90 فیصد تک آگ سے جھلسے ہوئے اس معصوم کی موت واقع ہوچکی ہے۔ شیخ مصطفی نام کا یہ گیارہ سالہ بچہ اپنے کے خاندان کیساتھ صدیق نگر میں رہتا تھا جو کہ مہدی پٹنم کے فوجی علاقہ میںشامل ہے ۔یہ ممنوعہ علاقہ ہے جبکہ باہر سے آنے والوں کو یہاں اسپیشل پاس سے انٹری ملتی ہے۔ یہ بچہ بدھ کو مہدی پتتنم کے گےرسن علاقہ میں زخمی حالت میں ملا تھا اور اس کی حالت انتہائی نازک تھی جس کی جمعرات کو ڈی آر ڈی او اپالواسپتال میںبالآخر علاج کے دوران ہی موت واقع ہو گئی۔ جائے حادثہ سے سافٹ ڈرنک کی وہ بوتل برآمد کر لی گئی ہے جس میںمٹی کا تیل بھی پایا گیا ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ فوج نے اس واقعہ میں اپنے فوجیوں کے ملوث ہونے سے بڑی معصومیت سے انکار کیا ہے جبکہ بچے نے مرنے سے قبل مجسٹریٹ کو دئے گئے اپنے بیان میں بتایا کہ فوج کے کچھ جوانوں نے اس پرمٹی کا تیل چھڑک کر اسے آگ کے حوالہ کر دیا۔ صدیق نگر کے رہنے والے بچے کو دو فوجیوں نے گےرسن علاقہ میں اندر بلایا تھا۔ بچے کے مطابق پہلے اس کی پٹائی کی گئی اور پھر اسے آگ کے حوالہ کر دیا گیا۔ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ یہ معصوم اپنے اوپر ظلم کو رو رو کر بیاں کر رہا ہے۔ خیر اب اس معصوم نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا ۔سانحہ کے بعد مقامی باشندوں نے فوجی علاقہ کے باہر جم کر مظاہرہ کیا۔
خبردارلب کشائی نہیں!
اس معصوم پر فوج کے کچھ جوانوں کی طرف سے کیا گیا ظلم صاف نظر آ رہا ہے۔ اب اس معصوم کو موت نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے لیکن یہ سانحہ بہت سے سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس قسم کا واقعہ پہلی بار پیش آیا ہوجبکہ اس سے پہلے بھی فوج کے جوانوں کی طرف سے حیوانیت سامنے آتی رہی ہے۔ پھر چاہے وہ چھتیس گڑھ کے دنتے واڑہ، بستر، میں آدیواسی خواتین کے ساتھ عصمت دری ہو یا پھر کشمیر کا شوپیاںسانحہ، یہ ایسے سانحات ہیں جو فوج کے معقول کارناموں پر سیاہی پوت دیتے ہیں۔ چوںکی ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ہتھیاروں، ویرو ںکی پرستش کی جاتی ہے جبکہ فوج کے خلاف لب کشائی غداریسے تعبیر کی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ فوج کی طرف سے کئے گئے ظلم و بررریت کی داستانیں کشمیر کی سفید برفیلی پہاڑیوں میں دفن ہیں، جہاں پر نہ جانے کتنی بے نام و نشان قبریں اپنے مکینوں کی روحوں کو سمیٹے ہوئے ہیںلیکن اس کا کیا کیجئے کہ حیدرآباد کا حالیہ واقعہ تو صاف بتا رہا ہے کہ کس طرح فوج کی فرقہ وارانہ خطوط پر ذہن سازی ہوئی ہے ۔بھلا ہو آزاد ذرائع کا جو اس سمت میں واضح اشارے دیتے رہے ہیں145یہ الگ بات ہے کہ صاحب اختیارطبقہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ ایک معصوم کو زندہ جلانا بھلا کون سی بہادری ہوگی؟ اور کون سی دےش بھگتی؟ لوگ مذمت کریں گے پھر سیاست ہوگی۔ مگر کیا معصوم کو انصاف مل سکے گا، یہاں موت ملنی آسان ہے مگر انصاف مل پانا تو بے حد مشکل ہے۔ نہ جانے11 سالہ معصوم کے اندر آخر ان جوانوں کو کیا نظر آیا جو انہوں نے اسے زندہ جلا ڈالا؟ کیا یہ فرقہ وارانہ دشمنی ہے یا پھر بہادری کے تمغہ حاصل کرنے کا راستہ؟
بدل کر رکھ دیافوج کا کردار:
جو بھی ہو لیکن ہے تو انسانی اقدار کے خلاف ہی۔ فوج پر تو ذمہ داری عائد ہے کہ وہ شہریوں کی حفاظت کرے لیکن اس قسم کے واقعات تو فوج کے کردار کو ہی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ایسے فوجی اور پولیس افسران کی کمی نہیں ہے جو بحث کرتے نہیں تھکتے کہ کہیں بھی تفریق نہیں ہے، سرکاری مشینری میں کہیں بھی فرقہ پرستی نہیں ہے؛ کیا وہ بتائیں گے کہ یہ واقعہ کیا ہے؟ کیا وہ اس واقعہ کی مذمت کریں گے؟ کیا وہ تسلیم کریں گے کہ فرقہ وارانہ ذہنیت ہر جگہ ہر نظام میں موجود ہیں؟دوسری جانب ہائی کورٹ میںزیر سماعت پٹیشن کے باوجودہندوستانی فوج کے راجپوتانہ رائفل میں کام کرنے والے صوبیدارعشرت علی کا کوراٹرجبری طور پر خالی کروالیا گیا ۔ ملٹری پولیس نے سامان باہر نکال کرگاڑی پر لاددیااور صوبیدارکی بیوی رات گئے تک سامان لئے بھٹکتی رہی۔ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ انھوں نے رام رام اور جے ماتا جی کے نعرے لگانے کی بجائے جے ہند پر اصرارکیا تھا۔اس سلسلہ میں کمانڈنگ افسر نے الٹا چورکوتوال کو ڈانٹے کی مثل صوبیدار کو نوٹس بھی جاری کیاتھا اور ان پر الزام لگایا کہ وہ دیوی دیوتاو ں کیخلاف تنگ نظری سے کام لے رہے ہیںجبکہ ان کی بٹالین رام رام اور جے ماتاجی کے نعرے لگائے جاتے ہیں ۔ عشرت علی نے قومی اقلیتی کمیشن اور اترپردیش کے وزیراعلیٰ اکھلیش یادو کو بھی اس سلسلہ میںبھی ایک خط لکھا۔
سیکولر فوج کا کارنامہ:
کہا جاتا ہے کہ جے ہند کا نعرہ آزاد ہند فوج کے رہنما سبھاش چندر بوس نے عطا کیاتھا جبکہ اس کے اصلی خالق میجر عابد حسین تھے جو آزاد ہند فوج کے ایک اہم رکن تھے ۔کون نہیں جانتا کہ کسی مسلمان کیلئے جے ماتا جی کا نعرہ لگانا مناسب نہیں ہے جبکہ یہ ہندومذہب کا منترہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی طرف سے ان کی بیوی شہناز بانونے یہ خط صدر جمہوریہ کو روانہ کیا۔یہ الگ بات ہے کہ عشرت علی کے کمانڈنگ افسر کرنل چترا سین نے ان الزامات پر اپنی رائے نہیں دی تاہم انھوںنے پلہ جھاڑا لیا کہ ہندوستان کی فوج پوری طرح سیکولر ہے ۔ اس دوران نامور وکیل راجیو آنند نے بھی تائید کی ہے کہ مذہب کے نام پر نعرہ لگانا غلط ہے ۔دوسری جانب صوبیدار عشرت علی کو نوٹس میںصاف کہاگیاکہ جے ہند کا نعرہ مذہبی نفرت پھیلارہاہے اوراگر وہ اس باز نہیں آئے تو ان کیخلاف ایکشن لیا جائے گا ۔22سال کی سروس کے دوران عشرت علی کو کسی نے بھی جے ہندکا نعرہ لگانے کی ممانعت نہیں کی جبکہ ان کیخلاف شکایتیں مئی میں شروع ہوئیں جب ہندوستانی فوج کی طرف سے سوڈان اقوام متحدہ کی ڈیوٹی پر گئے تھے ۔ جبکہ گذشتہ روز تو ان کی عارضہ قلب میں مبتلا بیوی کودہلی چھاو نی میں واقع ان کی رہائش گاہ سے سامان سمیت زبردستی دربدرکردیا گیا۔
کہاں گیا وہ تعلق؟
اس سلسلہ میںحجاج بن یوسف کا ایک واقعہ قابل غور ہے۔ کہتے ہیں کہ اسے کسی نے خبر دی کہ ایک شخص ہے جو 20 سال سے غلاف کعبہ کو پکڑ کی دعائیں مانگ رہا ہے لیکن اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔حجاج اس آدمی کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ آدمی اندھا ہے اور اللہ سے آنکھیں مانگتا ہے۔20سال کا طویل عرصہ گذر جانے کے باوجود اس کی دعا قبول نہیں ہوئی۔حجاج نے اس سے کہاکہ اللہ نے تجھے آنکھیں نہیں دیں لیکن اس کے علاوہ کچھ ایسی خاص چیز ضرور دی ہوگی جو آنکھوں کا نعم البدل ہوگی۔اس نے جواب دیاکہ نہیں مجھے آنکھیں تو ملی نہیں لیکن نعم البدل بھی نہیں ملا۔حجاج نے اس کو اپنی تلوار دیتے ہوئے کہاکہ اچھا! یہ میری تلوار رکھو۔ میں تین دن بعد یہیں کعبہ کے پاس آو ں گا ، اگر تیری بصارت واپس نہیں ہوئی تومیں تجھے قتل کردوں گا۔تین دن بعد جب حجاج واپس وہاں آیا تو اس شخص کی بینائی واپس آچکی تھی۔حجاج نے کہاکہ اب تجھے معلوم ہوا کہ دعا مانگنے کا طریقہ کیا ہے؟؟
جواب دیں