تحریر :جاوید اختر بھارتی شاہین باغ میں ہونے والا احتجاج لاجواب اور لامثال ہوگیا پورے ملک کی توجہ کا مرکز بن گیا سیاسی، سماجی، دینی تقاریر کا ایک حصہ بن گیا ملک کی عوام کے دل و دماغ میں چھا گیا اور کیوں نہ ہو ایسا شاہین باغ میں احتجاج کر رہی خواتین نے اپنے […]
شاہین باغ کا احتجاج بغاوت نہیں بلکہ ملک سے وفاداری کا ثبوت ہے !
تحریر :جاوید اختر بھارتی
شاہین باغ میں ہونے والا احتجاج لاجواب اور لامثال ہوگیا پورے ملک کی توجہ کا مرکز بن گیا سیاسی، سماجی، دینی تقاریر کا ایک حصہ بن گیا ملک کی عوام کے دل و دماغ میں چھا گیا اور کیوں نہ ہو ایسا شاہین باغ میں احتجاج کر رہی خواتین نے اپنے آپ کو حب الوطنی کے سانچے میں ڈھال رکھا ہے ذات برادری اور مذاہب کے بھید بھاؤ کو بالائے طاق رکھا ہے یعنی کسی کو بھی اپنے مذہبی طور طریقوں اور رسم و رواج کے مطابق عبادت کرنے سے روکا نہیں گیا ہے دہلی کے شاہین باغ اور جامعہ کے احتجاج میں نمازیں بھی ادا کی جارہی ہیں، پوجا پاٹ بھی کیا جارہا ہے بائیبل اور قرآن، گیتا اور رامائن بھی پڑھا جاچکا ہے گرونانک کا تذکرہ بھی کیا جاچکا ہے کیونکہ اس احتجاج میں ہر مذہب، ہر ذات، ہر مسلک کے لوگ شامل ہیں اور دستور ہند نے ملک میں مذہبی بنیادوں پر کوئی تفریق نہیں برتی ہے بلکہ سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہبی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیا ہے شاہین باغ کا احتجاج تاریخ ساز ہوگیا ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کا جم غفیر ہوگیا اور یہ منظر پچاس دن سے بھی تجاوز کرگیا موجودہ حکومت کو یہ گمان بھی نہیں رہا ہوگا کہ اتنا مضبوط اور اتنا زبردست احتجاج ہوگا اس احتجاج میں مختلف مراحل پیش آئے ہیں سب سے خاص بات یہ ہے کہ جمہوریت اور آئین کو بچانے کیلئے یہ احتجاج کیا جارہا ہے اور احتجاج کے دوران وہ تاریخ بھی آئی کہ جس تاریخ میں ملک کا آئین نافذ کیا گیا ہے یعنی 26 جنوری یوم جمہوریہ بھی آیا اور اسی جامعہ اور شاہین باغ میں شاندار طریقے سے پورے جوش و خروش اور تزک و احتشام کے ساتھ پرچم کشائی بھی ہوئی ترنگا لہرایا گیا اور سلامی دی گئی مجاہدین جنگ آزادی کو خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا انکی قربانیوں کا ذکر بھی کیا گیا وہاں ملک کا نقشہ بھی لگایا گیا قومی ترانہ بھی پڑھا گیا ملک کو مضبوط کرنے اور دستور ہند کو بچانے اور ملک میں بھائی چارے کے فروغ کیلئے عہد کیا گیا ملک کے آئین کو باوقار و عظیم الشان قرار دیا گیا اب اس کے باوجود بھی کوئی شاہین باغ کے احتجاج کو بغاوت سے تعبیر کرے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسے خود ملک کے آئین پر اعتماد نہیں ہے، اسے جمہوریت پر یقین نہیں ہے یاکہ اسے جمہوری نظام پسند نہیں ہے ہم تو مانتے ہیں کہ دنیا میں سب سے مضبوط جمہوریت ہندوستان ہے، سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان ہے اور جو اسے نہ مانے وہ فرقہ پرست ہے وہ گاندھی جی کے نظریات کا دشمن ہے ورنہ شاہین باغ کے احتجاج میں جشن جمہوریہ بھی منایا گیا مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، مولانا آزاد، اشفاق اللہ خان، بھگت سنگھ، سردار پٹیل کا فوٹو بھی لگایا گیا اور ساتھ ہی ساتھ ملک کا دستور (سمویدھان) بھی پڑھا گیا پھر کوئی کہے کہ شاہین باغ کے احتجاج سے بغاوت کی بو ارہی ہے تو اس کا مطلب کہ احتجاج کر رہے لوگوں نے جو یہ سب کیا وہ سب اس تعصب پسند کی نظر میں غلط ہے اور اگر غلط ہے تو پھر وہ خود ملک کا باغی ہے اپنی کالی کرتوت پر پردہ ڈالنے کیلئے شاہین باغ میں احتجاج کرنے والوں پر الزام لگا کر سستی شہرت حاصل کرنا چاہ رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاہین باغ کا احتجاج ظلم و ناانصافی اور تاناشاہی کے خلاف حق کی آواز ہے آئین کی بالادستی قائم رکھنے کا پیغام ہے اور حکومت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کا عزم ہے ملک و ملت کی فلاح و بقا کی تحریک ہے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا منظر ہے قومی اتحاد اور قومی یکجہتی کا فروغ ہے، یہی اصل سماجواد ہے یہی ملک سے وفاداری ہے اور یہی حب الوطنی ہے کہ جب بھی کوئی ملک کو توڑنے کی کوشش کرے یا ملک کی شبیہ کو بگاڑنے کی کوشش کرے تو فولاد بن کر سامنے کھڑے ہوجاؤ اور آج وہی ہوا ہے ملک کے حکمران پی ایم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے تاناشاہی کا راستہ اختیار کرلیا ملک کی اصل تصویر کو مسخ کرنے کی کوشش کی اور ملک کے دستور کے خلاف قوانین بنائے اور نافذ کرنے لگے مذہب کی بنیاد پر ملک کی عوام کے درمیان نفرت کی دیوار تعمیر کرنے لگے یعنی مذہبی بنیادوں پر شہریت قانون بنانے لگے تو اس اس ملک کے باشعور اور انصاف پسند لوگوں نے عزم مصمم کے ساتھ شیشہ پلائی دیوار اور چٹان بن کر کھڑے ہوگئے کہ ہم اپنے ملک کی خوبصورتی پر آنچ نہیں آنے دیں گے اور ساتھ ہی ملک کی خواتین نے بھی مورچہ تھام لیا اور ڈھال بن کر کھڑی ہوگئیں اور یہ اعلان کرنے لگیں کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں ہیں کل آزادی کی لڑائی میں حصہ لیا تھا اور آج آزادی کو بچانے کی لڑائی میں حصہ لیں گی اب کچھ ایسے لوگ جنہیں اپنے عہدے کے وقار کی بھی فکر نہیں ہے ایک طرف بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ بھی دیتے ہیں اور دوسری طرف آج انہیں بیٹیوں کے بارے میں نازیبا کلمات بھ ادا کررہے ہیں مگر شاہین باغ کے احتجاج میں اتنی سچائی ہے کہ اب دھیرے دھیرے پورا ملک شاہین باغ بنتا جا رہا ہے اب اس احتجاج کو توڑنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے، اس میں تفریق پیدا کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے ساتھ ہی ساتھ فرقہ پرست سماج دشمن عناصر اسلحوں کے ذریعے دہشت پھیلانے کی کوشش بھی کررہے ہیں لیکن احتجاج کر رہے لوگوں کی ہمت جرأت حوصلوں کو سلام اور حوا کی بیٹیوں کو ہزاروں سلام جو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اصل مقاصد کی راہ پر گامزن ہیں شرپسندوں کی یہ پوری کوشش ہے کہ احتجاجی کسی طرح مشتعل ہوجائیں اور احتجاج فسادات کی سازش کا شکار ہو جائے لیکن اب تک وہ ناکام ہیں جامعہ کے علاقے میں گولی چلائی گئی ایک طلبہ زخمی بھی ہوا لیکن صبر کا دامن تھامے رکھا، شاہین باغ میں فائرنگ ہوئی لیکن خواتین نے بھی صبر کا دامن تھامے رکھا اگر حکومت جھکنے کو تیار نہیں ہے تو مظاہرین و احتجاجی بھی ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں ایسی صورت میں حکمرانوں کو غور کرنا چاہیے کہ ہمارا ملک بادشاہت کے نظام کو غلط مانتا ہے ڈکٹیٹر شپ کی بھی مخالفت کرتا ہے، شخصی نظام کو بھی برا مانتا ہے ہمارا ملک اپنی عوام کو سپریم ہونے کا درجہ دے رکھا ہے یعنی حکومت کے فیصلوں کے خلاف اگر عوام احتجاج و مظاہرہ کرنے لگے تو اس کے لئے شامیانہ، اوڑھنے بچھونے کا انتظام کیا جائے مگر کتنے شرم کی بات ہے کہ آج مظاہرین کے کمبل بستر ضبط کرلئے جاتے ہیں اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ آج ہمارے ملک کے حکمراں مغرور ہوگئے ہیں حکومت و منصب کے نشے میں چور ہوگئے ہیں اسی لئے جمہوریت ہوتے ہوئے بھی احتجاج کر رہے لوگوں کی بات اور آواز سننے کے بجائے اسے دبانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن احتجاج کر رہے لوگوں کے اندر کوئی گھبراہٹ نہیں ہے کیونکہ ان کا صاف کہنا ہے کہ حکومت نے شہریت سے متعلق جو متنازعہ قانون بنایا ہے اس کے نفاذ کے بعد پریشانی ہی پریشانی ہوگی لوگوں کا جینا مشکل ہو جائے گا اس لئے ہم سارے مذہب کے ماننے والے سب مل کر احتجاج کر رہے ہیں اور ایک دن حکومت کو گھٹنا ٹیکنے پر مجبور کر دینگے اس دوران ایک ننھی کلی جو اپنی ماں کے ساتھ ملک کے آئین وجمہوریت بچانے کی تحریک میں شامل تھی وہ سردی کے موسم میں اللہ کو پیاری ہوگئی شاہین باغ کے احتجاج میں یہ ایک عظیم قربانی ہے اسی وجہ سے آج ہر انصاف پسند انسان شاہین باغ کی خواتین کے ساتھ نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شاہین باغ کا احتجاج بغاوت نہیں بلکہ ملک اور دستورِ ملک سے وفاداری کا ثبوت ہے –
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 04/ فروری2020
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں