معصوم مرادآبادی شاہین باغ، جنوبی دہلی کے اوکھلا علاقے میں ایک گنجان آبادی کا نام ہے۔کل تک اسے دہلی اور آس پاس کے شہروں میں رہنے والے ہی جانتے تھے، لیکن آج یہ علاقہ دنیا کے نقشے پر احتجاج کی علامت بن کر ایسے ہی ابھر آیا ہے جیسا کہ کسی زمانے میں قاہرہ کا […]
شاہین باغ، جنوبی دہلی کے اوکھلا علاقے میں ایک گنجان آبادی کا نام ہے۔کل تک اسے دہلی اور آس پاس کے شہروں میں رہنے والے ہی جانتے تھے، لیکن آج یہ علاقہ دنیا کے نقشے پر احتجاج کی علامت بن کر ایسے ہی ابھر آیا ہے جیسا کہ کسی زمانے میں قاہرہ کا ’تحریر اسکوائر‘ابھر آیا تھا۔ایسا لگتا ہے کہ احتجاج کی ہر شاہراہ شاہین باغ سے شروع ہوکر شاہین باغ پر ہی ختم ہوتی ہے۔جس وقت آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں توشہریت ترمیمی قانون اور مجوزہ این آرسی کے خلاف یہاں دھرنے پربیٹھے ہوئے لوگوں کو پورے ایک ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ان میں شیر خوار بچوں سے لے کر 80برس کی بوڑھی عورتیں تک شامل ہیں۔ اس دوران موسم نے بھی ان لوگوں پر ایسا ستم ڈھایا ہے کہ سردی کے سینکڑوں سال پرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔خون منجمد کردینے والی سردی کے باوجود ان کا خون سرد نہیں ہوا۔ ان کے جوش و جذبے کو دیکھ کرانداز ہ ہوتا ہے کہ لوگوں میں اس متعصبانہ قانون سازی کے خلاف کتنا غم وغصہ ہے۔یہ لوگ حکمراں جماعت اور پولیس کی دھمکیوں کو نظرانداز کرکے پوری ہمت اور جرأت کے ساتھ آج بھی وہیں ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہمارے عہد کے ایک معتبر شاعر کلیم عاجز نے بہت پہلے ان کی ترجمانی ان الفاظ میں کردی تھی ؎ موسم نے تو بدلے رنگ بہت، بازار ِجنوں برہم نہ ہوا زنجیروں کی یورش بڑھتی رہی،دیوانوں کا جمگھٹ کم نہ ہوا حکومت اور پولیس نے ان کے حوصلوں کو توڑنے کے لئے طرح طرح کی یورشیں کی ہیں، لیکن ان کو ہٹانے کے تمام حربے ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔جی ہاں، یہ شاہین باغ ہے جہاں احتجاج کی کیاریوں میں رنگ برنگے پھول کھلے ہیں۔ گذشتہ اتوار کی دوپہر کو جب یہاں کی فضا میں ایک ساتھ قرآن، بائبل،شبد کیرتن اورہون کی آوازیں گونج رہی تھیں تو ایک عجیب وغریب سماں تھا۔ہاتھوں میں ترنگا جھنڈا اٹھائے لوگ احتجاج کی اس شاہراہ پر جو منظر پیش کررہے تھے، اسے پوری طرح لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ کوئی ایک لاکھ لوگوں کا مجمع تھا اور اصل ہندوستان کی تصویر یہاں نظر آرہی تھی۔ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی فرقوں کے مذہبی پیشوا ایک ہی آسمان کے نیچے جمع ہوکر حکومت کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ ”ہم ایک ہیں“۔ یوں تو شہریت ترمیمی قانون اور مجوزہ این آر سی کے خلاف پورا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ ممبئی، حیدرآباد،بنگلور،کالی کٹ،کلکتہ، پٹنہ اور لکھنؤ کی ایسی کون سی شاہراہ ہے جو اس غیر انسانی قانون کے خلاف احتجاج کی گواہ نہیں بنی ہے۔ حیدرآباد میں پہلے ’ملین مارچ‘ پھر بے مثال ’ترنگا ریلی‘ میں امڈے عوامی سیلاب نے سارے ریکارڈ ہی توڑڈالے ہیں۔ ایسا عوامی احتجاج تو آزادی کے بعد ملک نے کبھی نہیں دیکھا۔ سب کے ہا تھوں میں ترنگے جھنڈے ہیں اور ان جھنڈوں کی اتنی مانگ ہے کہ ملک میں ترنگوں کی قلت پیداہوگئی ہے۔ یہ تمام احتجاج چند گھنٹوں یا ایک دن میں ختم ہوگئے‘لیکن ان سب میں شاہین باغ کے احتجاج کویہ برتری ضرورحاصل ہے کہ یہ لوگ ایک لمحے کے لئے بھی یہاں سے نہیں ہٹے ہیں اور تمام تر پریشانیوں کے باوجود مورچے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ حکومت کے کارندے بار بار اعلان کررہے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون شہریت دینے کے لئے بنایا گیا ہے،نہ کہ کسی کی شہریت لینے کے لئے۔ مگر حکومت کی اس دلیل کو ماننے والا کوئی نہیں ہے اور سبھی ایک آواز ہوکر کہہ رہے ہیں کہ یہ قانون ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے شہری حقوق چھیننے اور اسے دویم درجے کا شہری بنانے کے لئے بنایا گیا ہے۔وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ وہ”چن چن کر ایک ایک پاکستانی پناہ گزین کو ہندوستانی شہریت دیں گے۔“لیکن وہ اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ شہریت مذہب کی بنیاد پر کیوں دی جارہی ہے اور ایسا قانون کیوں بنایا گیاہے جس میں مسلمانوں کو الگ تھلگ کردیا گیاہے۔ پناہ گزینوں کو شہریت دینے کے قانون پوری دنیا میں موجود ہیں اور وہاں شہریت دینے کی بنیاد صرف انسانیت ہے۔ لیکن شہریت ترمیمی قانون پاس ہونے کے بعد دنیا کے نقشے پر ہم ایسے اکلوتا ملک بن گئے ہیں، جہاں مذہب کی بنیاد پر تفریق کو باضابطہ قانونی شکل دے دی گئی ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جس پر پورے ملک میں عوام سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہندوستان کے مستقبل کو سیکولر جمہوریت میں محفوظ سمجھتے ہیں اور جن کے نزدیک اس ملک کا مذہبی مملکت میں تبدیل ہوناسب سے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ قانون دراصل اس حکومت کے ایک تنگ نظر اور متعصبانہ ایجنڈے کا حصہ ہے جو ملک کوہندو راشٹر میں بدلنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اس احتجاج کو طاقت کے بل پر کچلنے کی کوشش کی اور جامعہ سے جے این یو تک ظلم وستم کے پہاڑ توڑے۔ اپنے اقتدار والی ریاستوں بالخصوص اترپردیش میں احتجاجی مظاہرین کے حوصلے پست کرنے کے لئے ان پر فائرنگ کی گئی اور ہزاروں لوگوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔صرف اترپردیش میں پولیس فائرنگ سے 20بے گناہ نوجوانوں کی موت ہوئی اور سینکڑوں کے ہاتھ پاؤں توڑ دیئے گئے۔ لیکن تمام تر جبر اور سفاکی کے باوجود لوگوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کا آغاز جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ہوا تھا‘ جہاں آج بھی طلبا اور طالبات دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔جامعہ میں پولیس نے جو وحشت مچائی تھی‘ اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی جامعہ انتظامیہ کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں اور اب جامعہ نے اس سلسلے میں عدالت سے رجوع ہونے کا فیصلہ لیا ہے۔ شا ہین باغ کے مظاہرین نے انڈیا گیٹ کا ایک ماڈل بنا یا ہے جس پر ان پچیس نوجوانو ں کے نام درج ہیں جنھوں نے آسام سے میسور تک شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج کے دوران شہادت پائی ہے۔ نئی دہلی کے شہرہ آفاق انڈیا گیٹ پر دوسری جنگ عظیم میں شہید ہونے والے سورماؤں کے نا م درج ہیں۔اگر غور سے دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ پچھلے ایک مہینے کے دوران شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف جو احتجاج ہواہے،اس نے حکومت کے ہاتھ پاؤں پھلادئیے ہیں اور حکمرانوں کے چہروں کی رنگت اڑگئی ہے لیکن وہ اب تک حاکمانہ غرور میں مبتلا ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی کلکتہ کی ریلی میں عوام کو سمجھانے کی کو شش کرتے ہیں اور اس قانون کے سلسلے میں پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کے لئے اپوزیشن کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ لیکن وہ عوام کو یہ نہیں بتاتے کہ اس قانون سے مسلمانوں کو کیوں باہر کیا گیاہے اور وہ این آر سی نافذ کرکے ملک کے عوام سے ہندوستانی ہونے کے ثبوت کیوں مانگ رہے ہیں۔ کیا یہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، کساد بازاری، بے روزگاری اور بدعنوانی سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ حکومت کا بنیادی کام عوام کو راحت پہنچانا اور ان کے مسائل کا ازالہ کرنا ہوتاہے لیکن یہ کیسی حکومت ہے جس کی کوکھ سے ہر روز نئے اور پریشان کن مسائل جنم لے رہے ہیں اور وہ اپنے ہی عوام کو آزمائش میں مبتلا کررہی ہے؟
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 16/ جنوری 2020 ادارہ فکروخبر بھٹکل
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں