہ میں اتار کر تحلیل کردیتی ہے، سمندر کا حیرت انگیزنظام‘ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے میں غیر معمولی کردارادا کرتا ہے، ہر دن سمندر میں بے شمار حیوانات مرتے ہیں اور ہزاروں جانور غلاظت کرتے ہیں پھر کارخانوں کے آلودہ پانی کا رخ بھی سمندروں کی طرف کیا جاتا ہے، سمندر کا کھارا پانی ان ساری چیزوں کو تحلیل کرکے ماحولیاتی تحفظ کا سبب بنتا ہے جو اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، ان سارے قدرتی ذرائع کے باوجوداس وقت ماحولیاتی کثافت پوری دنیا کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے، جدید طرز زندگی کے سبب ہر گزرتے دن کے ساتھ آلودگی میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، ماحولیاتی آلودگی اس وقت ایک عالم گیر مسئلہ بن چکی ہے، قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرنے والے دین اسلام نے جہاں موجودہ دور کے دیگر مسائل کا حل پیش کیا ہے، وہیں اس کی تعلیمات میں ماحولیاتی آلودگی کا بھی حل موجود ہے۔(ملخص از شجر کاری اور اسلامی تعلیمات؛مولانا سیداحمدومیض ندویؔ)
شجرکاری؛کیوں ضروری؟
ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ کے مختلف اسباب و ذرائع میں ایک اہم ذریعہ درخت اور درختوں سے بھرے، گھنے جنگلات ہیں؛ جن کی موجودگی صاف وشفاف فضا فراہم کرنے اور ماحول کوپُر لطف و پاکیزہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔روئے زمین پر جابجا پھیلے درخت بنی نوع انسانی کے لیے قدر ت کا انمول تحفہ ہیں۔ درخت نہ صرف سایہ فراہم کرتے ہیں؛ بل کہ یہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے میں بھی مُمّد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ درخت لگانے کے عمل کو شجر کاری کہاجاتاہے،شجرکاری نہ صرف سنتِ رسول ﷺہے؛ بل کہ ما حول کو خوبصورت اور دل کش بنانے میں بھی ان کاقابل ذکر حصہ ہے، شجر کاری ہر دور میں تحفظ ماحولیات کے لیے کلیدی کردار کی حامل رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی،قدیم زمانے میں جب انسان کے پاس گھر نہیں تھا تو اس نے درخت کے سایے کو اپنا بسیرا بنایا، جب وہ بھوکا مرتا تھا تو درخت کے پھل ہی تھے جو اسے غذا فراہم کرتے تھے، آج بھی انسان درخت کے ذریعہ بہت سے کام لیتاہے، لکڑیاں، گوند، شہد وغیرہ درختوں ہی سے حاصل ہوتے ہیں، جس طرح انسان درخت سے استفادہ کرتاہے پرندے اور دوسرے جانور بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، تقریبا ًسارے ہی پرندے درخت پر گھونسلہ بناتے ہیں، سبزی خور پرندے اور جانور اپنی غذا درخت سے ہی حاصل کرتے ہیں، اس طرح درخت انسان کے لیے ہی نہیں پرندوں اور جانوروں کے لیے بھی مفید ہیں، درخت جہاں دنیا بھر کے جانداروں کو چھا ؤں مہیاکرتے ہیں، وہیں ان کی خوشبو سے زمانہ مہکتا ہے، رنگ برنگے درخت کبھی ریگستان کو نخلستان میں بدل دیتے ہیں تو کبھی جنگل میں منگل کا سماں پیدا کرتے ہیں،نیز درختوں پربسنے والے پرندوں کی چہچہاہٹ بھی ماحول کو خوش گوار کردیتی ہے۔
شجرکاری؛قرآن وحدیث کی روشنی میں:
قرآن وحدیث میں متعدد مقامات پر شجرکاری کی ترغیب دی گئی ہے اور ہرے بھرے،پھل دار درختوں کومحل امتنان میں ذکر کیا گیا ہے۔ارشاد باری ہے: ”وہی تمہارے فائدے کے لیے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے اُگے ہوئے درختوں میں تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو۔ اسی سے وہ تمہارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اُگاتا ہے۔بے شک ان لوگوں کے لیے تو اس میں بڑی نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں۔“(النحل)
حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جومسلمان درخت لگاتاہے پھر اس میں سے جتنا حصہ کھالیاجائے وہ درخت لگانے والے کے لیے صدقہ ہوجاتا ہے اور جو اس میں سے چوری کر لیا جائے وہ بھی صدقہ ہوجاتا ہے یعنی اس پربھی مالک کو صدقہ کا ثواب ملتاہے اور جتنا حصہ اس میں سے چرند کھالیتے ہیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوجاتاہے اور جتنا حصہ اس میں سے پرندے کھالیتے ہیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوجاتاہے (غرض یہ کہ) جو کوئی اس درخت میں سے کچھ بھی پھل وغیرہ لے کر کم کردیتا ہے تو وہ اس درخت لگانے والے کے لیے صدقہ ہوجاتاہے۔ (مسلم)شجرکاری کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے بھی ہوتا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں درخت ہو اور وہ اس بات پر قادر ہو کہ قیامت قائم ہونے سے پہلے وہ اسے لگا لے گا تو ضرور لگائے۔ (مسند احمد)درختوں کی اسی افادیت کے پیش نظر آپﷺ نے ایسے درخت وغیرہ جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے، کاٹنے یا برباد کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔ نبی ﷺ نے حالت جنگ میں بھی اشجار کو کانٹے سے منع فرمایا ہے، آپ لشکر کی روانگی کے وقت دیگر ہدایات کے ساتھ ایک ہدایت یہ بھی فرماتے تھے کہ: کھیتی کو نہ جلانا اور کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دورِ اقتدار میں باغ بانی اور شجرکاری میں گہری دل چسپی دکھائی ہے اوراسے علوم وفنون کی شکل دے کر دنیا میں خوب فروغ دیا ہے۔
فضائی آلودگی میں شجرکاری کی اہمیت:
عالمی ادارہئ صحت نے فضائی آلودگی کو دنیا میں صحتِ عامہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے،ایک نئی تحقیق کے مطابق یہ آلودگی دنیا میں مرنے والے ہر آٹھویں فرد کی موت کی وجہ ہے اور اس کی وجہ سے دنیا بھر میں صرف سن2012 میں 70 لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ بیرونی فضائی آلودگی چین اور بھارت جیسے ممالک کے لیے بڑا مسئلہ ہے جہاں تیزی سے صنعت کاری ہو رہی ہے۔کنگز کالج لندن کے ماحولیاتی تحقیقاتی گروپ کے ڈائریکٹر فرینک کیلی کا کہنا ہے کہ ہم سب کو سانس لینا ہوتا ہے اس لیے ہم اس آلودگی سے بچ نہیں سکتے،اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ماسک پہن کر یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم آلودہ فضا میں سانس لینے کے لیے تیارہیں جبکہ ہمیں آلودگی ختم کرنے کے لیے اپنے طرزِ زندگی کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس کے ساتھ ہمارے پھیپھڑوں میں ایسے چھوٹے ذرات چلے جاتے ہیں جو بیماری کا باعث بنتے ہیں۔ سائنس دانوں کے خیال میں فضائی آلودگی دل کی سوجن کی وجہ بھی بنتی ہے جس کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔(ملخص از ماحولیاتی آلودگیاحکام و مسائل)
ماحولیات اور نباتات کے ماہرین کے مطابق ایک اوسط سائز کادرخت دوخاندانوں سے خارج شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو جذب کرکے ہوا میں کافی آکسیجن پیدا کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ درخت دن میں کافی رطوبت ہوا میں شامل کرتے ہیں، جس سے درجہ حرارت کم اور ماحول خوش گوار ہوجاتا ہے۔ بڑے بڑے سر سبز وشاداب علاقے بڑے شہروں اور صنعتی علاقوں کی ہوا میں شامل70فی صد سلفرڈائی آکسائیڈ اور نائٹرک ایسڈ کو جذب کرلیتے ہیں۔
”ناسا“کی تحقیق کے مطابق چھوٹے پودوں کے گلدستے گھر میں رکھنے سے اندرونی فضا صاف ہوتی رہتی ہے۔ تحقیق کے مطابق آلودگی ہمارے گھروں میں مختلف ذررائع سے پھیلتی ہے؛ ان میں سگریٹ،گیس سے چلنے والے آلات، مصنوعی ریشے سے بنے ہوئے کپڑے، قالین، پردے ریفریجرٹر وغیرہ بھی کمرے کی ہوا کو آلودہ کرتے ہیں، ان سے کمرے کی ہوا میں نائٹروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی گیسوں کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے، ایسے کمروں میں اسپائڈرپلانٹ نامی پودوں کے گملے رکھنے سے24 گھنٹوں کے اندر اندر ہوا میں ان گیسوں کے تناسب میں زبردست کمی آجاتی ہے۔ ایک اوسط گھر میں آلودگی سے بچاؤ کے لیے ایسے8 سے15 پودوں کی موجودگی ضروری ہے اور پودوں کے مقابلے میں اسپائڈر پلانٹ زیادہ مؤثر پودے ثابت ہو ئے ہیں۔
خلاصہئ کلام:
ملک میں بڑھتی آلودگی اور موسمی تبدیلوں سے ہم سب بہ خوبی واقف ہیں۔شجر کاری ملک کے لیے وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔زیر زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کو روکنے کے لیے بارشوں کی اشد ضرورت ہے؛جس کے لیے درختوں کا ہونالازم وضروری ہے۔صانع عالم کی صناعی دیکھیے کہ درختوں کے پتوں سے پانی کے بخارات ہوا میں داخل ہوتے ہیں؛جس سے فضا میں نمی کا تناسب موزوں رہتا ہے اور یہی بخارات اوپر جاکر بادلوں کی بناوٹ میں مدد دیتے ہیں، جس سے بارش ہوتی ہے۔
کرونا وبا کے بعدملک کے حالات اور آکسیجن کی کمی کے پے در پے واقعات کے تناظر میں یہ بات ضروری ہوچکی ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں میں درختوں کی اہمیت و افادیت سے متعلق شعور بیدار کیاجائے،ان کو آنے والے خطرات سے آگاہ کیا جائے اور شجرکاری کے حوالے سے سالانہ وقتی اور عارضی مہم چلانے کے بجائے مستقل اوردائمی اقدامات کیے جائیں؛تاکہ ملک کا مستقبل تاب ناک ہو اور ماحولیات کا تحفظ ممکن ہوسکے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں