ڈاکٹر سلیم خان
انڈیا بلاک کو 5 ریاستوں کے نتائج سے سبق لے کر درست حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت
انتخابات نے ثابت کردیا کہ جب تبدیلی کی آندھی چلتی ہے تو اس کے آگے کچھ بھی نہیں ٹک پاتا
سیاست کی بساط پر ابھی حال میں سیمی فائنل کے پانچ میچ کھیلے گئے۔ ان میں سے تین بی جے پی نے جیت لیے ،ایک کانگریس اور ایک ایم زیڈ پی نامی علاقائی جماعت کےکھاتے میں چلا گیا ۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کے کمل نے کانگریس کے ہاتھ پر بلڈوزر چڑھا دیا لیکن عنقریب منعقد ہونے والاآئی سی سی ورلڈ کپ شاہد ہے کہ نریندر مودی اسٹیڈیم میں وزیر اعظم کی موجودگی کے باوجود ٹورنامنٹ کا ہر میچ جیتنے والی ہندوستانی ٹیم شکست فاش سے دوچار ہوگئی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صوبائی انتخابات میں بی جے پی کو ملنے والی کامیابی ہندوستانی کرکٹ ٹیم سے بہت کم ہے۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سیمی فائنل جیت جانا فائنل جیتنے کی گارنٹی نہیں ہے ۔ آسٹریلیا جیسی ٹیم جو ابتدائی دو میچ ہار گئی تھی سیمی فائنل اور فائنل بھی جیتی مگر کاغذ پر سب سے زیادہ طاقتور نظر آنے والے ہندوستان کے ساتھ ایسا نہیں ہوسکا۔ اگلے سال فائنل میں کون پنوتی ٹھہرے گا اور کس کی منوتی پوری ہوگی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔اس لیے بی جے پی کو اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے اور انڈیا الائنس کو بھی حوصلے کے ساتھ جدوجہد کرتے رہنا چاہیے۔
کرکٹ کی طرح سیاست کو بھی اعدادو شمار کے علاوہ مدعوں کی مدد سے سمجھا جاتا ہے ۔اس حقیقت کو تسلیم کرنا ناگزیر ہے کہ بی جے پی کی کامیابی میں وزیر اعظم کے چہرے نے سب سے بڑا کردار ادا کیا ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شمالی ہندوستان میں راہل گاندھی عوام کو متاثر کرنے میں نریندر مودی سے پچھڑ گئے جبکہ تلنگانہ میں انہوں نے اپنے حریف کو مات دے دی لیکن ایک اور تین کا فرق معمولی نہیں ہے ۔ بی جے پی نے اس بار وزیر اعلیٰ کا کوئی چہرا پیش نہیں کیا بلکہ مودی کے نام پر ووٹ مانگا۔ وزیر اعظم نے ان تین صوبوں میں اگست سے لے کر انتخاب ہونے تک جملہ 42 ضلعوں میں ریلی یا دیگر پروگرام کیے۔ ایک اندازے کے مطابق وزیراعظم کی کوششوں سے راجستھان میں بی جے پی کو 33 نشستوں کا فائدہ ہوا۔ مدھیہ پردیش میں اسے مودی جی کے دوروں کی مدد سے 24 نئی نشستیں ملیں اور چھتیس گڈھ کے اندر اس کو19 ؍ اضافی نشستوں پر کامیابی ملی۔
مدھیہ پردیش کی بات کریں جہاں بی جے پی کو دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل ہوئی کیو نکہ اس کے ووٹ کا تناسب 7.53 فیصد بڑھ گیا۔ اس طرح جملہ 230 نشستوں میں سے 163 پر کمل کھل گیا۔ یہ تعداد 2018 کی بہ نسبت 54 زیادہ ہے۔ کانگریس کے ووٹ شیئر میں صرف 0.49فیصد کی کمی واقع ہوئی مگر اس کےنشستوں کی تعداد114 سے گھٹ کر 66 پر آگئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سماج وادی پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی ، عام آدمی پارٹی کا سوپڑا صاف ہوگیا۔ ان سب کے ووٹ بی جے پی کی جھولی میں چلے گئے اور یہ صرف اور کانگریسی رہنما کمل ناتھ کی رعونت کے سبب ہوا۔دیگر جماعتوں میں سے سماج وادی پارٹی اور عام آدمی پارٹی تو خیر انڈیا محاذ میں شامل ہیں۔ کانگریس اگر دل بڑا کرکے بہوجن سماج کی سیٹ پر اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرتی تو دوسرے سارے حلقہ ہائے انتخاب میں ان پارٹیوں کے ووٹ کانگریس کی جھولی میں آجاتےاور یہ فرق کم ہوجاتا۔
ممبئی کےبعد بھوپال میں انڈیا الائنس کا اگلا اجلاس طے ہوا تھا ۔ وہ تمام جماعتوں کو متحد کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرسکتا تھا مگر کمل ناتھ کی اکڑ نے اسے منسوخ کروا دیا ۔ وہ چاہتے تھے کہ اپنے بل پر کامیابی درج کرائیں اور انڈیا الائنس میں پارٹی کا قد بڑھائیں لیکن الٹا ہوگیا ۔ ایسے میں ہندی زبان کا محاورہ یاد آتا ہے ’چوبے جی چلے تھے چھبے بننے مگر دوبے بن کر لوٹ آئے۔ کمل ناتھ کانگریس کے بڑے رہنما ہیں ،مرکزی وزیر رہے ہیں اور دلی کے اندر بڑے بارسوخ مانے جاتے ہیں۔ اس بار مدھیہ پردیش کے پانچ امیر ترین امیدواروں کی فہرست میں چار تو خیر بی جے پی والے تھے لیکن ان کا نام بھی تیسرے نمبر پر موجود تھا ۔ اپنے ذاتی ہوائی جہاز سے چلنے والے کمل ناتھ زمینی رہنما نہیں ہیں۔ کوئی فرد یا جماعت جب بہت عرصے تک اقتدار میں رہے تو اس کی مخصوص زمینداری کی نفسیات بن جاتی ہے۔ بی جے پی میں وہ ابھی پروان چڑھ رہی ہے مگر کانگریس میں پہلے سے موجودہے۔ ایسے لوگوں پر بہت زیادہ دباو ہوتو یہ سرمایہ دارانہ ذہنیت عارضی طور پر دب جاتی ہے مگر اقتدار حاصل ہوجائے بلکہ امکانات روشن ہوجائیں تب بھی وہ غائب ہوجاتی ہے ۔ شمالی ریاستوں میں کانگریس کے ساتھ یہی ہوا۔ وہ اگر انڈیا الائنس کے حصے داروں کا احترام کرتی تو نہ ووٹ کے تناسب میں اتنا بڑا فرق اور نشستوں کی تعداد میں ایسی خلیج ہوتی لیکن اب تو جو ہونا تھا سو ہوچکا اس لیے پچھتانے سے کچھ حاصل نہیں آگے خیال رکھا جائے تو یہ کافی ہے۔
عام لوگوں کے اندر پہلے سے منتخب شدہ ارکان اسمبلی اور وزراء کے تئیں غم و غصہ ہوتا ہے ۔اس کے اظہار کا بہترین موقع انتخاب فراہم کرتے ہیں۔بی جے پی چونکہ ایم پی کے اندر اقتدار میں تھی اس لیے اس سے توقعات زیادہ تھیں۔ اس کے جملہ 99؍ ارکان اسمبلی میں سے 27 امیدوار اور وزراءمیں سے 12 امیدوار انتخاب ہار گئے۔ان بد قسمت لوگوں میں ریاستی وزیر داخلہ اور کٹر ہندوتوا شبیہ کے حامل نروتم مشرا بھی شامل ہیں ۔ انہوں نے اپنی کامیابی پر ہیمامالنی کو نچوانے کا اعلان کردیا تھا لیکن بیچارے خود 7
جواب دیں