نواب علی اختر
وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنے عہدہ کے مغائر منصوبوں کو قطعیت دیتے ہوئے این آر سی کے ہتھیار کو دھار دینا شروع کردیا ہے۔ پورے ملک میں ہندی زبان کو تھوپنے کا شوشہ چھوڑ کر چوطرفہ مشکل میں گھرے امت شاہ نے اب کولکاتا میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ہندوؤں، بدھسٹوں، سکھوں اور جین پناہ گزینوں کو یقین دلاتے نظر آر ہے ہیں کہ انہیں اس ملک سے نکالا نہیں جائے گا خواہ وہ ’گھس پیٹھیے‘ ہی کیوں نہ ہوں، وہ اس ملک میں ہی رہیں گے، انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائی جائے گی۔ امت شاہ کی تقریر میں تمام مذاہب کے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے صرف ’مسلمان‘ لفظ ان کی زبان پر نہیں آیا۔ این آر سی لانے کا واحد مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔ قومی شہری رجسٹر ( این آر سی) کے منصوبہ کو آسام سے لے کر مغربی بنگال تک توسیع دینے کا اعلان ناپاک ارادوں کو واضح کرتا ہے۔
حالات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو ہی دشمن قرار دینے کی سازش پر عمل ہو رہا ہے۔ بی جے پی، آر ایس ایس یا اس مکتب فکر کی کوئی بھی قیادت کی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ سراسر دستور ہند کے برعکس ہیں لیکن آواز اٹھانے کی کوئی جرأت نہیں کر رہا ہے۔ اگر کسی نے بھی آواز اٹھائی وہ صرف ڈھونگ ثابت ہوئی یا اپنے وجود کا احساس دلانے اور شہرت کے گراف کو اونچا کرنے کی نیت سے تھی حقیقت میں مسلمانوں کی فکر کوئی نہیں کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرکز میں جن طاقتوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے وہ ملک میں کچھ بھی کر گزرنے کے لئے بے تاب ہیں۔
شاہ کا یہ کہنا کہ ہندو، سکھ، جین، بدھ اور عیسائی در اندازوں کو ملک سے باہر نہیں نکالا جائے گا اور ہم شہریت ترمیمی بل مغربی بنگال میں این آر سی لاگو کرنے سے پہلے پارلیمنٹ سے منطور کر لیں گے، یہ اپنے آپ میں فرقہ پرستی کے دلدل میں دھکیل کر ملک کو تقسیم کرنے والا ہے۔ ملک کے وزیر داخلہ کو جانبدارانہ سیاست سے بالا تر ہونا چاہیے، ملک کے شہریوں کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم ان کے منصب کے منافی ہے۔ بی جے پی زیر قیادت حکومت غیر ملکی در اندازوں کے بہانے ایک مخصوص طبقہ یعنی مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور اس طرح یہ لوگ ایک طبقہ کے اندر خوف اور دہشت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے محدود مقاصد کے لئے ملک کے سیکولر کردار اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے چھیڑ چھاڑ ملک کے لئے شدید نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
سبھی حکمرانوں کو یہ بات دھیان میں رکھنا چاہیے کہ ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے، آئین اور دستور میں تمام شہریوں کو بغیر کسی مذہبی تفریق کے یکساں حقوق دیئے گئے ہیں۔ اس لئے جو لوگ اقتدار مل جانے کے بعد ہندوستان میں فرقہ پرستی کو فروغ دے رہے ہیں اور آئین کی مسلسل دھجیاں اڑا رہے ہیں انہیں آئین ہند کا مطالعہ کر کے اپنی حب الوطنی ثابت کرنا چاہیے۔ امت شاہ کو یہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ صرف پارٹی کے لیڈر نہیں ہیں بلکہ ملک کے وزیر داخلہ بھی ہیں۔ بنگال میں شہریت اور این آر سی کے بارے میں انہوں نے جس لب ولہجہ کا استعمال کیا ہے وہ ہندوستان کی جمہوریت اور دستور کے لئے شرمناک ہے۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی آئینی طور پر یہاں کے شہری ہیں۔ وہ یہیں پیدا ہوئے اور قانون کی مطابق وہ یہاں کے شہری ہیں، کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی سے ثبوت طلب کر کے وہ انڈین ہے یا نہیں۔
آسام میں این آر سی لاتے ہوئے لاکھوں لوگوں کو غیر ہندوستانی قرار دے دیا گیا جن میں اکثریت مسلمانوں کی بتائی جاتی ہے۔ اب یہی عمل مغربی بنگال اور پھر اترپردیش میں کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ بی جے پی قائدین کے لئے گویا یہ اقتدار ایک نعمت سمجھا جارہا ہے۔ اس قیادت میں ندامت و شرمندگی اور دستور کا پاس و لحاظ کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ معاشرے میں برائی، نفرت اور دشمنی کے غلبہ کو انتہائی درجہ تک لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہندوستانی عوام کی ایک بڑی تعداد کا ووٹ لے کر اقتدار حاصل کرنے والی طاقتوں کے خلاف آواز اٹھائی جائے تو یہ آواز فرقہ پرستوں کے شور و غل میں دبا کر رکھ دی جا رہی ہے۔
خود مسلمان بھی اپنی فکر سے بے پرواہ دکھائی دے رہے ہیں۔ مسلمانوں میں بے خبری اور کوتاہی کا مسئلہ اس قدر نازک ہوتا جا رہا ہے کہ مستقبل کی رونما ہونے والی صورتحال کے لئے خود کو تیار کرنے کی فکر نہیں کر رہے ہیں۔ بی جے پی حکومت ہندوستانی مسلمانوں کو غیر قانونی تارکین وطن قرار دے کر اس ملک سے نکالنے کی سازش کرچکی ہے۔ اس پالیسی کی آڑ میں اس نے چار ملین افراد کو گرفتار کر کے کیمپوں میں رکھنے کی تیاری کرلی ہے۔ این آر سی کے خلاف اگرچہ انسانی حقوق کے کارکنوں اور اسکالرس کی بڑی تعداد نے احتجاج کیا مگرموقع بموقع کانفرنسیں اور سیمینار کر کے سیاسی گلیاروں میں اپنی طاقت کا احساس کرانے والی مسلم تنظیموں نے عملی طور پر وہ کام نہیں کیا جس کی اشد ضرورت تھی۔
حالات سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ بی جے پی حکومت نے ملک بھر میں این آر سی لانے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ مستقبل میں اس طرح کے کئی اور فیصلے کیے جاسکتے ہیں جو بڑے مسائل کی شکل اختیارکرلیں تاکہ ان کی آڑ میں حکومت اپنے منصوبوں کوعملی جامہ پہنا سکے۔ اس لئے سارے ملک کے سیکولرعوام، مسلمانوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اسکالرس کو منظم طریقہ سے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ این آرسی کے ساتھ ہی این آر پی بھی منھ کھولے کھڑا ہے جس کی وجہ سے ملک میں دہشت کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ حکومتوں کا کام عوام کو راحت اور سکون کی زندگی فراہم کرنا ہے نہ کہ اپنے عیوب کی پردہ پوشی کرنے کے لئے سکون کی زندگی بسر کرنے والے لوگوں کی راتوں کی نیند حرام کردی جائے جیسے کہ موجودہ وقت میں ہو رہا ہے۔
بی جے پی اپنی حکمرانی کے ہر محاذ میں ناکام ہے۔ اس ناکامی کو پوشیدہ رکھنے کے لئے وہ اپنے رائے دہندگان کے سامنے نفرت پر مبنی پالیسیوں کو ہی شدت سے نافذ کرنے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جب حکومت ہر محاذ پر ناکام ہوجائے تو یہ محسوس ہوجانا چاہیے کہ بی جے پی کو ووٹ دینے والوں کو بھی خسارے سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اگر حکومت مذہبی جذبات سے عوام کو زیادہ دیر تک بے وقوف بنانے میں کامیاب بھی ہوجائے تو اس کا خمیازہ خود بی جے پی کے رائے دہندگان کو بھگتنا پڑے گا۔ آج ملک میں مہنگائی خاص کر پٹرول اور پیاز کی بڑھتی قیمتوں نے عام آدمی کی معیشت کو زک پہنچائی ہے۔ یہ صورتحال ملک کو ایک بھیانک موڑ پر لے جارہی ہے۔ ہندوستان میں بینک کاری نظام تباہی کی طرف ہے۔ اب تک 14 بینکوں کے دیوالیہ کی خبریں سامنے آچکی ہیں۔ یہ مسائل اہم ہیں ان سے عوام کی توجہ ہٹانے کا حربہ اختیار کرتے ہوئے حکومت سرپٹ دوڑ رہی ہے۔
بی جے پی حکومت کی’تاناشاہی‘ کی راہ میں کچھ ریاستی حکومتیں کانٹا بن رہی ہیں جنہیں ٹھکانے لگانے کے لئے ہرطرح کے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس کی بڑی مثال بی جے پی کی سیاسی دشمن مغربی بنگال کی حکمراں ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) صدر اور وزیراعلیٰ ممتا بنرجی ہیں جنہیں مرکز اپنی ’تحویل‘ میں لینا چاہتا ہے اوراس کے لئے تمام کوششیں ناکام ہونے کے بعد بی جے پی قیادت نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ وہ مغربی بنگال سے دراندازوں کو نکال باہر کرنے کے لئے این آر سی لائے گی، شہریت بل کے تعلق سے ممتا بنرجی نے عوام کو گمراہ کیا ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں