ظفرآغا
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے 10 دسمبر کو لوک سبھا میں کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ ان کی جماعت بی جے پی شہریت (ترمیمی) بل 2019 (کیب) لانے پر اس لئے مجبور ہوئی کیونکہ ’تقسیم ہند مذہب کی بنیاد پر ہوئی تھی۔‘ شاہ اس بل کا جواز پیش کرنے کے لئے 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے لئے پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی منطق کو شعوری یا لاشعوری طور پر یاد کر سکتے ہیں لیکن وہ یقینی طور پر ہندوستان کو ایک اور تقسیم کی طرف گامزن کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے پارلیمنٹ میں کیب پاس کرا کر ہندوستانی شہریت کو دانشتہ طور پر مذہب پر مبنی بنا دیا ہے۔
اس طرح بی جے پی نے ہندو راشٹر کے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے خواب کی بنیاد رکھ دی ہے۔ دراصل، آزادی سے بہت پہلے ہی سنگھ نے ایک ایسے ہندوستان کا تصور کیا تھا جہاں مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت ہوگی، عین اسی طرح جیسا کہ امت شاہ نے خود کہا کہ پاکستان جیسے اسلامی ممالک میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔ لہذا انہوں نے ہندوستان کو پاکستان کے برابر لا کھڑا کیا جہاں کسی شخص کی پیدائش نہیں بلکہ اس کا مذہب شہریت کو یقینی بنائے گا۔
لیکن تقسیم ہند کے سانحہ کے باوجود ہندوستان کے دستور کو جدید ہندوستان کی بنیاد پر یونہی نہیں تیار کیا گیا تھا۔ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 14 میں کہا گیا ہے کہ ’’حکومت ہندوستان کی سرزمین میں کسی فرد کو قانون کے تحت مساوات یا قوانین کے یکساں تحفظ سے محروم نہیں رکھے گی ۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ نے جیسے ہی کیب کو منظوری دی، ملک میں ایک طوفان برپا ہو گیا۔ آئین کے ماہرین، سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے اس بل کو آئین مخالف قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے متعدد ریٹائرڈ ججوں سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ’’اس سے آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نے بھی اسے ’آئین پر حملہ‘ قرار دیا ہے۔ جبکہ شہری حقوق کے لئے کام کرنے والے ہرش مندر نے اسے ’ہمارے سیکولر اقدار پر حملہ‘ قرار دیا۔
امت شاہ نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے لیکن ہر ہندوستانی شہری کو این آر سی عدالتوں کے سامنے دستاویزات پیش کرنا ہوں گے کہ وہ یا اس کے آباؤ اجداد 1951 سے قبل ہندوستانی شہری تھے اور ان کے دستاویزات کی جانچ پڑتال مذہب کی بنیاد پر کی جائے گی۔ اگر اس کے والدین ہندو، سکھ، بودھ یا جین ہو ہیں، تو وہ ہندوستان کی شہریت کا اہل قرار پائے گا، خواہ وہ پڑوسی مسلم ممالک مثلاً پاکستان، بنگلہ دیش (اس وقت کا مشرقی پاکستان) اور افغانستان سے ہی کیوں نہ آئے ہوں۔ لیکن اگر وہ مسلمان ہے اور اس حوالہ سے وہ دستاویزات پیش کرنے یا ثابت کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے کہ اس کے والدین یہاں پیدا ہوئے ہیں تو اس کی شہریت کے حقوق چھین لیے جائیں گے۔
یعنی کہ وہ بغیر اختیار والا شخص ہو جائے گا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہندوستانی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ اپنی شہریت کھونے کے کگار پر ہے اور اس طرح اسے دوسرے درجے کا شہری بننے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ یہ ہر طرح سے یہ ہندوستان میں دوسروں کے مقابلے میں ہندوؤں کی بھاری اکثریت کو برتری دینے کے مترادف ہے۔ باالفاظ دیگر یہ دوسروں پر ہندو برتری والا نریندر مودی اور موہن بھاگوت کا ’نیو انڈیا‘ یا ہندو راشٹر ہے۔
نریندر مودی مئی میں بھاری اکثریت سے جیت کر جب سے اقتدار میں آئے تھے تبھی سے بی جے پی اس پر کام کر رہی ہے۔ اب بی جے پی کو ہندوتوا پر مبنی اپنے بنیادی ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لئے اپنے اتحادیوں پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ راجیہ سبھا میں بی جے پی اکثریت میں نہیں ہے لیکن امت شاہ نے وہاں بھی اکثریت حاصل کرنے کا راستہ تلاش کر لیا ہے۔ خود کو بی جے پی کا ’چانکیہ‘ کہلوانا پسند کرنے والے شاہ یہ جان گئے ہیں کہ راجیہ سبھا میں ان کی حمایت کرنے یا ووٹنگ کے وقت غیر حاضر رہنے کے لئے مختلف پارٹیوں کے ممبران پر کن حربوں کا استعمال کر کے دباؤ بنایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹانے جیسے بل کے وقت بھی ایسا ہی کیا تھا۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اس کا انجام یہ ہوٓ کہ یکساں سول کوڈ کو چھوڑ کر بی جے پی نے اپنی دوسری مدت کار کے پہلے چھ ماہ میں تین طلاق سے آزادی حاصل کر لی ہے، دفعہ 370 ہٹا دی، مسلمانوں کو این آر سی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘ میں تبدیل کر دیا۔
لیکن بی جے پی ایسے معاملات پر اتنی جلد بازی کیوں کررہی ہے جو ہندوستان کو تقسیم جیسی صورتحال کی طرف گامزن کر رہے ہیں۔ سی پی آئی (ایم) کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے درست ہی کہا ہے، ’’چونکہ بی جے پی تفرقہ انگیز سیاست سے فروغ پاتی ہے‘‘ اور یچوری غلط بھی نہیں ہیں۔ اگر آپ نریندر مودی کے سیاسی گراف کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مودی کا سیاسی عروج تقسیم کی سیاست سے ہوا ہے۔ مودی نے 2002 کے گجرات فسادات میں گجراتی مسلمانوں کو ہندوؤں کا دشمن بنا کر نیست و نابود کر دیا، اس طرح وہ اپنے کو ہندو ہردے سمراٹ کہلانا پسند کرنے لگے اور تین مرتبہ گجرات انتخابات میں جیت بھی حاصل کرلی۔ پھر مودی نے 2014 میں قومی سیاست میں قدم رکھا اور خود کو ایک ایسے لیڈر کے طور پر پیش کیا جو ’مسلمانوں کو ٹھیک کر دینے‘ کے علاوہ فوری ترقی بھی کرسکتا ہے۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کی واپسی بھی دوسری بار اس حقیقت کی وجہ سے ہوئی کہ انہوں نے مسلم پاکستان کو بالاکوٹ کے ذریعے ’درست‘ کر دیا۔
اب مودی اور بی جے پی دونوں ہی تیسری مدت چاہتے ہیں۔ دونوں کو ایک نئے تقسیم کرنے والے ایجنڈے کی ضرورت ہے جو انہیں اقتدار میں واپس لا سکیں۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین کر انہوں نے مسلم کشمیر کو ’فتح‘ کر لیا، مسلم پرسنل لاء کے ذریعہ ملے تین طلاق کے حق کو چھین لیا اور ہندوستانی مسلمانوں کو کیب کے ذریعہ تقریباً کچل دیا۔
یہ سب بی جے پی کے لئے اچھا ہے لیکن سیاسی طور پرکیب بہتر نہیں ہے۔ یہ نا تو قومی مفاد میں ہے اور نا ہی بی جے پی کے مفاد میں۔ پہلا حادثہ نریندر مودی کے ساتھ ہونے کا امکان ہے، جن کے سائے تلے امت شاہ ہندو ہردے سمراٹ کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ تین طلاق بل ہو یا آرٹیکل 370 کو حذف کرنے کا بل ہو یا موجودہ کیب ہو، امت شاہ نے نہ صرف ان قوانین کو متعارف کرایا بلکہ ان تمام نام نہاد اصلاحی قوانین کی وجہ سے بی جے پی کے بھکتوں میں بھی ان کی کافی تعریف ہوئی۔ ایک ہندو قائد کی حیثیت سے امت شاہ کے پاس اب نریندر مودی سے زیادہ اسناد ہیں۔ شاہ ہندوستان کو ہندو قوم بنانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ کون جانتا ہے کہ اگلے مرحلے میں شاہ خود کو مودی سے بہتر ہندو قائد کی حیثیت سے تیار کر رہے ہوں۔ ایک سینئر صحافی جو کئی دہائیوں سے بی جے پی کو کور کر رہے ہیں، ان کا بھی یہ کہنا ہے کہ ’’شاہ مودی کے لئے یقینا ایک خطرہ بن چکے ہیں۔‘‘
کیب نے بی جے پی مخالف حزب اختلاف کو یکجا کر دیا ہے۔ سونیا گاندھی سے لے کر شرد پوار، ممتا بنرجی، سیتارام یچوری تک، اپوزیشن کے تمام بڑے لیڈر نہ صرف کیب کی مخالفت کر رہے ہیں بلکہ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ وقت اپوزیشن کے ساتھ مل کر چلنے کا وقت ہے۔ شرد پوار نے یہ بھی کہا ہے کہ، ’’میں بی جے پی کے خلاف بننے والے کسی بھی محاذ میں شامل ہونے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ اب یہ کیب بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کو مشترکہ محاذ بنانے کے لئے موقع فراہم کرے گا۔
دوسری بات، پارلیمنٹ میں کیب کی حمایت کرنے والی علاقائی اور بی جے پی کی اتحادی جماعتیں نئے شہریت قانون سے بے چین ہیں۔ لوک سبھا میں اس بل کی حمایت کرنے کے اگلے ہی دن جنتا دل (یونائٹیڈ) میں اختلاف رائے کی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں۔ اکالی دل کے اندر دباؤ ہے کہ وہ بی جے پی سے الگ ہو جائیں۔ تلنگانہ راشٹر سمیتی (ٹی آر ایس) کے رہنما اور وزیر اعلی کے چندر شیکھر راؤ، جنہوں نے آرٹیکل 370 کو ہٹانے اور بہت سے دوسرے امور پر پارلیمنٹ کے اندر بی جے پی کی حمایت کی، انہوں نے کیب کے معاملے پر خود کو بی جے پی سے دور کر لیا۔ لہذا خواہ ابھی یہ نظر نہیں آ رہا ہو لیکن آنے والے دنوں میں بی جے پی کے بہت سے حلیف اپنی الگ راہ اختیار کر سکتے ہیں۔
تقریباً پورا مشرقی ہندوستان اور شمال مشرق کیب کے خلاف آواز بلند کیے ہوئے ہے۔ ممتا نے نئے شہریت قوانین کے خلاف مستقل جدوجہد کا اعلان کیا ہے اور اسی وجہ سے ضمنی انتخابات میں ان کی پارٹی ترنمول کانگریس نے بنگال میں کامیابی حاصل کی ہے۔ آسام اور شمال مشرقی ریاستوں کے لوگ اس قانون کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ بی جے پی کی اتحادی آسام گن پریشد تقسیم ہوگئی ہے، جبکہ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن ’آسو‘ اس قانون کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ قومی سطح پر یہ قانون مذہبی بنیادوں پر ملک کو تقسیم کرنے کے بیج بو رہا ہے، شمال مشرق، جنوبی علاقوں کی جماعتوں اور وہاں کے لوگوں کو ایسی قانون سازی پر شدید اعتراض ہے، جو مرکزیت کو ریاستوں سے زیادہ شہریت جیسے حساس معاملات پر ترجیح دیتی ہے۔ تریپورہ کے ایک رکن پارلیمنٹ نے یہاں تک کہا، ’’بی جے پی کو ابھی تک سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اس نے قومی اتحاد کو کس طرح خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ اسے جلد ہی اس مسئلے پر شمال مشرق سے جوجھنا ہوگا۔‘‘
امت شاہ نے بھلے ہی پارلیمنٹ سے نیا شہریت قانون پاس کرا کر یونین آف انڈیا کو ایک ہندو راشٹر کے خواب کے قریب لا دیا ہو، لیکن مودی-شاہ کی ٹیم نے ایک ایسی آگ کو ہوا دے دی ہے، جس سے لگ بھگ 20 کروڑ مسلمان حاشیہ پر چلے گئے ہیں اور اسی کے ساتھ ہی قومی اتحاد میں بھی دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ اب قومی سیاست کس سمت میں جائے گی اس کا تصور ہر کوئی کر سکتا ہے۔ کیب نے ہندوستان کو ایک ایسی خطرناک سیاسی گفتگو میں ڈال دیا ہے جہاں سے اسے واپس لانا بہت مشکل ہوگا۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں