نعیم الدین فیضی برکاتی مرکزی حکومت کے ذریعہ لائے گئے غیر آئینی شہریت ترمیمی قانون پھر اسے جبراً نافذ کیے جانے اورجامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ و طالبات پر پولیس اور حکومت کی جانب سے غیر جمہوری انداز میں ظلم و ستم کے پہاڑ تو ڑے جانے پر دہلی کے شاہین باغ میں […]
شاہین باغ مظاہرہ : پُر دم اگر تو،تو نہیں خطرہ افتاد
نعیم الدین فیضی برکاتی
مرکزی حکومت کے ذریعہ لائے گئے غیر آئینی شہریت ترمیمی قانون پھر اسے جبراً نافذ کیے جانے اورجامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ و طالبات پر پولیس اور حکومت کی جانب سے غیر جمہوری انداز میں ظلم و ستم کے پہاڑ تو ڑے جانے پر دہلی کے شاہین باغ میں خواتین نے ایک احتجاج شروع کیا تھا،جو لگاتار ایک مہینے سے چل رہا ہے۔پہلے یہ مظاہرہ چندباغیرت عورتوں نے شروع کیا تھا جو اب دھیرے دھیرے ایک ایسے سیلاب کی شکل میں تبدیل ہو چکا ہے جس کی پرعزم لہروں میں حکومت کے نفرت انگیز منصوبوں کو خاک میں ملا دینے کا حوصلہ موجود ہے۔ایک ماہ سے چلنے والے اس پرامن مظاہرے نے جہاں حکومت کی نیند اڑا رکھی ہے وہیں پر فرقہ پرست طاقتوں کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مظاہرے کی علامت بن چکے شاہین باغ کو روکنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔تعلیم اور ٹریفک کی بات کرکے وہاں سے احتجاج ختم کرنے کی بات کی جارہی ہے۔اس کے لیے دو بار کورٹ میں عرضی بھی داخل کی گئی مگر شاہین باغ کی مثالی خواتین کی حسن تدبیر اور پرامن کردار کی وجہ سے مخالفین کو منہ کی کھانی پڑی۔اب تو اس احجاجی قافلہ نے پورے ملک کے لوگوں کو جگا دیا ہے اور ان کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دی ہے کہ دوسرے شہروں کی خواتین کو بھی اس سے حوصلہ مل رہا ہے اور وہ اپنے شہروں میں شاہین باغ کی طرح احتجاجی طریقہ کار اختیار کرکے اس کڑاکے کی ٹھنڈ میں حکومت کے پسینے چھڑانے کا کام رہی ہیں۔
ہر شہر میں شاہین باغ کی ضرورت! اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو جتنا خوف اس وقت اپوزیشن سے نہیں ہے اس کے کہیں زیادہ شاہین باغ کی سوال کرنے والی خواتین سے ہے۔کیوں کہ ان کا اندازدیگر احتجاجات سے بالکل جداگانہ ہے۔اسی وجہ سے وہاں پر کوئی تشدد وقوع پزیر نہیں ہوا اور نہ ہی بد امنی کے حالات پیدا ہوئے۔ اور یہی چیز حکومت اور انتظامیہ کو سب سے زیادہ حیران کرنے والی ہے۔نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا میں بھی اس کی خوب کوریج ہورہی ہیں۔جس سے ہر طرف اس کالے قانون کے لانے پر حکومت کی تھو تھو ہو رہی ہے۔اس مظاہرے نے مختلف شہروں کے خواتین کے اندر روح پھونکنے اور ان کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کا کام کیا ہے جس سے کئی جگہوں پر خواتین کی طرف شاہین باغ کے طرز پراحتجاج کیا جارہا ہے۔لیکن مزید اس مظاہرہ کوکامیاب اور مؤثر بنانے کے لیے ہمیں اسی طریقہ کار کو اپنا کر ہر شہر میں شاہین باغ بنانے کی ضرورت ہے کہ اس وقت یہی سب سے بڑی ملکی ضرورت ہے اور سماجی خدمت بھی۔ شاہین باغ مظاہرہ کی سب بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کا نہ کو ئی قائد ہے اورنہ کوئی نیتا۔وہ خود ہی لیڈرشپ اور قیادت کے فرائض ادا کر رہی ہیں۔اسی وجہ سے ایک مہینے سے چلنے والے اس پر امن مظاہرے نے جہاں سیاسی کارندوں کو سیاسی کھچڑی پکانے کا کوئی موقع نہیں دیا وہیں پر لوگوں کو یہ باور بھی کرایا ہے کہ عورتیں بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔اگر وہ مورچہ سنبھالنے پر آجائیں تو ان کے اندر قائدانہ صلاحیت بھی موجود ہے اور رہنمائی کر نے کا گر بھی۔ان کے اندراس قدر حوصلہ بھرا ہواہے وہ پورے ملک کی آواز بن کراپنے نعروں اور تختیوں کی کتابت سے حکومت کے ایوانوں کو لرزہ بر اندام کر رہی ہیں۔ان کے یقین اور مستحکم ارادوں سے حکومت بھی خائف ہے۔ان کے پراعتماد باتوں کو سن کر یہ یقین ہونے لگا ہے کہ اگریہ ایسے ہی ڈٹی رہیں اور حکومت کے خلاف محاذآرائی کرتی رہیں تو کامیابی یقینی ہے۔ہاں!یہ بات ضرور ہے کہ اس کے لیے منصوبہ بند طریقے سے یونہی مسلسل جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔
شاہین باغ کی خواتین کے حوصلوں کو سلام! حالیہ ریکارڈ توڑ کڑاکے کی سردی بھی شاہین باغ میں مظاہرہ کرنے والی خواتین کے پایہ استقلال میں لغزش نہ دے سکی۔اپنے چھوٹے چھوٹے ننھے منھے بچوں کے ساتھ گھر بار چھوڑ کرمیدان عمل میں ڈٹی رہیں اور علم احتجاج بلند کرتی رہیں۔ان کا یہ مجاہدانہ عمل جہاں عورتوں کو کمزور سمجھنے والوں کے گال پر زوردار تماچہ ہے وہیں پورے ملک کے لیے ایک خاموش پیغام ہے کہ جب ملک کی اتحاد ویکجہتی،آئین ودستور کی بقا وعظمت اور جمہوریت پر فسطائیت کے نفرت بھرے بادل منڈلانے لگیں تو ہمیں تمام چیزوں سے بے پرواہ ہو کر میدان میں اتر کر اپنے حصے کی لڑائی لڑنے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔خواتین کے اسی جذبے سے سرشار ہوکر آج پورا ملک ان کی عظمتوں کو سلام پیش کر رہا ہے کہ وہ خواتین جوجلدی گھروں سے باہر نہیں نکلتی تھیں،جوپہلے کبھی کسی احتجاج میں شامل نہیں ہوئیں،وہ آج اس سخت سردی کے موسم میں اپنے لحافوں اور گرم گرم بستروں کو چھوڑ کر مسلسل ایک مہینے سے سب کی طرف سے سب کے بنیادی حقوق اور آئین کی تحفظ کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔
شاہین باغ آؤیا بیٹی بچاؤ کا نعرہ واپس لے جاؤ! تین طلاق کے نام پر مسلم عورتوں سے مودی حکومت کی ہمدردی سچی تھی یا محض ایک جملہ تھا؟عورتوں کو کمزور قرار دے کر ان کو انصاف دلانے والے وزیر اعظم شاہین باغ کو انصاف کب ملے گا؟ کیا آپ کو ان عورتوں کی تکلیف کا بالکل بھی احساس نہیں ہے جو مسلسل ایک مہینے سے صرف اس انتظار میں بیٹھی ہوئیں ہیں کہ حکومت کا کوئی نمائندہ آئے اور ان کی بات سن کر انہیں مطمئن کرنے کا کام کرے۔محترم وزیراعظم اور وزیرداخلہ صاحبان!آپ کے کارندے شہر شہر گاؤں گاؤں جاکر لوگوں کوحالیہ متنازعہ قانون کے بارے میں لوگوں کو بتا رہے ہیں۔ریلیاں کر رہے ہیں۔مگر کیا وجہ ہے کہ کہ حکومت اتنے طویل مدت سے چل رہے مظاہرے سے کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔پورے دنیا میں ہندوستان کی جگ ہسائی ہو رہی ہے۔کئی صوبوں کے وزیر اعلیٰ نے اس قانون کے عدم نفاذ کی یقین دہائی بھی کرائی ہے۔ملک کے باشندے اپنا کام کاج چھوڑ کرسڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ملک کی اقتصادی حالت بد تر ہوتی جارہی ہے۔ایسے میں آپ کی خاموشی مجرمانہ لگتی ہے۔کیا آپ کو نہیں معلوم کہ گھروں میں کام کاج کر نے والی خواتین آج سڑکوں پر کیوں ہیں؟کیا اس لیے کہ شاہین باغ کی عورتوں کا سیدھا سوال آپ کی سرکار سے ہے؟اگر بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کے نعرہ میں ذرہ برابر بھی سچائی ہے تو حکومت اس کے لیے مناسب اقدامات کرے ورنہ ملک کی بیٹیوں کو جھوٹی تسلی دے کر گمراہ کر نے کا کھیل بند کرے اور اپناجھوٹا نعرہ واپس لے جائے۔اگر واقعی آپ کو مسلم خواتین سے ہمدردی ہے اور مسلموں کے متعلق آپ کے من میں بھید بھاؤ نہیں ہے تو آپ کو خود آکر یا اپنے کسی نمائندہ کو بھیج کربات چیت کے ذریعہ ایک ایسا راستہ نکالنا چاہیے جس سے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس اور پھر سب کا وسواش‘کے نعرہ کے مطابق سب کا دل جیتنے کی کوشش کرنی چاہیے۔آخرمیں ایک بار پھر حکومت سے میری گزارش ہے کہ اگر حکومت نے ان بوڑھی روتی ہوئی ماؤں اور بہنوں کی پراعتمادباتوں پر دھیان نہیں دیا توضرور ان خواتین کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا اور حکومت کو منہ کی کھانی پڑے گی۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کامتفق ہونا ضروری نہیں۔ 18/ جنوری 2020 ادارہ فکروخبربھٹکل
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں