ظفر آغا
آخر مٹھی بھر شاہین باغ کی عورتوں میں کیا بات ہے کہ ان سے مودی حکومت سے لے کر ہندوستان کے سپریم کورٹ تک سب ہلے ہوئے ہیں۔ دسمبر سے کوئی پانچ سو سے ہزار عورتیں ہوں گی جو دہلی کی شاہین باغ شاہراہ پر دسمبر کی سخت جان ٹھنڈ سے لے کر اب تک کھلے آسمان کے نیچے شہری قانون اور این پی آر و این آر سی کے خلاف احتجاج پر بیٹھی ہیں۔ لیکن ان تھوڑی سی عورتوں کی بی جے پی اور اس کے سخت دل لیڈران نریندر مودی اور امت شاہ پر ایسی دہشت سوار ہے کہ سرکار کا پورا عملہ اس کوشش میں ہے کہ ان سے کسی طرح سے شاہین باغ شاہراہ خالی کروائی جائے۔ پہلے تو بی جے پی نے دہلی اسمبلی کا پورا چناؤ کا داؤ شاہین باغ کی بساط پر لگا دیا اور منھ کی کھائی۔ امت شاہ نے دہلی کے ووٹروں سے اپیل کی کہ وہ ای وی ایم کا بٹن چناؤ میں اس قدر زور سے دبائیں کہ شاہین باغ تک اس کا جھٹکا لگے۔ لیکن ان مٹھی بھر عورتوں کا اثر یہ ہوا کہ وہ تو پرامن طریقے سے شاہین باغ شاہراہ پر بیٹھی رہیں، مگر جھٹکا امت شاہ کو ایسا لگا کہ وہ اپنا سا منھ لیے بیٹھے رہے۔ الغرض شاہین باغ کے نام پر لڑنے والا دہلی کا چناؤ بی جے پی بری طرح ہار گئی۔ یعنی دہلی چناؤ میں کیجریوال کی نہیں بلکہ فتح شاہین باغ کی ہوئی۔
جب شاہین باغ نے بی جے پی کو چناؤ میں شکست دے دی تو پھر اب سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ ان مٹھی بھر شاہین باغ کی عورتوں کا اس قدر رتبہ ہے کہ ملک کی عدالت عالیہ نے ان کے پاس ایک وفد بھیجا کہ وہ ان کو سمجھائیں کہ وہ شاہین باغ شاہراہ خالی کر دیں۔ اس مضمون کے لکھے جانے تک شاہین باغ کی عورتوں کا عزم و استقلال برقرار تھا۔ وہ عوام کی پریشانیوں کے مدنظر شاہراہ کا ایک حصہ خالی کرنے کو تیار تھیں، لیکن اپنا احتجاج پوری طرح ختم کرنے کو راضی نہیں تھیں۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ وہ سخت ٹھنڈ میں دن و رات کھلی سڑک پر بیٹھی رہیں لیکن حکومت کی جانب سے کوئی بھی ان سے گفتگو کرنے نہیں آیا۔ وہ اس وقت تک شاہراہ پوری طرح نہیں خالی کریں گی جب تک کہ ان کو حکومت کی جانب سے ان کی مانگوں کے سلسلے میں کوئی یقین دہانی نہیں کروا دی جاتی۔
الغرض شاہین باغ کی مٹھی بھر عورتوں سے حکومت سے لے کر عدالت عالیہ تک سب ہلے ہوئے ہیں اور سب کی یہی کوشش ہے کہ وہ شاہین باغ شاہراہ خالی کر دیں۔ لیکن سب کو شاہین باغ سے یہ بے چینی کیوں! عذر تو یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ شاہراہ بند ہونے سے ٹریفک کو چلنے میں پریشانی ہے۔ لیکن جس حکومت کو ملک میں کروڑہا نوجوانوں کی بے روزگاری اور ملک کی معاشی بدحالی کی کوئی پرواہ نہ ہو وہ حکومت ایک شاہراہ پر ٹریفک کی پریشانی سے اس قدر حیران و پریشان ہو کہ وہ اس کے لیے سب کچھ داؤ پر لگانے کو تیار ہے۔ یہ بات حلق سے اترتی نہیں ہے۔ ضرور کوئی اور بات ہے جس نے شاہین باغ کو بی جے پی اور سپریم کورٹ کو پریشان کر رکھا ہے۔ جی ہاں، ضرور کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں جس کی پردہ داری ہے۔ لیکن وہ معشوق ہے کون کہ جس کی مودی سے لے کر پوری بی جے پی اس قدر پردہ داری کر رہی ہے! آخر کیا راز ہے کہ سب شاہین باغ شاہراہ خالی کروانے کو بے چین ہیں!
لیجیے وہ راز ہم سے سنیے: جناب شاہین باغ کی مٹھی بھر عورتوں نے نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں نریندر مودی سمیت پوری بی جے پی کا منھ ایسا کالا کر دیا ہے کہ اب دونوں دنیا میں کہیں منھ دکھانے لائق نہیں بچے۔ جی ہاں، شاہین باغ احتجاج سے ساری دنیا میں شور مچ گیا کہ بی جے پی شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کی آڑ میں سیکولر ہندوستان کو ہندو راشٹر میں بدلنے جا رہا ہے۔ ساری دنیا سمجھ گئی کہ این آر سی ہندوستانی مسلمان کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی ایک سازش ہے۔ شاہین باغ کی ان مٹھی بھر عورتوں کے احتجاج نے دنیا کے ضمیر کو ایسا جھٹکا دیا کہ محض ہندوستان ہی نہیں بلکہ سارے یورپ اور امریکہ میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف مظاہرے اور احتجاج کا ایک سیلاب آ گیا۔ ہندوستان کے شہر شہر اب سینکڑوں شاہین باغ بن چکے ہیں۔ ساری دنیا میں بی جے پی کے خلاف ایسی فضا بن گئی کہ یو این او کے چیف نے اس قانون کے خلاف اپنی تشویش کا اظہار کر دیا۔ اور تو اور، جن امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو مودی اپنا دوست کہتے نہیں تھکتے، انہی نے بھی یہ اعلان کر دیا کہ وہ اپنے ہندوستان دورہ کے دوران ہندوستان میں ’مذہبی آزادی‘ کا مسئلہ بات چیت کے دوران اٹھائیں گے۔ ٹرمپ کا یہ بیان بی جے پی کے منھ پر ایک تھپڑ نہیں تو اور کیا ہے۔ اور اس کامیابی کا سہرا اگر کسی کے سر جاتا ہے تو ان عورتوں کے سر جاتا ہے جو دسمبر-جنوری کی کڑاکے کی ٹھنڈ سے لے کر اب تک شاہین باغ اور شاہین باغ کی طرح ہندوستان کی درجنوں شاہراہوں اور پارکوں میں شہریت قانون و این آر سی کے خلاف احتجاج میں بیٹھی ہوئی ہیں۔
شاہین باغ محض ایک احتجاج نہیں ہے۔ شاہین باغ محض ہندوستانی مسلمان کے ضمیر کی آواز نہیں بلکہ یہ پورے ہندوستان کی روح کی آواز ہے۔ جی ہاں، تب ہی تو شاہین باغ میں محض پانچ سو اور ہزار عورتوں کا مجمع نہیں ہے بلکہ شاہین باغ میں سارے ہندوستان سے چل کر ہزاروں لوگ شرکت کرنے پہنچ رہے ہیں۔ بسوں میں بھر کر سکھ پنجاب سے آ رہے ہیں تو سارے ملک کا سیکولر ہندو وہاں موجود ہے۔ تو جناب سارے ملک سے آرٹسٹ اور انٹلکچوئل آ رہے ہیں۔ شاہین باغ تو ہندوستان کی گنگا-جمنی تہذیب کے تحفظ کی شاہراہ بن چکا ہے جہاں سے سارا ہندوستان اپنے ضمیر کی آواز بلند کر رہا ہے۔ اور اس آواز کی بازگشت ساری دنیا میں پھیل چکی ہے جس نے نریندر مودی سمیت ساری بی جے پی اور آر ایس ایس کے چھکے چھڑا دیئے ہیں اور اب ان کی یہ کوشش ہے کہ کسی طرح شاہین باغ ختم ہو، تاکہ ان کو سکون ملے۔ بس یہی سبب ہے کہ شاہین باغ کا احتجاج اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک کہ مودی حکومت شہریت قانون اور این آر سی معاملے میں پوری طرح گھٹنے نہیں ٹیک دیتی۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
22فروری2020
جواب دیں