عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
مذاہبِ عالم کا منصفانہ اور غیر جانب دارانہ تجزیہ بتاتا ہے کہ اسلام ہی امن و امان کا نقیب اور سلامتی و آشتی کا علم بردار ہے؛اسی لیے ہرمسلمان کا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء کرام قابل احترام اور لائق تعظیم ہیں،یہی نہیں؛بلکہ ان پراور ان کی کتابوں پر ایمان لانا بھی لازم و ضروری ہے۔اسلام رواداری کا اس درجہ داعی ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو کفارومشرکین حتی کہ ان کے معبودان باطلہ کو بھی بلا وجہ برا کہنے سے صاف طور پر منع کرتا ہے اور زندگی کے ہر موڑپراعتدال و عدم تشدد کا سبق سکھاتاہے؛لیکن جو قومیں اسلام اور مسلمانوں سے عداوت رکھتی ہیں وہ مختلف حربوں سے اسلام کو بدنام کرنے، اس کے مبنی بر فطرت قوانین پر اعتراضات کی بوچھار کرنے اوردنیا کے سامنے اس کی پاکیزہ شبیہ کو مسخ کرنے کی ہر آن کوشش کرتی رہتی ہیں،اسی مقصد کے تحت کبھی مسلمانوں پردہشت گردی کا الزام لگایاجاتاہے،کبھی توہین آمیز فلمیں بنائی جاتی ہیں،کبھی ایسے گیمز تیارکیے جاتے ہیں؛جن سے شعائر اسلام کا استہزاء واستخفاف ہوتا ہے اور ان سب کے علاوہ اس مقدس و عظیم شخصیت کی شان میں گستاخی کے ذریعہ انسانیت نما درندگی کا وہ مظاہرہ کیا جاتا ہے جو مغرب کی فکر گستاخ کا غماز اور مادر پدر آزادی کا عکاس ہوتا ہے۔
ادھروطن عزیزمیں جب سے متشدد زعفرانی عناصر برسراقتدار آئے، اقلیتوں خصوصامسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے کا نہ تھمنے والا سلسلہ تشویش ناک رخ اختیار کرگیا۔یوں توآزادی کے بعدسے لے کر آج تک مسلمانوں کی جان ومال،عزت وآبروسے کھلواڑہوتارہا،مسلمانوں کو ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے جو انصاف ملنا چاہیے تھا وہ نہیں مل سکا۔اس پر مستزاد یہ کہ فسطائی طاقتوں کو مسلم اورغیرمسلم شہریوں کا اتحادخار کی طرح کھٹکنے لگا،وہ ہمیشہ نفرت کا زہرگھولنے میں مصروف رہے،جس کے خوف ناک نتائج بہ تدریج ہمارے سامنے ہیں۔وہ ملک جو کبھی مسلم، ہندواتحاد کا گہوارہ مانا جاتاتھارفتہ رفتہ انتشاروافتراق کی راہ پر چل پڑا۔فسطائی طاقتیں اقتدارپر قبضہ جمانا چاہتی تھیں اوران کے اس ہدف کا پوراہونامسلم اور غیر مسلم اقوام کے درمیان نفرت کی دیوارکھڑی کئے بغیر ممکن نہیں تھا؛اس لیے انہوں نے مذہب کی آڑمیں خوب سازشیں رچیں؛جس کا ایک حصہ شان رسالت ماٰب میں گستاخی بھی ہے۔اسی تناظر میں یہ افسوس ناک واقعہ بھی قارئین جانتے ہیں کہ ابھی دوروز قبل بنگلور کے نوین نامی شخص نے نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرکے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہونچائی ہے۔تفصیلات کے بموجب کرناٹک رکن اسمبلی کے قریبی رشتہ دار نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے شانِ رسالتؐ میں گستاخی کی تھی۔ اس پوسٹ کے وائرل ہوتے ہی عوام میں شدید بے چینی اور برہمی پیدا ہوگئی اور وہ رکن اسمبلی کی قیام گاہ پر جمع ہوگئے۔ عوام نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے رکن اسمبلی کی قیام گاہ کے باہر گاڑیوں کو نذر آتش کردیا۔ صورتحال اس قدر بگڑ گئی کہ حالات پر قابو پانے پولیس کو فائرنگ کرنی پڑی۔ فائرنگ میں تین افراد ہلاک؛جبکہ کچھ زخمی بھی ہوئے۔ صورتحال کی سنگینی اور کشیدگی کو دیکھتے ہوئے شہر کے دو پولیس اسٹیشنوں کے حدود میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ اس کے علاوہ شہر میں امتناعی احکام بھی لاگو کردیئے گئے۔ اطلاعات کے مطابق پولیس کے رویے نے بھی عوام کو مزید برہم کردیا تھا؛ کیونکہ جب رکن اسمبلی کے رشتہ دار نوین نامی گستاخ نے یہ پوسٹ کیا تو کچھ مقامات پر مقامی عوام نے پولیس میں شکایت درج کروانے کی کوشش کی؛تاہم پولیس نے شکایت درج کرنے کے بجائے انہیں باہمی طور پر مسئلہ کی یکسوئی کا مشورہ دیا۔ اس پر عوام برہم ہوگئے اور پرتشدد احتجاج کیا۔ احتجاجیوں کا مطالبہ تھا کہ پولیس فوری کارروائی کرتے ہوئے گستاخ کو گرفتار کرے۔
یاد رکھناچاہیے کہ شان رسالت ماٰب میں گستاخی کا یہ کوئی پہلاواقعہ نہیں ہے؛بلکہ دشمنانِ اسلام نے آپﷺ کی شانِ رسالتؐ کو ہمیشہ اپنی کم ظرفی اور کمینگی کے اظہار کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ قرونِ وسطیٰ میں جان آف دمشقی (700 تا 754ء)وہ پہلا نامراد شخص ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرالزامات واتہامات کا طومار باندھا اور بعد ازاں اکثر وبیشتر مستشرقین نے انہی الزامات کو دہرایا۔(ملخص ازتوہین آمیز خاکے؛ اسلام اور عصری قانون)اس حوالے سے اگر گذشتہ چند برس کی تاریخ کو پیش نظر رکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ توہین ِرسالت بعض تشددپسندغیرمسلموں کا ایک نفرت انگیز رویہ ہے، جس کااظہار وقفے وقفے سے کیاجاتاہے؛تاکہ اسلام کے پیروکار مشتعل ہوں اور ان پر جوابی کارروائی کی جاسکے۔
توہین رسالت؛ ایک جرمِ مسلسل:
اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت و عقیدت اسلام کا جزہے،ان کی فرمانبرداری واطاعت تکمیل ایمان کا سبب ہے اور ان سے وفاداری وشیفتگی اسلام کی اساس اور اہلِ اسلام کی شناخت ہے،ناموسِ رسالت کا تحفظ اورعظمتِ رسول کا تصور اربوں مسلمانوں کی رگوں میں خون بن کر دوڑنے والا وہ ناقابلِ تسخیر جوہر ہے جو فدائیانِ نبوت اور شیدائیان ِرسالت کے نزدیک ایمانِ کامل کی بنیادی علامت سمجھا جاتا ہے؛جبکہ یہی دولت ِگراں مایہ اور سب سے بڑھ کر قیمتی سرمایہ فریب خوردگانِ مغرب کے یہاں محض مریضانہ جذباتیت ہے؛یہی وجہ ہے کہ آج اسلام سے عناد،تعلیمات ِ اسلامی سے نفرت،مسلم ثقافت کا تمسخر، مسلمانوں کو محکوم رکھنے اور ان پر ہر طرح کی بالا دستی قائم کرنے کا جنون، مسلم ممالک کے مادی وسائل کا استحصال، مسلم نوجوانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے اور ان کو عملی ارتداد کی راہ پر ڈالنے کی شبانہ روز کوششیں،مسلم ممالک کے سیاسی استحکام کے خلاف مکروہ سازشیں اور ان جیسے بے شمار ہتھکنڈوں کا استعمال کرکے دشمنانِ اسلام،نہ صرف مسلمانوں کاجانی ومالی اتلاف کر رہے ہیں بلکہ زبردست پیمانہ پر ان کے دینی اعمال،تہذیبی اقدار اور مذہبی کردار کو بھی ملیامیٹ کر رہے ہیں۔
جیساکہ سابقہ تفصیلات سے معلوم ہوا کہ حالیہ کچھ عرصہ سے اعداء اسلام نے اپنی یہ پالیسی بنا رکھی ہے کہ آزادی اظہار اور حریتِ رائے کی آڑ میں نبی اکرمﷺ کی ذات وصفات کو نشانہ بنا یا جائے، آپ کی بلند پایہ شخصیت کو مجروح کرنے کے لئے نت نئی سازشوں کا جال بُنا جائے، توہین آمیز کارٹونوں، فلموں،تصویروں،کتابوں اور اشتھاروں کی اک باڑ لگائی جائے اور پوری امت ِ مسلمہ کے خلاف زبردست قسم کی جارحانہ مہم چھیڑ کر انہیں، اشتعال انگیز ی، قانون شکنی اور آزادانہ احتجاج پر مجبور کیا جائے اور نتیجۃ ً بقائے امن، تحفظ قانون اور ان جیسی دل فریب اصطلاحات کو بنیاد بنا کر خانہ جنگی،قتل وغارت گری اور قید واسیری کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع کر دیا جائے؛ تاکہ مسلمان چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پِس کر رہ جائیں کہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔
یوں تو محسن کشی کی بدترین مجرمانہ حرکتوں اور گستاخانہ کار روائیوں سے انسانیت کا دامن ہمیشہ داغ دار رہا ہے، بد نصیب لوگوں نے تو اپنے والدین تک پر ستم ڈھائے، اپنے ہمدردوں، خیر خواہوں، استاذوں، اور رہنماؤں کے ساتھ بھی دشمنوں جیسا سلوک کیا، تلاش وجستجو سے ایسی بے شمار مثالیں ہر قوم ومذہب میں مل جائیں گی، اس لحاظ سے پیغمبر ِ اسلام ﷺ کی شخصیت ان ناہنجاروں اور خدا بیزاروں کا پہلا نشانہ اور اولین ہدف نہیں ہے۔چناں چہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984) کا مقالہ نگار لکھتا ہے:"بہت کم لوگ اتنے بدنام کئے گئے جتنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کیا گیا، قرونِ وسطی کے عیسائیوں نے ان کے ساتھ ہر الزام کو روا رکھا ہے۔"
اے ہسٹری آف میڈیوال کا مصنف جے جے سانڈرز لکھتا ہے:"اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پیغمبر عربی کو عیسائیوں نے کبھی ہمدردی اور توجہ کی نظر سے نہیں دیکھا، جن کے لئے حضرت عیسیٰ کی ہستی ہی شفیق و آئیڈیل رہی ہے۔ صلیبی جنگوں سے آج تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو متنازعہ حیثیت سے ہی پیش کیا جاتا رہا او ران کے متعلق بے سروپا حکایتیں او ربے ہودہ کہانیاں پھیلائی جاتی رہیں۔"(ملخص ازتوہین آمیز خاکے؛ اسلام اور عصری قانون)
کرنے کے چندضروری کام:
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ان مواقع پر کیا کرنا چاہئے؟ تاکہ صحیح معنی میں ہم شریعت کے احکام کے مطابق ناموس رسالت کادفاع کرسکیں،اگرہم واقعۃً مسلمان ہیں اور حدو د شریعت میں رہ کرتاج نبوت ورسالت کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں توہمیں قانونی چارہ جوئی کے ساتھ مندرجہئ ذیل امور کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے جنہیں مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحیؔنے قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایاہے:
۱)اسلامی تعلیمات کی مکمل پیروی اورغیراسلامی نظریات،افکار،خیالات، عادا ت اطوار،تہذیب وتمدن،معاشرت،سیاست وغیرہ سے کلی اجتناب کرناہوگا،خاص طورپر فیشن پرستی اورمادی افکارکوپوری ہمت اوراستقلال کے ساتھ چھوڑناہوگااورسادگی کے ساتھ زندگی گذار نی ہوگی،یہی سب سے پہلے کرنے کا کام ہے؛مگراسے چھوڑکرامت دیگرغیرشرعی طریقوں کواختیار کررہی ہے۔
۲)عالمی طور پرتمام مسلمانوں کو متحدہ ہو کریو این اوکوایسے قوانین وضع کرنے پر مجبور کرنا ہوگا، جس میں انبیاء کرام علیہم السلام کی اہانت کرنے والوں کو قتل کی سزا دی جائے۔
۳)یورپ جو ان تمام غلیظ وناپاک حرکتوں کی پشت پناہی کررہا ہے، اسے مندرجہ ذیل طریقوں سے سبق سکھایا جائے:
الف:مسلمان مغربی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔
ب:ڈالر،یورواورپاؤنڈکے ذریعہ معاملہ نہ کرکے اس کی ویلیو کو کم کریں۔
ج:پورے عالم میں دین اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح تعارف پیش کریں۔
۴)ہر گھر میں اسلام اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور سیرت کے مطالعے کو عام کرنا چاہیے۔
۵)نمازوں کا مکمل اہتمام کرنا چاہیے۔
۶)زندگی کے ہر موڑ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو معلوم کرکے اس پر عمل کرنا چاہیے۔
۷)بدعات وخرافات سے بھرپور اجتناب کرنا چاہیے۔
۸)صحابہ سے محبت اوران کی زندگیوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
۹)علماء سے محبت اورہردنیوی ودینی معاملہ میں ان سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔
۰۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو پڑ ھ کر اس کو اپنی زندگی میں نافذ کرنا چاہیے۔
۱۱)لوگوں کو سیرت سے وابستہ کرنے کے لیے سیرت کے عنوان پرمسابقات رکھنے چاہیے۔
غرض یہ کہ ہم سب پراپنی استطاعت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع لازم ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں