شب برأت، توبہ واستغفار، عبادت کی رات۔

محمد شمیم ندوی ، مدرسہ ریاض الجنۃ۔

شب برأ ت ،امت مسلمہ کے لئے خدا کی طرف سے بیش قیمت تحفہ ،اور موت وحیات کے فیصلہ کی ایسی مقدس رات ہے ،کہ انسان عبادت ودعا کے ذریعہ گناہوں سے پاک ہوکر سعادت ابدی،اور جنت کامستحق ہوجائے، اس رات کو رب قدیر آسمان دنیا پراپنی خاص تجلی فرماتا ہے،اور رحمت کانزول ہوتا ہے، اور پوری رات اللہ کی طرف سے یہ اعلان ہوتا رہتا ہے کہ ہے کوئی مغفرت کا چاہنے والا ہے،جو میرے درپے آئے، ندامت کے آنسو بہائے ،اور میں اس کی مغفرت کردوں، ہے کو ئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اسکو رز ق دوں،ہے کوئی مصیبت زدہ ،کہ میں اسکو اس سے نجات دوں،اس شب کو مغفرت کا درواوزہ کھلا رہنے اور عفو وکرم رحمت وشفقت کا دریا جوش میں رہتا ہے، اور بدنصیبی کو مٹاکر خوش نصیبی لکھ دیتا ہے۔
خالق کائنات نے انسان کے اندر بے شمار صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں،جس سے انسان بربادی کے کھنڈرمیں بھی کھڑاہوکراپنی نئی زندگی و نئی تعمیر کا منصوبہ بناسکتا ہے،اور کوتاہیوں،لغزشوں، اور غلطیوں کی تلافی کے لئے مختلف مواقع اورطریقے بھی عطافرمائے ہیں،تاکہ انسان ان کے ذریعہ گناہوں سے پاک ہوکر سعادت ابدی،اور جنت کامستحق ہوجائے،انہیں موقعوں میں سے ایک شب برأت یعنی پندرہویں شعبان بھی ہے۔
اس مہینے کی فضیلت واہمیت کے لئے اتناہی کافی ہے کہ آ پ ﷺ نے اس ماہ معظم میں کثرت سے روزہ رکھتے، اور صحابہ کرام، تابعین عظام، اور سلف صالحین کا یہ معمول رہا ہے کہ اس رات کے اندر عبادت کا اہتمام کیاکرتے تھے،اور دوسرے دن روزہ رکھتے۔
لہذا شب برأت کا پیغام ہے کہ معافی کے اس نادر موقع،اور اس رات کے کسی وقت کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے ، ذاتی احتساب اور توبہ کرکے اس زندگی کا آغاز کریں ، جو قرآن وحدیث کی روشنی سے منور ہو، اس مبارک موقع کو لہو ولعب میں گذارنے ، بازاروں میں گھومنے، سیرکرنے سے پرہیز کریں، ان رسوم و بدعات سے خاص طور پر اجتناب کیاجائے، جن کو لوگوں نے اس مہینہ سے جوڑ دیا ہے، ایسانہ ہوکہ ہم خرافات میں مبتلاہوکر شبِ برأت کی فضیلت سے محروم ہوجائیں،اگر ہم غیر وں کی طرح بے راہ روی، اور بے اعتدالی کاشکارہوگئے،تو ہم اپنادنیا وآخرت کا نقصان تو کریں گے ہی، ساتھ ہی اسلام کی شبیہ کوبگاڑنے کے مجرم بھی قرارپائیں گے۔
بڑئے خوش نصیب اور سعادت مندہیں وہ لوگ جو اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھاکر سعادت دارین سے بہر ور ہوتے ہیں، کیونکہ ساس زندگی کا کیا بھروسہ جس کی بنیاد صرف سانس کے آنے جانے پر ہو، عمر کا کارواں سدا یونہی جاری رہتا ہے، بلکہ اسے ایک منزل پر ٹھہرنا پڑتا ہییعنی ہرنفس کو موت کا پیالہ پینا ہے، جو لذتوں کے شیش محل کو چکنا چور کردیتا ہے، لہذا اپنی صحت ، جوانی،زندگی کو غنیمت سمجھ کر عبادت کے ساتھ اپنے آباء واجداد،اعزہ واقارب،اور عامۃ المسلمین کے لئے دعاکریں۔
دعا عبادت کا مغز،اسکی روح ،اسکا جوہر ،مومن کاہتھیار،سہارا، پریشان حال کی تسلی کاسامان،اور مولاوبندے کے درمیان ایک ایسا اٹوٹ رشتہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے ایسی دلی مرادیں پیش کرتا ہے جو دنیا میں کسی کے سامنے پیش نہیں کرسکتا، خدا سے سرگوشی کرنے،راز ونیازکی باتیں کرنے، اورمصیبتیں دور کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ دعائے مردمؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔
لیکن اسکے لئے شرط ہے کہ دعا کے وقت داعی کادل اللہ کی طرف متوجہ اور اسکی بارہ گاہ میں حاضرہو، حمدوثناء کے ساتھ پہلے سچے دل سے پکی توبہ کرے،اپنے والدین کوراضی کرے ، کیونکہ والدین کی رضا میں اللہ کی رضا ہے،اوررزق حلال کا پابندہوجائے، عاجزی وانکساری ، خضوع وخشوع اور ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ دعا کرے، آنسؤو ں سے بھری ہوئی آنکھوں، اور ڈرے ہوئے قلب کے ساتھ اپنی حاجت بیان کرے،کہ اے اللہ میں تجھ سے تیرے فضل اور رحمت کاسوال کرتاہوں، دعا کے وقت داعی کادل اللہ کی طرف متوجہ اور اسکی بارہ گاہ میں حاضرہو، اور یہ شعور ہونا چاہیئے کہ و ہ کیاکررہا ہے ،کیاکہہ رہا ہے، اور کس سے کہہ رہا ہے، اپنی عاجزی، پستی،اور تازہ احساس کے ساتھ دعاکریں، اس میں خیر کی طلب اور شر سے نجات کی درخواست ہو،کیونکہ اللہ تعالی اپنے سامنے بندے کی عاجزی وبے بسی کو بے حد پسند فرماتا ہے،اللہ سے دعامانگناعین تقاضائے بندگی ہے۔
اللہ ہم سب کو عبادت کرنے ، اور دعا کی شرائط کے ساتھ سچے دل سے پکی توبہ کرنے ،کی توفیق عطافرمائے ، الھم انک عفو، تحب العفو فاعف عنی(آمین) * * *

 

«
»

بھگوا لہر ٹی وی چینلوں تک محدود کھسک رہی ہے مودی کے پیروں تلے کی زمین؟

مینکا گاندھی اور ساکچھی مہاراج کی دھمکی آمیز سیاست

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے