میں میری امی سے ملنا چاہتی ہوں‘میرے امی کب آئیں گی۔؟ محمدامین نواز‘بیدر کرناٹک گذشتہ ماہ 21/جنوری کو شاہین پرائمری اسکول بیدر میں طلباء کی جانب سے ایک ڈرامہ جو این آر سی سی اے اے اور این پی آرکے خلاف تھا‘ کردار ادا کرتے ہوئے مکالمہ کے ذریعے پیش کیا گیاتھا۔جس میں کم عمر […]
شاہین پرائمری اسکول بیدرکی طالبہ کی درد بھری فریاد
میں میری امی سے ملنا چاہتی ہوں‘میرے امی کب آئیں گی۔؟
محمدامین نواز‘بیدر کرناٹک گذشتہ ماہ 21/جنوری کو شاہین پرائمری اسکول بیدر میں طلباء کی جانب سے ایک ڈرامہ جو این آر سی سی اے اے اور این پی آرکے خلاف تھا‘ کردار ادا کرتے ہوئے مکالمہ کے ذریعے پیش کیا گیاتھا۔جس میں کم عمر معصوم طلباء نے ماں‘بیٹی‘بیٹا اور پڑوسی کا کردار ادا کرتے ہوئے این آر سی‘سی اے اے اور این پی آر سے متعلق عوام میں جو باتیں گشت کررہی ہیں‘اُن باتو ں کو ڈرامہ کے ذریعے پیش کیا تھا۔طلباء نے ایک منظر میں کہا تھا کہ اگر کوئی کاغذات پوچھے گا تو ہم کاغذات نہیں دکھائیں گے۔ایک مقامی ہندو تنظیم کے ذمہ دار نے اس ضمن میں فوری پولیس میں شکایت درج کرائی کہ وہ فیس بُک پر اس ڈرامہ کا مشاہدہ کیا ہے جس میں طلباء نے نریندر مودی پر ایک جملہ کہکر ان کی شبیہ کو خراب کیا ہے۔اس شکایت پر نیو ٹاؤن پولیس اسٹیشن کے پولیس افسران نے 26/جنوری کو شاہین پرائمری اسکول انتظامیہ‘ صدر معلمہ اور ایک طالبہ کی والدہ جو کہ بیوہ ہیں اور فیس بُک پرویڈیو اپلوڈ کرنے والے ایک مقامی صحافی پر دیگر معاملات کے ساتھ ملک سے غداری کا معاملہ درج کردیا۔اس ضمن میں پولیس نے شاہین پرائمری اسکول کے صدر معلمہ محترمہ فریدہ بیگم اور طالبہ کی والدہ نجم النساء کو گرفتار کرکے جیل میں محروس کردیا۔بتایا جاتا ہے کہ صدر معلمہ کی طبعیت ناساز رہتی ہے اور طالبہ کی والدہ بیوہ ہیں اور اپنی بیٹی کو مکان مالک کے پاس چھوڑ دیا ہے۔مکان مالک اس لڑکی کی دیکھ بھال کررہے ہیں۔معصوم کم عمر طالبہ درد بھرے انداز میں کہہ رہی ہے کہ ”میری امی کب آئیں گی؟۔“ڈرامہ پیش کرنے والے طلباء سے بیدر پولیس کی جانب سے بارہا پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔جبکہ یہ قانون کی رو سے غلط ہے کہ کم عمر طلباء سے پولیس یونیفارم میں رہ کر پوچھ تاچھ کرے۔بچوں میں خوف پیدا ہوتا ہے۔پولیس کی اس طرح سے بچوں کو ہراسانی سے بچے ذہنی طورپر پریشان ہیں۔پولیس کی جانب سے اس طرح کی کارروائی کی اطلاع ملتے ہی سب سے پہلے حیدرآباد کے معزز رکن پارلیمنٹ جناب اسد الدین اویسی صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین نے دہلی سے بجٹ سیشن چھوڑ کر بیدر کا دورہ کرتے ہوئے جیل پہنچ کر دونوں مظلوم خواتین سے ملاقات کی‘جناب اسد الدین اویسی نے بتایا کہ وہ جب ان سے ملاقات کئے تو دیکھا کہ ان دونوں خواتین کے چہرے پر خوف و پریشانی کا عالم تھا‘فریدہ بیگم صدر معلمہ بیمار ہونے کے باعث طبی امداد کے طورپر انھیں گلوکوز دیا جارہا تھا اور طالبہ کی والدہ جو بیوہ ہیں اور اپنی بیٹی کو مکان مالک کے پاس چھوڑ کر آئی ہیں انتہائی پریشان تھیں اور اس بیوہ خاتون نے اسد الدین اویسی سے درد بھری آواز میں کہا کہ مجھے جلد سے جلد رہاکروائیں۔جناب اسد الدین اویسی نے ان دونوں مظلوم خواتین کی ہمت بندھائی اور تیقن دیا کہ ہم مظلوموں کی مدد کیلئے ہمیشہ تیار ہیں۔مجھے جیسے ہی اطلاع ملی کہ دو مظلوم خواتین جیل میں محروس ہیں میں نے دہلی سے سیدھے بیدر پہنچا۔اسد الدین اویسی نے دونوں مظلوم خواتین سے کہا کہ اللہ مسبب الاسباب ہے۔مجھ سے جو بھی مدد ہوگی میں کررہا ہوں۔اسد الدین اویسی نے جیل سے باہر آکر جیل محروس خواتین کے رشتہ داروں سے ملاقات کی اور ہمدردی کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ہمت بندھائی۔ شاہین ادارہ جات کے چیرمن کے بھائی جناب عبدالمنان سیٹھ سے ملاقات کی اور اس معاملہ میں اب تک کیا قانونی چارہ جوئی کی گئی اس کی تفصیل حاصل کی۔اور عبدالمنان سیٹھ سے کہا کہ ان دونوں خواتین کو فوری رہا کرانے کیلئے کوشش کی جائے۔اور یہاں کے مقامی مجلسی قائدین کو ہدایت دی کہ وہ جیل میں محروس خواتین کے رشتہ داروں سے ملاقات کرتے رہیں اور ان کی ہر طرح ہمدردی سے مدد کرتے رہیں۔جناب اسد الدین اویسی نے ایس پی آفیس بیدر پہنچ کرایس پی بیدر سے ملاقات کی اور ایس پی بیدر سے کہا کہ کم عمر معصوم طلباء نے این آر سی‘سی اے اے اور این پی آر کے خلاف ایک ڈرامہ میں کردار ادا رکرتے ہوئے مکالمہ کے ذریعے ایک پیغام پیش کیا۔یہ ملک جمہوری ملک ہے جہاں اِظہار خیال کی آزادی سب کوہے۔ڈرامہ میں بچوں نے ملک کے خلاف کوئی بات نہیں کہی۔نہ ہی ملک دشمن کردار ادا کیا۔ایک فرد کی جانب سے مودی کی شبیہ بگاڑنے کی شکایت پر پولیس کی جانب سے فوری طورپر ملک سے غداری کا سنگین معاملہ درج کیا جانا قانون کا غلط استعمال ہے۔کم عمر معصوم طلباء نے این آر سی کے خلاف ایک ڈرامہ پیش کیا ہے۔کیا معصوم بچوں کو اپنے اسکول میں ڈرامہ نہیں کرنا چاہئے۔بچوں نے جو مکالمہ پیش کئے ہیں وہ آج کے ماحول میں عوام میں جو این آر سی‘سی اے اے اور این پی آر کو لے کر جو تشویش پائی جارہی ہے اس کو بچوں نے ڈرامہ میں کردار ادا کرتے ہوئے ایک منظر کیلئے ذریعہ مکالمہ ادا کئے ہیں۔اس میں ملک سے غداری جیسے والی بات دور دور تک بھی نظر نہیں آتی۔حکومت کے دباؤ میں آ کر پولیس کی جانب سے اس طرح جانبدرانہ رول ادا کرکے ایک سیکولر تعلیمی ادارہ جہاں ہندو مسلم و دیگر طبقات کے طلباء حصول تعلیم میں منہمک ہیں اور ا س تعلیمی ادارہ نے جو تعلیمی انقلاب یہاں پیدا کیا ہے اس کی تعلیمی خدمات‘ سماجی خدمات‘فلاحی خدمات کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے۔اس ادارہ میں قومی یکجہتی کی منفرد مثال ہے۔پولیس کو چاہئے کہ وہ فوری طورپر اس تعلیمی ادارہ کے انتظامیہ‘ صدر معلمہ‘طالبہ کی والدہ اور مقامی صحافی پر لگائے گئے سنگین معاملات کو واپس لئے جائیں۔ ایک عام ہندوستانی فلم میں جوحب الوطنی پر مبنی ہوتی ہے۔اس میں ہیرو کو حب الوطنی یعنی وطن سے بے انتہا محبت کا کردار دیا جاتا ہے۔ایک اور کردار جس میں ویلن کو دیش سے غداری کا کردار ادا کیا جاتا ہے۔ایسی کئی فلمیں ہمارے ملک میں ناظرین نے دیکھی ہیں۔پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی فلم میں دیش سے غداری کے کردار نبھانے والے ادکار کے خلاف غداری کا معاملہ درج کیا جاتا ہے۔؟جبکہ بچوں نے اپنے ڈرامہ میں ملک سے غداری جیسا کوئی کردار یا مکالمہ پیش نہیں کیا ہے۔اور ڈرامہ پیش کرنے والے پرائمری اسکول کے کم عمر معصوم طلباء ہیں جن کی عمر 7سے9سال کی عمر ہے۔پولیس کی جانب سے اس معاملہ کو بہت بڑا مسئلہ بنادیا۔پولیس کی اس بے جا حرکت پر ہر طرف سے تنقید یں ہورہی ہیں۔اور ہر طرف سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا نریندر مودی پر تنقید کرناوطن سے غداری قرار دیا جاسکتا ہے؟اگر کوئی کسی لیڈر کے خلاف کوئی بات کہہ دے تو اسے کسی بھی زاویہ سے غداری قرار نہیں دیا جاسکتا‘لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ اب تنقید غداری کے دائرہ میں آرہی ہے۔اس ملک میں کوئی فرد اگر حکومت یا بی جے پی لیڈروں پر تنقید کررہے ہیں انھیں مُخالف ہند قرار دیا جارہا ہے۔بے قصور و مظلوم افردا پر اس طرح کا خوف کا ماحول پیدا کرنا بی جے پی اور ا سکی ذیلی تنظیموں کا شیوہ بن گیا ہے۔شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تقریبا دیڑھ ماہ سے زائد عرصہ سے ملک بھر میں احتجاج جاری ہیں جہاں مُظاہرے ہورہے ہیں جلسہ ہورہے ہیں‘تقاریر ہورہی ہیں‘اس ضمن میں ناٹک ہورہے ہیں‘میلوں انسانی زنجیریں بنائی جارہی ہیں۔ملک کے کچھ حصوں میں خواتین غیر معینہ مدت کااحتجاج کررہی ہیں۔اس ملک میں ہر فرد کو اظہار خیال کی آزادی ہے۔یہ اس کا جمہوری حق ہے۔
اس سلسلہ میں کرناٹک کے چائلڈرائٹس کمیشن نے بیدر کادورہ کرتے ہوئے 9سالہ بچی کی بیوہ‘والدہ کی سی اے اے کے خلاف ڈرامہ پیش کرنے کے سبب ملک سے غداری کے معاملہ میں انکوائری اور گرفتاری کے معاملہ کے بعد ایک مضبوط مؤقف اپنایا ہے۔کمیشن نے ضلعی پولیس پر متعدد قواعد اورJuvenile Justice Act.کے خلاف کارروائی کاالزام لگایا ہے۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ معصوم کم عمر پرائمری اسکول کے طلباء این آر سی‘سی اے اے اور این پی آر کے خلاف میں ڈرامہ پیش کرتے ہیں تو اس کو لے کر سنگین معاملہ درج کیا جاتا ہے۔جبکہ کرناٹک کے ہی دکشن کنڑا ضلع کے بنٹوال میں آر ایس ایس لیڈر کلادکاپربھاکر بھٹ کے سری رام ودیا کیندر ہائی اسکول میں 300طلباء بابری مسجد کا ٹیبلو بناکر ا سکو ڈھانے کا ڈرامہ کرتے ہیں اور اس پروگرام میں مہمانانِ خصوصی کی حیثیت سے مرکزی وزیر سدانند گوڑا اور کرن بیدی گورنر پانڈیچری‘ ریاستی وزراء میں ایچ ناگیش‘اور ششی کلا جولے موجود رہتی ہیں۔ان پر سنگین معاملات درج نہیں کئے جاتے‘صرف معمولی طورپر ایف آئی آر درج کیا جاتا ہے‘کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ریاست کرناٹک کے میں کچھ دن قبل منگلور ایر پورٹ پر ٹکٹ کاؤنٹر کے پاس ایک نوجوان ایک بیگ میں بم رکھا تھا اس تعلق سے ایک طرف پولیس نے یہ کہا کہ بم رکھنے والا نہ دہشت گرد ہے اور نہ ہی اس کا ارادہ دہشت گردی پھیلانے کا تھا‘اس پر وزیر داخلہ نے تو اس نوجوان کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہونے سرٹیفکیٹ ہی دے دیا۔پولیس اور وزیر داخلہ نے یہ بیانات دئے تھے کہ مجرم کو کسی طرح بچالیا جائے اس لئے کہ یہ مسلمان نہیں تھا۔اس ملک میں بی جے پی اور اس کی ذیلی تنظیموں کی جانب سے امن و امان کو مکدر کرنے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے۔شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں جمہوری طرز پر احتجاج کیا جاتا ہے تو ان پر گولیاں چلائی جاتی ہیں اور نعرے لگائے جاتے ہیں کہ گولی مارو غداروں کو۔جامعہ اور شاہین باغ میں جو گولیاں چلائی تھیں وہ ہندو تھے۔ پولیس اس کے تحفظ کیلئے دوڑ پڑی اور اسے بچانے تمام حربے تلاش کرلئے۔اور پولیس کی جانب سے کہہ دیا گیا کہ یہ کمسن ہے ہیں۔انکے خلاف کوئی الزام عائد نہیں ہوتا۔ کرناٹک کے بیدر شہر کے شاہین ادارہ جات کو جنوبی ہند وستان کی ریاستِ کرناٹک کے پسماندہ ضلع سے ایک تعلیمی انقلاب برپا کرنے کی منفرد شناخت رکھتا ہے جہاں سے اب تک بلا لحاظ مذہب و ملت بارہ سو زائد طلباء میڈیکل کیلئے مفت سرکاری نشست حاصل کرنے کے اہل ہوئے ہیں۔اور ہزاروں طلباء انجینئرنگ و دیگر پروفیشنل کورسس کے علاوہ آئی اے ایس اور آئی پی ایس کیلئے اہل ہوئے ہیں۔ملک کی مُختلف ریاستوں میں شاہین ادارہ جات کے 43مراکز ہیں۔جہاں پرائمری‘جماعت دہم‘ گیارہویں و بارہویں‘بی ایس سی برائے طالبات کے علاوہ حفظ القُرآن پلس‘ عالم پلس کورسس میں طلباء زیرِ تعلیم ہیں۔شاہین ادارہ جات کی تعلیمی خدمات پر گلبرگہ یونیورسٹی گلبرگہ نے ادارہ کے چیرمن جناب عبدالقدیر کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی ہے۔جبکہ کرناٹک ریاست کا پُر وقار ایوارڈ کرناٹک راجیہ اُتسؤ ایوارڈ بھی تعلیمی خدمات پر شاہین ادارہ جات کو دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ مُختلف تعلیمی‘ سماجی‘ اور فلاحی تنظیموں کی جانب سے شاہین ادارہ جات اور اس کے چیرمن ڈاکٹر عبدالقدیر کو اعزاز و ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔اقلیتی ادارہ کی اس تعلیمی ترقی کو برداشت نہ کرتے ہوئے شاہین ادارہ جات کے خلاف ایک معمولی سے ڈرامہ کو لے کر غداری کا سنگین معاملہ درج کرکے ادارہ کی ترقی میں رکاؤ ٹ ڈالنے‘ انتظامیہ پر ڈرامہ میں پیش کرنے والے طلباء کے سرپرست پر صدر معلمہ پر سنگین معاملات درج کرکے قانون کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ عدالت میں اس معاملہ کی سماعت کی تاریخ 11فروری دی گئی ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 10/ فروری2020
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں