’’17ستمبر‘‘۔۔۔یومِ نجات نہیں یومِ ماتم !

حضور نظام کی آصف جاہی سلطنت حیدرآباد کے اعلانِ آزادی سے قبل اور اعلان آزادی سے سقوط اور سقوط کے بعد ریاست حیدرآباد اور حیدرآباد پر جو کچھ گزری تھی وہ ایک درد بھری داستان ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سقوط حیدرآباد کا عظیم المیہ ریاست حیدرآباد میں شامل رہے۔ علاقوں کے باشندوں کیلئے (خواہ وہ اس دور کا حصہ رہے ہوں یا نہ رہے ہوں) دراصل یوم غم و ماتم ہے۔ یوم سیاہ ہے لیکن بعض علاقوں میں (17ستمبر (جسدن حضور نظام نے ہندوستانی افواج کے آغے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا تھا) کو ’’یوم نجات یا یوم فتح‘‘ کے نام سے موسوم کرکے خوشیاں مناتے ہیں جو کہ ایک طرف بے حسی کی انتہاء ہے تو دوسری طرف یہ کھلی فرقہ پرستی ہے کیونکہ ’’نجات‘‘ کا دن ان کے لئے محض اس وجہ سے ہے کہ آصف سابع حضور نظام مسلمان تھے لیکن نجات منانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ حضور نظام کی رعایا کی غالب اکثریت گوکہ غیر مسلم تھی تاہم حکومت نظام حکومت ہند کے مطالبے پر ریاست میں استصواب عامہ کیلئے تیار ہوگئی تھی۔ اپنی رعایا پر حکومت حیدرآباد کا یہ اعتماد دیکھ کر ہی حکومت ہند استصواب عامہ کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی تھی۔ اس لئے انتہاء پسند فرقہ پرستوں کا حضور نظام کی حکومت کے خاتمے پر اظہار مسرت اور اسے نجات سمجھناناقابل فہم ہے یہ تو سنگھ پریوار اور اس کے زیر اثر رہنے والے کانگریسیوں کا چھوڑا ہوا شوشہ ہے۔ نظام کے خلاف ریاست میں کوئی عوامی تحریک نہ تھی اس وقت ریاست میں جو گروپ اسٹیٹ کانگریس کے نام سے کام کررہا تھا اس کا انڈین نیشنل کانگریس سے الحاق ختم کردیا گیا تھا۔ ممتاز قائدو شخصیت مسز سروجنی نائیڈو کا اسٹیٹ کانگریس سے کوئی تعلق نہ تھا اس نے کوئی باقاعدہ تنظیم تحریک نہیں چلائی اس کی زیادہ سرگرمیاں رضاکاروں اور کمیونسٹوں کے بھیس میں لوٹ مار، تخریب کاری اور دہشت گردی تک محدود رہیں۔ دوسری طرف نظام کوئی غیر ملکی نہیں تھے جن سے آزادی یا نجات حاصل کی جاتی۔
درحقیقت 17؍ستمبر کو نظام کی افواج نے ہتھیار نہیں ڈالے تھے بلکہ یہ رسم تو 18؍ستمبر کو ادا ہوئی تھی۔ اس لئے 17؍ستمبر کسی اعتبار سے نہ یوم نجات ہے اور نہ ہی یوم آزادی ہتھیار ڈالنے کے بعد بھی 26جنوری 1950ء نظام رسمی بادشاہ رہے۔ 
24 نومبر 1949ء کو نظام نے فرمان کے ذریعہ دستور ساز اسمبلی ہند کے تیار کردہ دستور کو منظور کیا اور یہ دستور جب 26جنوری 1950ء کو نافذ ہوا تو حیدرآباد کی ریاست انڈین یونین میں شامل ہوئی۔ اسی لئے سپریم کورٹ نے 26؍جنوری 1950ء سے قبل حیدرآباد کی ریاست کی عدالت العالیہ کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سماعت کیلئے قبول نہیں کی تھیں کیونکہ 26؍جنوری 1950ء سے قبل ریاست حیدرآباد انڈین یونین کا حصہ نہ تھی ۔ اس لئے ریاست سپریم کورٹ آف انڈیا کے دائرہ اختیار سے خارج تھی۔ اس لئے 17ستمبر کو یوم آزادی یا یوم نجات منانا ہر لحاظ سے غلط ہے۔ اس سلسلے میں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ مجلس اتحادالمسلمین کے قائد مرحوم سید محمد قاسم رضوی (جن کے خلاف محض ان کی توہین اور تحقیر کیلئے ڈکیتی کا جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا تھا جس میں ان کو سات سال کی سزا ہوئی تھی) کی اپیل بھی فیڈرل کورٹ آف انڈیا نے ریاست حیدرآباد کے انڈین یونین کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے سماعت کیلئے قبول نہیں کی تھی۔ حضور نظام کا سکہ عثمانیہ (حالی) کو حیدرآبادکی ٹکسال 1952ء تک ڈھالتی رہی تھی جو نظام کی حکمرانی17؍ستمبر کے بعد بھی برقرار رہنے کا ثبوت ہے۔ 
حضور نظام کے خلاف کوئی عوامی جدوجہد نہیں ہوئی۔ انڈین یونین میں شرکت حکومت ہند کی فوجی کارروائی کا نتیجہ تھی۔ اس میں عوام کا کوئی دخل نہ تھا اور یہ اس وقت کی حکومت کی دھوکا دہی اور فریب تھا کہ ایک بھرپور فوجی کارروائی کو جس میں بمبار طیارے، بھاری ٹینکس و توپ خانہ اور ہزاروں فوجی استعمال ہوئے پولیس کارروائی یا پولیس ایکشن کہہ کر ساری دنیا کو دھوکا دیا گیا۔ 
نظام کی حکومت کے خاتمے پر یوم نجات منانے والے حیدرآبادیوں (بلالحاظ مذہب وملت) کی ان مشکلات و مصائب کا ذکر کیوں نہیں کرتے ہیں جو حکومت ہند کی عائد کردہ معاشی ناکہ بندی کی وجہ سے حیدرآبادیوں کو مہینوں تک جھیلنی پڑی تھیں۔ برطانوی دورِ حکومت میں برطانوی ہند اور حیدرآباد کے مابین درآمد و برآمد پر کوئی پابندی نہ تھی۔ حکومت حیدرآباد اور حکومت ہند کے درمیان جو معاہدہ انتظام جاریہ ہوا تھا اس میں بھی سابقہ انتظامات کو برقرار رکھنے کا اقرار تھا لیکن حکومت ہند نے اسے نظر انداز کردیا اور حیدرآباد کی انتہائی سخت معاشی ناکہ بندی کردی گئی۔ حیدرآباد میں پٹرول، ڈیزل، دوائیں پانی صاف کرنے کے لئے کلورین اور بچوں کی غذائیں وغیرہ جو باہر یعنی بیرون حیدرآباد خاص طور پر ممبئی سے آتی تھیں۔ کلورین نہ ملنے کی وجہ سے پینے کا پانی صاف نہیں ہوسکتا تھا جس کی وجہ سے ہیضہ کی وبا پھیل گئی اور اس کو روکنے اور علاج کیلئے دواؤں کی عدم موجودگی سے بڑی تباہی پھیلی۔ معاشی ناکہ بندی سے حیدرآباد کے مسلمان ہی نہیں بلکہ (85فیصد) غیر مسلم آبادی بھی متاثر ہوئی تھی۔ حیدرآباد پر جس قسم کی پابندیاں عائد کی گئیں تھیں وہ حقوق انسانی کی علانیہ خلاف ورزی ہے۔ اس لئے اگر 17ستمبر کو یوم نجات کی جگہ حکومت ہند سے معذرت خواہی کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ اگر زمانہ جنگ میں ایسا معاشی مقاطعہ کیا جاتا ہے تو اس کا کوئی جواز بھی ہوتا ۔ حیدرآباد پر دباؤ ڈالنے جو ناکہ بندی حکومت ہند نے کی تھی وہ قطعی ناجائز اور غیر انسانی تھی۔
حیدرآباد کی طویل سرحدوں پر ہر جانب سے کانگریسی، آر ایس ایس اور آریہ سماج والے دراندازی کرتے اور تخریبی کارروائیاں (آج کل کی اصطلاح میں دہشت گردی) کرتے لائق علی نے اپنی کتاب ’’ٹریجڈی آف حیدرآباد‘‘ Tragedy of Hyderabad میں (صفحہ38)پر لکھا ہے کہ ’’حیدرآباد اسٹیٹ کانگریس کی ایکشن کمیٹی نے 28نومبر 1948ء کو شائع ہوئی۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے 175 پولیس آوٹ پوسٹس تباہ کیں۔ 130 مقامات پر ریلوے کی پٹریاں کاٹ دیں اور 615 کسٹمس اور پولیس چوکیوں کو تباہ کیا تھا (ٹائمز آف انڈیا 29؍نومبر 1948ء) اس دہشت گردی کی مزید تفصیل کیپٹن لنگالہ پانڈو رنگاریڈی نے بھی سقوط حیدرآباد پر اپنے کتابچہ میں لکھا ہے کہ پولیس رضاکاروں کے لباس میں ریاست کی سرحدوں کو پار کرکے اندرونی علاقہ میں (15) میل تک گھس کر دہشت اور ہر اس پھیلاتے مظالم کرتے حدتو یہ ہے کہ کانگریسیوں نے ’’عمری بینک‘‘ لوٹ کر لاکھوں روپے ہڑپ کرلئے تھے اور اس کو اخبارات اور آل انڈیا ریڈیو رضاکاروں کی کارروائی بتاتے ۔ ان جعلی رضاکاروں کو بھارتی فوج کی بھی مدد حاصل ہوتی۔ اس کارروائی کو آپریشن کیڈی کا نام دیا جاتا تھا۔ حکومت ہند کی راست یا اس کی نگرانی میں باالراست کی جانے والی تخریب کاری اور سرحدوں پر شورش برپا کرنے کی کارروائیاں کا احوال کانگریسی قائد رام چندر راؤ نے بیان کیا تھا۔ یہ بیان حیدرآباد کے روزنامہ ’’میزان‘‘ میں 4اکتوبر 1948ء کو شائع ہوا تھا (حیدرآباد کا عروج و زوال۔ بدرشکیب)۔
اسی طرح حکومت ہند کے آل انڈیا ریڈیو اور تمام بڑے چھوٹے اخبارات کے ذریعہ حضور نظام اور ان کی حکومت وزیر اعظم لائق علی، رضاکاروں اور سید محمد قاسم رضوی کو بدنام کرنے اور عوام کو اشتعال دلانے اور تعصب پھیلانے کے لئے جو جھوٹا بے بنیاد اور من گھڑت پروپگڈہ کیا گیا تھا۔ ہندووں پر مظالم کی جھوٹی داستانوں کے پروپیگنڈے کا اثر تھا کہ غیر مقامی اور مقامی لوگوں نے مسلمانوں پر اتنے شدید مظالم کئے اس بے بنیاد پروپیگنڈے کی ذمہ داری بڑی حدتک حکومت ہند پر ہی ہے جس کیلئے اسے معافی مانگنی چاہئے تھی۔
ریاست حیدرآباد میں 17ستمبر یا بھارتی افواج کے قبضے کے بعد ریاست کے 16اضلاع میں سے 3یا 4چھوڑکر ہرطرف قتل عام، غارت گری، آتش زنی، لوٹ مار اور عورتوں کی عصمت دری کا دور دورہ تھا۔ لاشوں سے باولیاں بھری ہوئی تھیں۔ ہلاک ہونے والوں کی تعداد گوکہ پنڈت سندر لال کمیٹی کی رپورٹ میں پچاس ہزار بتائی گئی ہے لیکن دیگر محتاط اندازوں کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد کم از کم دو لاکھ تھی (عمر خالدی مرحوم کی کتاب ’’حیدرآباد آفٹر دی فال (ص؍20)Hyderabad After The Fallپنڈت سندر لال کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ قتل و غارت گری کے جرائم میں مقامی افراد سے زیادہ بیرون ریاست کی ہندو فرقہ پرست جماعتوں کے کارکنوں کی بھاری تعداد شامل تھی۔ قتل و غارت گری اور لوٹ مار اور دیگر جرائم میں فوجی اور پولیس والے بھی شامل تھے ۔ جہاں وہ شریک نہ ہوئے وہاں لوگوں کو لوٹ مار آتش زنی قتل و غارت گری کی ترغیب دیتے تھے۔ باقاعدہ ان کو اکساکر ان کی فوجی حوصلہ افزائی کرتے۔ اگر کسی مسلمان یا رضاکار نے ایک قتل یا کوئی ظلم کیا تھا تو اس کے بدلے میں ایک سو ہلاک یا 100افراد پر وہی ظلم کیا گیا۔ ان المناک واقعات میں کانگریسیوں کا کردار انتہائی ناروا، تعصب و فرقہ پرستی سے بھرپور تھا۔ سیکڑوں مسلم عہدیداروں کو انتظامیہ نے بلاوجہ تنزلی، معطلی برطرفی اور گرفتاری سے دوچار کیا۔ سندر لال کمیٹی کی سفارشات پر کبھی عمل نہیں کیا بلکہ سردار پٹیل نے اس کو عمداً سرد خانے میں ڈال دیا تھا۔ یہ کوتاہی بھی معذرت خواہی کی طالب ہے۔ بیرسٹر اے جی نورانی کی کتاب (ص361) The Destructionof Hyderabad
سقوط حیدرآباد کی خبریوپی کی گورنر سروجنی نائیڈو کو جب ایک خوش گوار تقریب موسیقی میں سنائی گئی تو سروجنی نائیڈو خوش ہونے کے بجائے زار قطار رونے لگیں رونے کی وجہ پوچھنے پر انہوں نے یہ بتائی کہ ’’میں اس لئے رو رہی ہوں کہ میرے بادشاہ کو یہ دن دیکھنا پڑا‘‘ راوی پروفیسر آل احمد سرور (ہماری زبان) علی گڑھ 12؍مارچ 1967ء ص؍169۔ ’’سقوط حیدرآباد مرتبہ ڈاکٹر عمر خالدی و ڈاکٹر معین الدین عقیل۔ اس طرح سروجنی نائیڈو نے 17؍ستمبر دن کو ’’یوم ماتم‘‘ثابت کیا تو بھلا ہندتووادیوں کا 17؍ستمبر کو ’’یوم نجات‘‘ کہنے کا کیا جواز ہے؟

«
»

حج کے نام پر ایرانڈیا کو سبسڈی دینا بند کیا جائے

بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے