شاہ اجمل فاروق ندوی
(نگراں شعبہئ اردو، انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی)
چند ماہ پہلے چین سے یہ خبر آئی کہ وہاں کے ایک شہر ووہان (Wuhan) سے کورونا (Covid19) نامی ایک وائرس پورے ملک میں پھیل رہا ہے. اس کی وجہ سے پورے ملک کے حالات تیزی سے نازک ہوتے چلے جا رہے ہیں. اُس وقت ہم لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جلد ہی یہ وائرس ہماری زندگیوں پر بھی بہت شدید انداز میں اثر انداز ہونے والا ہے. لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے کو کون جان سکتا ہے؟
دنیا رک گئی
آہستہ آہستہ یہ وائرس پوری دنیا میں پھیلتا چلا گیا. حتیٰ کہ دنیا کو پہلی مرتبہ وہ قدم اٹھانا پڑا، جو اس نے بڑی سے بڑی جنگوں اور آفتوں کے موقعے پر بھی نہیں اٹھایا تھا. سارا کام کاج بند، ہرطرح کی نقل و حرکت پر بندش اور مکمل لوک ڈاؤن (Lockdown). تمام مذاہب کی تمام عبادت گاہیں، کمپنیاں، سرکاری و غیر سرکاری دفاتر، تعلیم گاہیں، بازار اور زمینی، بحری و فضائی سرحدیں، غرض یہ کہ سب کچھ پوری طرح بند کر دیا گیا. حرمین شریفین سے لے کر ویٹکن تک، نیو یارک سے لے کر نیو دہلی تک اور آکسفورڈ اور کیمبرج سے لے کر دیوبند، ندوہ اور علی گڑھ و جامعہ ملیہ تک تمام مذہبی، سیاسی، تجارتی، تعلیمی مراکز چلتے پھرتے اچانک تھم گئے. سب کچھ بند ہونے کی وجہ سے منٹوں اور گھنٹوں میں کروڑوں اربوں کا نقصان ہونے لگا، لیکن یہ کڑوا گھونٹ پیے بغیر چارہ بھی نہیں تھا. شاید دنیا کو پہلی مرتبہ ''جان ہے تو جہان ہے'' کا اصل مطلب سمجھ میں آیا.
کورونا کی جانی تباہ کاری
بتایا جارہا ہے کہ کورونا وائرس جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کے ایک بازار سے نکلا ہے. اس بازار میں کتے، بلی، سور، گدھے، چمگادڑ، مینڈک، لال بیگ وغیرہ بہ طور خوراک بیچے جاتے ہیں. اس وائرس کے اندر بہت تیزی کے ساتھ پھیلنے کی طاقت ہے. دو سے چار، چار سے سولہ اور سولہ سے چونسٹھ. اس طرح چین سے آنے جانے والے کسی شخص سے ملنے جلنے والا کوئی ایک فرد بھی کسی ملک پہنچ گیا اور اسے روکا نہ جاسکا تو وہ اکیلا ہی پورے پورے ملک کا بیڑا غرق کرنے کے لیے کافی ہوگیا. برطانیہ، جرمنی، اٹلی، اسپین، ایران اور برازیل میں ہزاروں لوگ بہت تیزی سے لقمہ اجل بن گئے. موجودہ دنیا میں سپر پاور کہے جانے والے امریکا میں اس وائرس نے سب سے زیادہ تباہی مچائی. وہاں اس وبا کا شکار ہوکر مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچنے والی ہے. جب کہ پوری دنیا میں تقریباً سوا تین لاکھ لوگ اس بیماری کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جاچکے ہیں. ہمارے ملک ہندستان میں تین ہزار سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں. اتنی تباہی کے باوجود بھی کورونا پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے.
اس کے علاوہ ہندستانی حکومت کے بغیر سوچے سمجھے لوک ڈاؤن یا پوری دنیا میں لوک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہونے والی بھُک مری کی وجہ سے جو اموات ہو رہی ہیں یا ہونے والی ہیں، فی الحال اُن کی صحیح تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا. یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ جب یہ طوفان تھمے گا، تو کتنے انسانوں کو نگل چکا ہوگا.
پراسرار پہلو
بعض لوگ کورونا نامی کسی بیماری کے ہونے پر ہی سوال اٹھا رہے ہیں. لیکن چند کچی پکی دلیلوں کی وجہ سے کئی لاکھ انسانوں کی لاشوں کو نظرانداز کر دینا کسی طرح عقل مندی نہیں ہوسکتی. البتہ جب دھول بیٹھے گی تو اس بیماری کے اچانک نکلنے، پوری دنیا اور خاص کر سپرپاور امریکا اور اس کے دوست ممالک میں زیادہ تباہی مچانے اور پوری دنیا کے معاشی نظام کے بری طرح چرچرانے کے بہت سے پہلوؤں پر گفتگو ہوگی. اس وقت شاید واضح ہوسکے کہ یہ کیسا طوفان تھا؟ واقعی کوئی بیماری تھی، جو فطری طور پر پیدا ہوئی؟ کوئی غیر فطری بیماری تھی، جسے کسی کارگاہ (Lab) میں تیار کیا گیا؟ عالمی طاقتوں کو دی گئی ایک دھمکی تھی؟ کیمیائی ہتھیاروں (Chemical weapons) کا منظم تجربہ تھا؟ کیمیائی جنگوں (Chemical wars) کا نقطہئ آغاز تھا؟ سپرپاور کی منتقلی کا مرحلہ تھا؟ یا پوری دنیا کے میں بلاشرکت غیرے مٹھی بھر لوگوں کی حکومت کو قائم و دائم رکھنے کی ایک کوشش تھی؟
فساد فی الارض
اس بیماری کے پھیلنے کے جو اسباب بیان کیے جارہے ہیں اور اس کے جن ممکنہ مقاصد کا اندازہ لگایا جا رہا ہے، وہ چاہے کچھ بھی ہوں، اتنا طے ہے کہ ان میں سے ہر سبب اور ہر ممکنہ مقصد قرآن کریم کے مطابق فساد فی الارض (زمین میں فتنہ و فساد پھیلانے) کے زمرے میں آتا ہے. یہ سب اُسی فساد کا حصہ ہے، جس کی طرف فرشتوں نے تخلیقِ آدم کے وقت اشارہ کیا تھا. وہی فساد جو قومِ نوح، قومِ عاد اور قومِ ثمود نے پھیلایا تھا. وہی فساد جو قومِ شعیب، قومِ لوط اور بنی اسرائیل نے مچا رکھا تھا. وہی فساد جو فرعون، قارون، شداد، ہامان، جالوت، سامری، بخت نصر، قیصر، کسریٰ، ابوجہل، ابولہب، عتبہ، شیبہ اور عبداللہ بن ابی نے مختلف شکلوں میں برپا کر رکھا تھا. مختلف زمانوں میں اللہ کے نظام سے بغاوت کرکے دنیا میں فساد پھیلانے والے اِن تمام افراد و اقوام نے خود جو نقصان اٹھایا، وہ تو اٹھایا ہی، اِن کی خباثتوں اور فطرت سے ٹکرانے کا خمیازہ دنیا کو بھی شدید انداز میں بھگتنا پڑا. اسی لیے اللہ جل جلالہ نے قرآن کریم میں بار بار یہ اعلان فرمایا ہے: ”ولا تعثوا فی الأرض مفسدین“ (زمین میں فساد مت پھیلاتے پھرو). خود کو مہذب سمجھنے والی موجودہ دنیا بھی بہت تیزی کے ساتھ فساد فی الارض کے شیطانی مشن کو پورا کرنے میں لگی ہوئی ہے، فطرت سے بغاوت کا زبردست نقصان اٹھا رہی ہے، لیکن ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ہے.
اہلِ ایمان کا ''اصلاحی'' مشن
موجودہ حالات میں اہل ایمان کے کاندھوں پر بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے. اُن کا کام دن رات ''یہودی سازش''، ''امریکی سازش'' کے نعرے لگانا نہیں ہے. ڈھیلی ڈھالی دلیلوں کی بیساکھیوں پر ہر نہ سمجھ میں آنے والی چیز کا انکار کرنا نہیں ہے. مومن ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود خود کو فساد فی الارض کا جزوی یا کلی حصہ بننا نہیں ہے. بلکہ اُن کا کام وہ ہے، جو مذکورِ بالا اقوام یا افراد کے مقابلے میں کھڑی ہونے والی برگزیدہ ہستیوں نے کیا تھا. اسے ہم فسادی مشن کے مقابلے میں اصلاحی مشن کا نام بھی دے سکتے ہیں.
اصلاحی مشن کے بنیادی نکات
اس اصلاحی کی ادائی کے لیے جن کاموں اور ذمے داریوں کو انجام دینا ہوگا، انھیں مختصر طور پر نکات کی شکل میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
1- اللہ تعالیٰ پر بے آمیز اور اٹل ایمان کا اعلان. صرف اُسی کے سب کچھ ہونے اور باقی سب کے بے حیثیت ہونے کا اعتقاد. اس بات پر ایمان کہ جب تک اللہ کا اشارہ نہ ہو، اُس وقت تک ساری دنیا کی طاقتیں، ہر طرح کے مہلک وائرس اور بیماریاں اور خطرناک ترین ہتھیار مل کر بھی کسی انسان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے.
2- فساد فی الارض کے قرآنی تصور اور اس کے تمام مظاہر کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش.
3- فساد کے نتیجے میں انسانیت کو ہونے والے تمام چھوٹے بڑے نقصانات کا ادراک.
4- اس بات کی حتی الامکان کوشش کہ فساد کے کسی چھوٹے سے چھوٹے مظہر کو اختیار نہ کیا جائے.
5- خود بھی اس بات پر جمنا اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اسی بات پر جمانا کہ اگر دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فطری نظامِ کائنات کی تائید کرنے والے ہم اکیلے بچیں گے، تب بھی فساد فی الارض کے ناپاک ایجنڈے پر چلنے کے لیے آمادہ نہ ہوں گے. اس لیے کہ جب تک دنیا میں ایک بھی حقیقی صاحبِ ایمان باقی رہے گا، اُس وقت تک یہ دنیا پوری کی پوری فساد کے طوفان میں غرقاب نہ ہوسکے گی.
6- اللہ تعالیٰ جتنی توفیق دے اس کے مطابق بندگانِ خدا کو فساد سے باخبر کرنے اور بچانے کی کوشش کرنا.
یہی وہ کام ہیں جو ابلیس کے فسادی ایجنڈے کے خلاف رسولوں، نبیوں، مجددوں اور مصلحوں نے انجام دیے. ہمیں بھی اسی مقدس مشن میں لگ کر پر امن، اطمینان بخش اور پرسکون زندگی گزارنی چاہیے. فسادیوں کی حرکتوں اور شان و شوکت سے خوف زدہ ہو کر اس مبارک طریقے کو نہ چھوڑنا چاہیے. یہی حقیقی، ابدی اور دائمی کام یابی ہے.
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
28 مئی 2020 (ادارہ فکروخبر)
جواب دیں