شاہ صاحب! یہ پوچھنے کا نہیں بتانے کا وقت ہے… اعظم شہاب

:یکم نومبر2021(فکروخبر/ذرائع)کمال کے ہیں ہمارے وزیر داخلہ امت شاہ صاحب۔ اترپردیش میں جب وہ دوربین کا سہارا لیتے ہیں تو اپنے قریب یا یوں کہیں بغل میں بھی نہیں دیکھ پاتے۔ اب یہی دیکھئے نا کہ ہفتہ بھر قبل جب وہ کشمیر گئے تو انہیں وہاں کہیں کوئی سورش نظر نہیں آئی اور گھاٹی کے تمام نوجوان انہیں ترقی، تعلیم وروزگار کی بات کرتے نظر آئے۔ اس سے وہ اتنے خوش ہوئے کہ اعلان فرما دیا کہ کشمیر میںدہشت گردی کم ہو ئی ہے اور کشمیر کی شانتی اور وکاس کی یاترا میں کوئی خلل نہیں ڈال سکتا۔ جبکہ ان کے کشمیر دورے کے دوران بھی کئی مقامات پر مڈبھیڑ کا سلسلہ جاری تھا اور شانتی کچھ ایسی تھی کہ موصوف کو اپنے قافلے میں 30 سے 35 گاڑیوں کو شامل کرنا پڑا تھا۔ خیر 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35 اے کے ختم کرنے کے بعد یہ ان کا کشمیر کا پہلا دورہ تھا اور یہ بھی اس لئے تھا کہ اب وہاں انتخاب کرائے جانے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے پہلے اور تفصیلی دورے میں بھی وہ کشمیر کی اصل صورت حال دیکھنے سے قاصر رہے اور جو دیکھ سکے اس میں بھی ترقی، تعلیم و روزگار ہی تھا جو حالیہ دنوں کی سورشش کا اصل سبب بھی ہے۔

کشمیر سے نکل کر شاہ صاحب اتراکھنڈ پہنچے۔ چونکہ بڑے صاحب اور چھوٹے صاحب دونوں ہی صرف انتخاب ہی جیتے ہیں، انتخاب ہی برتتے ہیں اور انتخاب ہی اوڑھتے ہیں اس لئے کشمیر سے نکل کر شاہ صاحب کے اتراکھنڈ اور پھر اترپردیش پہنچنے پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ کشمیر کی تازہ اور فرحت بخش ہوا سے وہ کچھ ایسے مدہوش ہوئے کہ اتراکھنڈ پہنچنے پر ان کی یاد داشت ہی کمزور ہوگئی۔ وہاں پر انہوں نے جمعہ کی نماز کے حوالے سے کانگریس کی سابقہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا ڈالا کہ اس کے دور میں جمعہ کی نماز کے لئے چھٹی ہوتی تھی اور ہائی وے جام کرکے نماز ادا کی جاتی تھی۔ سڑکیں بند کرکے نماز کی اجازت دینے والے کبھی دیو بھومی کا کام نہیں کرسکتے۔ اسی کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے والی عورتوں کو انہوں نے ’گھسیاری‘ کہہ کر مخاطب کیا اور اسی نام سے انہوں نے ایک پروجیکٹ بھی شروع کیا۔ انہوں نے سمجھا جس طرح کشمیر میں ان کے کسی بیان پر کسی نے کوئی سوال نہیں کیا، اسی طرح یہاں پر بھی کوئی جرأت نہیں کرے گا۔ لیکن وہ کہاوت ہے نا کہ سیر کو سوا سیر، سو یہاں ہریش راوت نے شاہ صاحب کو جمعہ کی نماز کے لئے چھٹی کے جی آر دکھانے پر نہ صرف چیلنج کر دیا بلکہ ’گھسیاری‘ لفظ کے استعمال پر بھی انہیں تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔ اب شاہ صاحب اپنی خفت چھپانے کے لئے اترپردیش پہنچے لیکن یہاں بھی انہوں نے اپنی رسوائی کا خاطر خواہ سامان کرلیا۔

لکھنؤ پہنچنے پر یوگی جی کے ذریعے ان کا خوب زودار استقبال کیا گیا۔ شہر میں ہر سڑک اور ہر چوراہے پر بڑے بڑے استقبالیہ ہورڈنگ لگائے گئے جس پر شاہ صاحب کے ساتھ یوگی جی کی مسکراتی تصویر لگائی گئی۔ جب کہ شاہ صاحب کا یہ دورہ بی جے پی کے ایک لیڈر کی حیثیت سے ڈیفنس ایکسپو گراؤنڈ میں ایک پری الیکشن ریلی سے خطاب کے مقصد سے تھا، لیکن ان کے استقبال اور ریلی پر سرکاری پیسے پانی کی طرح بہائے گئے۔ خیر! جس پارٹی کی اخلاقیات میں کورونا کے نام پر شروع کئے گئے پی ایم کیئرفنڈ کا استعمال بھی ذاتی وجوہات کی بنیاد پر ہوسکتا ہے، اس کے یہاں انتخابی ریلی کے لیے سرکاری پیسے کا استعمال بھلا کیونکر معیوب ہوسکتا ہے؟ سو یوگی جی نے شاہ صاحب کی خوب خاطر و مدارت کی۔ لیکن اتراکھنڈ کی خفت کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شاہ صاحب سنبھل جاتے لیکن جب آدمی کی نگاہ میں ہر کوئی ہیچ ہوجائے تو اسے کسی بات کا ہوش کہاں رہ جاتا ہے، سو یہاں بھی انہوں نے اپنے مخالفین کو موقع فراہم کر دیا اور مخالفین نے شاہ صاحب کے ساتھ یوگی جی کے کارناموں کی گنتی بھی شروع کر دی۔

لکھنؤ میں خطاب کے دوران ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شاہ صاحب یوگی حکومت کی کچھ اچھائیوں کا تذکرہ کرتے لیکن چونکہ انہیں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی اس لئے انہوں نے اکھلیش یادو سے ہی سوال کرنا شروع کر دیا۔ اکھلیش کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’آپ لکھنؤ اور اترپردیش کے عوام کو اس کا جواب دیجئے کہ گزشتہ پانچ سال میں آپ بیرونِ ملک کتنے دن رہے، اترپردیش میں کورونا آیا، باڑھ آئی آپ کہاں تھے؟ اس کا حساب آپ دے دیجئے‘۔ اکھلیش یادو نے اس کا جواب تک دینا مناسب نہیں سمجھا، لیکن ان کی پارٹی کے ترجمان سنیل ساجن نے اس کا جواب دیا اور کچھ یوں دیا کہ ابھی تک بی جے پی کے خیمے میں سناٹا پسرا ہوا ہے۔ سنیل ساجن نے کہا کہ ’جن لوگوں کو اترپردیش میں خود جواب دینا چاہئے وہ جواب مانگ رہے ہیں۔ کیا امت شاہ جی بتائیں گے کہ مودی جی کتنے بار ودیش گئے؟ اترپردیش میں بی جے پی حکومت نے اپنا کون ساکام کیا؟ کورونا مہاماری میں جنہوں نے بے ایمانی کا مظاہرہ کیا ہو، سارے محکمے لوٹ لئے ہوں، وہ لوگ سوال کر رہے ہیں؟ تو جواب آپ کو دینا ہے اور آپ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اس لئے یوپی سے آپ کا صفایا ہونے جا رہا ہے‘۔

لیکن بات یہیں پر ختم ہوجاتی تو بھی غنیمت تھی لیکن شاہ صاحب نے دورانِ خطاب دوربین لگا کر ریاست میں باہوبلیوں کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ کہنے لگے ’ہرضلعے میں دو تین باہوبلی ہوتے تھے۔ دوربین لے کر میں ڈھونڈھتا ہوں کہیں پر باہوبلی دکھائی نہیں پڑتے ہیں۔ بچیاں گھر سے باہر نہیں نکلتی تھیں، میرٹھ میں یونیورسٹی ہونے کے باجود انہیں دہلی میں کرائے کے گھر لے کر اپنی پڑھائی کرنی پڑتی تھی۔ سلامتی نہیں تھی۔ آج کوئی بھی تہوار ہو چھٹھ کا ہو دیوالی کا ہو، 16 سال کی بچی گہنے لاد کر اسکوٹی پر رات کو بارہ بجے بھی یوپی کی سڑکوں پر نکل سکتی ہے۔ کوئی ڈر نہیں ہے‘۔ شاہ صاحب کی اس پھیکم پھاک کو سن کر لوگوں کو مجبوراً کہنا پڑا کہ اب بس بھی کرو موٹا بھائی۔ سوشل میڈیا پر شاہ صاحب کے اس بیان کی خوب پذیرائی شروع ہوگئی۔ جرنلسٹ پرگیہ مشرا نے تو یوپی حکومت کی کنڈلی ہی کھول ڈالی۔ انہوں نے ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ دومہی دوربین کے تحت لکھا ’جلتی لاشیں، بہتی لاشیں، ریت میں دبی لاشیں، ویٹنگ میں پڑی لاشیں، اسٹریچر پرپڑی لاشیں، ناکام سرکار، بے ترتیب انتظام، بنگال کے نتیجے اور کورونا میں ہمارے ذریعے جھوکے گئے انسان، اس دوربین سے ہر ضلعے میں 3-2 بیوائیں دکھتی ہیں‘۔

ریٹائرڈ آئی اے ایس سوریہ پرتاپ سنگھ نے امت شاہ اور لکھیم پور کھیری میں سماج وادی کی امیدوار کے ساتھ ہوئی بدسلوکی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’بغل کی پکچر کو دھیان سے دیکھئے گرہ منتری جی، یہ یوپی کی ہی ہے‘۔ کانگریس کی ترجمان ڈاکٹرراگنی نائک نے لکھا ’بغل میں ’ٹینی‘ کو کھڑا کرکے امت شاہ دوربین سے ’باہوبلی‘ ڈھونڈھ رہے تھے۔ اسے کہتے ہیں بغل چھورا نگر میں ڈھنڈورا۔ ویسے اپنے وقت میں خود گجرات کے اتنے بڑے ’باہوبلی‘ تھے کہ ’تڑی پار‘ کر دیئے گئے۔ اب اپنے آگے انہیں کوئی ’باہوبلی‘ کہاں نظر آئے گا؟‘مشہور جرنلسٹ رن وجے سنگھ نے لکھا کہ ’امت شاہ نے کہا یوپی میں پہلے ہر ضلعے میں 2-3 باہوبلی تھے، اب دوربین لے کر ڈھونڈھتا ہوں لیکن کوئی باہوبلی نہیں دکھتا۔ یہ بات سن کر منچ پر بیٹھے ٹینی (اجے کمار مشرا) جی مسکرا رہے تھے۔ واضح رہے کہ جس وقت امت شاہ یہ باتیں کہہ رہے تھے اسٹیج پر ان کے ساتھ اجے کمار مشرا موجود تھے جبکہ سماج وادی یواجن سبھا کے ریاستی صدر اروندگری نے بھی یہی باتیں کہیں۔

امت شاہ صاحب کو یہ باتیں کہتے ہوئے کم ازکم اس کے عواقب پر ہی غور کرلینا چاہئے تھا۔ لیکن وہ کہا جاتا ہے نا کہ جب اہنکار سرچڑھ جاتا ہے تو سامنے کی چیز بھی نظر نہیں آتی۔ اب انہیں یہ کون بتائے کہ جب مرکز میں ان کی حکومت ہے، یوپی میں ان کی حکومت ہے تو جواب دینا آپ کی ذمہ داری ہے ناکہ اکھلیش یادو کی۔ بیرونِ ملک کا باربار کون دورہ کرتا ہے یہ پورا ملک جانتا ہے۔ کورونا کے دور میں نہ صرف مرکزی حکومت بلکہ اترپردیش کی حکومت بھی مغربی بنگال میں ڈیرہ ڈالے ہوئی تھی۔ اور صرف یوپی ہی نہیں بلکہ ملک میں جہاں جہاں بھی بی جے پی کی حکومت ہے ان تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سمیت بی جے پی کے تمام بڑے لیڈران وکارکنان بنگال میں تھے۔ مارچ مہینے میں جب ٹرینیں عام لوگوں کے لئے بند تھیں، بی جے پی ٹرینیں بک کروا کر اور 66 لاکھ روپئے خرچ کرکے اپنے کارکنان کو دہلی یوپی وبہار سے بنگال لے جارہی تھی اور پھرکورونا کی پرساد دے کر ان سب کو واپس بھی پہنچایا گیا۔

شاہ صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ یوگی حکومت میں عورتیں اور بچیاں کتنی محفوظ ہیں؟ خود ان کی پارٹی کی نائب صدر بے بی رانی موریہ نے قلعی کھول دی تھی۔ بنارس جو پردھان سیوک کا حلقہ انتخاب ہے جہاں انہیں ماں گنگے نے بلایا تھا، وہاں کے بجرڈیہا علاقے میں والمیکی بستی میں بے بی رانی موریہ نے ایک پروگرام میں عورتوں اور بچیوں کو نصیحت دی تھی کہ شام 5 بجے کے بعد اندھیرا ہونے پر وہ کسی تھانے میں نہ جائیں۔ اگر ضرورت ہو تو دوسرے دن جائیں اور جاتے ہوئے اپنی بھائی، والد یا شوہر کو ساتھ لے جائیں۔ جبکہ شاہ صاحب دعویٰ کرتے ہیں کہ رات 12 بجے ایک سولہ سال کی لڑکی اسکوٹی اور وہ بھی گہنوں سے لدی پھدی جاتی ہے، اسے کوئی ڈر نہیں ہوتا اور یہ صرف یوپی کی سڑکوں پر ہوتا ہے۔ شاہ صاحب ہاتھرس بھی یوپی میں ہی ہے جہاں دسمبر 2020 میں اجتماعی عصمت دری کی شکار بچی کو مٹی کا تیل ڈال کر رات کے اندھیرے میں جلا دیا گیا تھا۔ شاہ صاحب! آپ تو پارلیمنٹ میں بھی کسی سے کچھ نہیں پوچھتے تو یوپی میں اپوزیشن سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟ یہ پوچھنے کا نہیں بتانے کا وقت ہے۔

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

منکی ایک اور قابل فخر شخصیت سے محروم

سمیر وانکھیڈے اور آرین کے علاوہ بھی دنیا میں بہت کچھ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے