ڈاکٹر شفیق الرحمان برق بیباکانہ اظہار کے لئے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے

 سراج الدین ندوی
ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی ۔بجنور

آج (27فروری 2024)سوشل میڈیا سے معلوم ہوا کہ ملت اسلامیہ کے سیاسی رہنما ڈاکٹرشفیق الرحمان برقؔ نے مرادآباد کے ایک اسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔اس طرح ایک خوبصورت چہرہ ،ایک پر وقار شخصیت ،ایک ماہر سیاست داں ،ایک مخلص دینی رہنما ،ایک بیباک مقرر اور ایک ادیب و شاعر ہم سے جدا ہوگیا۔ڈاکٹر صاحب ان ملی رہنمائوں میں سے تھے جن سے میں ملت کے لیے ان کی درد مندی کے باعث بہت محبت کرتا تھا ۔2016میں ملک پلو پورہ گائوں (ضلع مرادآباد ) کو جب ماڈل ولیج بنانے کے کا کام شروع ہوا تو وہ بھی اس کی افتتاحی تقریب میں موجود تھے ۔موصوف نے اپنی تقریر میں کہاتھا کہ ’’ جماعت اسلامی جو کام کررہی ہے وہی اصل کام کرنے کا ہے ۔‘‘وہ میری ان سے آخری ملاقات تھی ۔البتہ ان کے بیانات اور ان کی تقاریر کی ویڈیوز سے میں برابر استفادہ کرتا رہا ہوں۔
ڈاکٹرشفیق الرحمان برق کی سب سے بڑی خوبی بیباکی اور بے خوفی تھی ۔انھوں نے زندگی کے کسی مقام پر بزدلی نہیں دکھائی ۔انھوں نے فاششٹ طاقتوں کے سامنے کبھی سر نہیں جھکایا۔انھوں نے ہر ایوان میں ببانگ دہل انصاف کے لیے آواز بلند کی ۔اسمبلی اور پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک کے ہر پسماندہ اور مظلوم طبقہ کی حمایت کی ۔بابری مسجد بازیابی کی تحریک میں انھوں نے سرگرم رول ادا کیا ۔اس سلسلہ میں انھوں نے مرکزی و ریاستی اقتدار کی ناانصافیوں کو برسر عام اجاگر کیا ۔وہ جب بولتے تھے تو ایوان سنتا تھا ،ان کی رائے کو میڈیااچھی خاصی کوریج دیتا تھا ۔افغانستان میں طالبان کی واپسی پر انھوں نے جو بیان دیا تھا اس کو لے کر ان پر فرقہ پرستوں نے ،غداری کے مقدمات تک دائر کرادئے تھے لیکن وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے ۔
ڈاکٹرشفیق الرحمان برق بہت باہمت اور باحوصلہ انسان تھے ۔ان کی پرورش جس ماحول میں ہوئی تھی اور جس ترک قبیلہ سے ان کا تعلق تھا اس کے اثرات ان کی شخصیت پر نمایاں تھے ۔وہ سنبھل میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے ۔سنبھل کو مغل دور حکمرانی میں ملک کی راجدھانی ہونے کا شرف بھی حاصل رہا ہے ۔سنبھل اپنی مسلم شناخت کے باعث پورے ملک میں مشہور ہے ۔اس شہر نے کئی بار فسادات جیسے حالات کا سامنا کیا ہے ۔یہاں کے مسلمانوں نے تعلیم اور خدمت کے میدان میں بہت سے نمایاں کام انجام دیے ہیں ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعمیر و ترقی میں سنبھل کی ایک فیملی نے گراں قدر تعاون دیا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے ایک ہاسٹل کا نام ہی ’’ندیم ترین ہال ‘‘ ہے۔ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں ہمت اور حوصلہ ان کے دائیں بائیں بازووں کی طرح نظر آتے تھے ۔ان کے بولنے کے انداز ،ان کے چہرے پر نمایاں ہونے والے آثار اور ان کی چال ڈھال سے ان کا مخاطب مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا ۔ان کی جرأت و بہادری کے سامنے پولس بھی بے بس نظر آتی تھی۔
ڈاکٹرشفیق الرحمان برق بہت دور اندیش اور بابصیرت انسان تھے ۔انھوں نے جو بھی فیصلے کیے وہ ان کی بصیرت کی روشن دلیل ہیں ۔ان کا موقف حقیقت پسندانہ ہوتا تھا ۔ان کی ایک بڑی خوبی ان کا پُر امید ہونا تھا۔وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے،بلکہ یاس کے مارے ان کے پاس جاتے اور اپنا خالی دامن امیدکے موتیوں سے بھر لاتے،حالات کی شکایات لے کر جانے والے حالات کو بدلنے کا عزم لے کر واپس آتے،وہ بچوں کے لیے مسکان،جوانوں کے لیے عزم جوان اورہم عصروں کے رازدان تھے۔ان کو جب بھی کسی ایسی محفل سے خطاب کرنے کا موقع ملتا جہاں جوانوں کی تعداد زیادہ ہوتی تو وہ ہمیشہ ان کے اندر عزم و حوصلہ بھر دیتے۔ڈاکٹر برق مظلوموں کی امید تھے ۔ملک میں جب بھی کوئی غیر انسانی یا غیر منصفانہ واقعہ رونما ہوتا تو انصاف پسند طبقہ ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھتا اور وہ کبھی مایوس نہ کرتے ۔
ڈاکٹرشفیق الرحمان برق کی ایک خوبی خدمت خلق تھی ۔وہ ایک حساس دل کے مالک تھے اس لیے کہ وہ ایک شاعر تھے ۔وہ دوسرے کے غم کو اپنا غم محسوس کرتے تھے ۔ان کے دروازے پر آنے والا کوئی بھی شخص خالی ہاتھ نہیں گیا ۔وہ صرف اپنے حلقہ کے لوگوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اغیار کے لیے بھی دروازہ دل کو کھلا رکھتے تھے ۔عام طور پر سیاست میں کامیابی ملنے کے بعد انسان میں تکبر اس درجہ آجاتا ہے کہ وہ کمزوروں کو خاطر میں نہیں لاتا لیکن ڈاکٹر صاحب کے یہاں آکر کمزوربھی طاقت ور ہوجاتے تھے ۔ہمارے نظام میں پولس بہت زیادتی کرتی ہے ۔سیاسی رہنمائوں کے پاس سب سے زیادہ شکایات پولس محکمہ کی ہی آتی ہیں ۔ڈاکٹر صاحب بے قصور افراد کی رہائی کا بندو بست کرتے اور اس کے لیے وہ آفیسران تک سے بھڑجاتے تھے ۔
ڈاکٹرشفیق الرحمان برق کی ایک خوبی مہمان نوازی تھی ۔سفر ہو یا حضر وہ اپنے ساتھیوں اور زیردستوں کا بہت خیال رکھتے تھے ۔ان کے گھر پر ہمیشہ مہمانوں کی آمدورفت رہتی ۔ان کا دستر خوان وسیع تھا ۔جس طرح مسلمان ان کی ضیافت سے لطف اندوز ہوتے اسی طرح غیر مسلم افراد کی بھی تواضع میں کمی نہ کی جاتی ۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک نمایاں خوبی ان کا پابند شرع ہونا تھا ۔وہ جس طرح ظاہری لحاظ سے بھی اسلامی وضع قطع کے پابند تھے اس سے کہیں زیادہ باطنی طور پر وہ مسلمان تھے۔پنجوقتہ نماز کے پابند تھے بلکہ تہجد گزار تھے ۔حج بیت اللہ کی سعادت سے بھی بہرہ ور تھے ۔دوران سفر جہاں نماز کا وقت ہوجاتا گاڑیوں کو بریک لگوادیتے اور نماز ادا کرتے ۔بزرگوں سے بھی بہت عقیدت رکھتے تھے اور ملک میں موجود آستانوں اور خانقاہوں میں حاضری لگاتے رہتے تھے البتہ شرک سے بہت دور تھے ۔میں نے ان کو کبھی ننگے سر نہیں دیکھا ۔
ڈاکٹر شفیق الرحمان برق ملی مسائل کے حل میں پیش پیش رہتے تھے ۔شاہ بانو سے لے کر طلاق بل تک جتنے بھی ایشوز آئے موصوف نے اسلام کا موقف پیش کیا ۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کی حمایت کی ۔جماعت اسلامی پر جب جب پابندی لگائی گئی اس کے خلاف آواز بلند کی۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد جب جماعت اسلامی ہند کے افراد کو گرفتار کیا گیا تو موصوف ارکان جماعت سے مراد آباد جیل میں ملنے کے لیے آئے اور ان کو ہر طرح کی مدد کی یقین دہانی کرائی ۔
ڈاکٹر صاحب ایک سیاست داں اور مقرر کے ساتھ ہی شاعر بھی تھے ۔برق ؔ ان کا تخلص تھا ۔ان کی شاعری میں نعت کو خاص مقام حاصل تھا۔انھیں نبی ﷺ سے بے پناہ محبت تھی ،جب بھی حضور پاک کا تذکرہ آتا ڈاکٹر صاحب کی آنکھیں تر ہوجاتیں۔یہ ان کے ایمان کی معراج تھی ۔نعتیہ محفلوں میں شرکت کو باعث اعزاز سمجھتے تھے ۔
ڈاکٹر شفیق الرحمن برق 4 بار ایم ایل اے اور 5 بار لوک سبھا ممبر منتخب ہوئے۔پہلی بار وہ 1974میں بھارتیہ کرانتی دل (BKD)سے انتخاب جیت کر اترپردیش کی اسمبلی میں پہنچے تھے ۔اس کے بعد وہ 1977میں جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر1985میں لوک دل کے نشان پراور1989میں جنتا دل سے اسمبلی میں پہنچے ۔وہ چار مرتبہ(1996،1998، 2004،2019)سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے اور ایک بار (2009)بہوجن سماج پارٹی سے منتخب ہوئے ۔اپنی وفات کے وقت بھی وہ ایم پی تھے اورانھیں ایوان میں سب سے بزرگ ایم پی ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔وہ اترپردیش حکومت میں ایک مرتبہ ہوم گارڈ محکمہ کے وزیر بھی بنائے گئے۔آنے والے پارلیمانی انتخاب کے لیے بھی ان کو سماج وادی پارٹی نے اپنا امیدوار بنایاتھا۔
ڈاکٹر شفیق الرحمان برق 11جولائی1930کو پیدا ہوئے اور27فروری2024کو علالت کے بعداپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ مرحوم کو ان کی ایمانی فراست، سیاسی بصیرت، بے پناہ جرأت، غیر معمولی تدبر، پرجوش خطابت، فکر کی پختگی ، ارادہ کی مضبوطی، جذبہ کی توانائی اور ان کے عظیم کارناموں کے باعث ایک طویل مدت تک یاد رکھاجائے گا۔ مسلمانوں کو سربلند کرنے کی ان کے دل میں ایک سرگرم تڑپ تھی جس نے ان کو شب وروز متحرک رکھا۔ وہ ہندوستانی مسلمانوں کی آواز تھے ، ان کا سہارا تھے اور ان کی امید تھے، انہوںنے جس شدید بے چین روح کے ساتھ زندگی بھر مسلمانوں کی بہبود کے لیے بے لوث خدمت کی ، اس نے ان کی شخصیت کو حسن عمل کا ایک ہمہ گیر ادارہ بنادیاتھا۔ ان کی وفات ملت کا عظیم ترین خسارہ ہے ۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 
 

«
»

رمضان سے ہم نے کیا حاصل کیا؟

خدا کی قدرت ،جو سب سے طاقت و ر تھا وہ سب سے کمزور بن گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے