یہ حقیقت بھی ہے کہ صلیب اور ہلال کے پرچم کی قیادت میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے بیچ نفرت اور دشمنی کی کوئی تاریخی وجہ نہیں رہی ہے ،بلکہ رحم اور ہمدردی کے معاملے میں نصاریٰ کے ساتھ تعلقات میں حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی کے کردار اور انصاف پسندی کو سنگ میل کا درجہ قراردیا جاسکتا ہے ۔قرآن بھی کہتا ہے کہ ’’تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤگے اور ایمان لانے والوں کیلئے دوستی میں قریب ان لوگوں کو پاؤگے جنہوں نے کہا ہم نصاریٰ ہیں ۔یہ اس وجہ سے ہے کہ ان میں عبادت گذار عالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور ان میں غرور نفس نہیں ہے‘‘سورہ المائدہ ،آیت 80 ۔اس کے برعکس یہودیوں کی طرف سے مسلمانوں کے تئیں دوستی اور ہمدردی کے جذبات کی کوئی تاریخی مثال نہیں ملتی ۔جبکہ تاریخ کے مشکل اوقات میں جب یہ لوگ عیسائی حکمرانوں کی طرف سے قتل کئے جارہے تھے تو اس وقت یہ مسلم حکمراں ہی تھے جنہوں نے انسانیت کی بنیاد پر انہیں اپنے علاقوں میں پناہ دی اس کے باوجود یہ قوم مسلمانوں کی دوست اور احسان مند نہیں رہی یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے۔
قوم یہود نے دنیا پر ایک طویل عرصے تک حکومت کی ہے ۔مگر جب عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد انہیں اپنے اقتدار کیلئے خطرہ لاحق ہوا تو انہوں نے اس رسول کو ہی (یہودی اور عیسائی عقیدوں کے مطابق)سولی پر چڑھادیا اور ان کے ساتھیوں کو پہاڑی غاروں میں پناہ لینی پڑی جو بعد میں اصحاب کہف کہلائے۔بالآخر عیسائی غالب ہوئے اور انہوں نے اس مغضوب قوم کو قتل کرنا شروع کردیا۔ایسے میں توریت کی پیشن گوئی کے مطابق انہوں نے اپنے نجات کی آخری امید نبی آخرالزماں ﷺکی بعثت پر مرکوز کردی۔لیکن ان کا نسلی غرور ان کے سد راہ ہوا اور وہ پھر در بدر کی ٹھوکریں کھانے لگے ۔اتفاق سے اسپین ،بغداد ہندوستان اور ترکی میں مسلم حکمرانوں کی کمزورپڑتی ہوئی گرفت کے بعد انہوں نے اپنی گمشدہ امید اور خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنا شروع کردیا۔ اکثر مورخین اور تبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایک طرف مسلسل مسلم حکومتوں کے زوال کے بعد جہاں یہودیوں کو اپنا خواب سچ ہوتا ہوا نظر آنے لگا تو دوسری طرف یوروپ میں رائج خاندانی اور مذہبی حکومتوں میں ان کیلئے آزادانہ زندگی گزارنا مشکل تھا ۔یہ لوگ اسی وقت اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے تھے جب وہ عیسائی سلطنتوں میں بھی بغاوت اور پھوٹ کا ماحول پیدا کردیں۔صہیونی حکماء نے اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ایک خاص پروٹوکول اور منصوبہ تیار کیا اور اس پر باقاعدہ پابندی سے عمل کرتے رہے۔صہیونی حکماء کے نویں پروٹوکول میں ہے کہ ہم نے غیر یہودیوں کو گمراہ کرنے اور فساد میں مبتلاء کرنے کیلئے ان کے دینی عقائد اور اخلاقی اصول کے منافی ایسے افکار و نظریات میں مبتلاء کردیا ہے جو انہیں شراب اور شباب کا عادی بنادے ۔تیرہویں پروٹوکول میں ہے کہ ہم نے قوموں کو مختلف قسم کے تفریحی فنون لطیف کھیل کود اور جنسی بے راہ روی کی لعنت میں اس طرح مبتلاء کردیا ہے کہ انہیں ہمارے متعلق کوئی پالیسی اختیار کرنے کا موقع ہی نہ ملے ۔لوگ خود اپنی اس آزادی کیلئے حکومت اور سیاست سے دین کو جداکرنے کا مطالبہ کرنے لگیں گے۔یہودیوں کی اسی سازش اور بدنظمی کے سبب اٹھارہویں صدی میں جب فرانس میں افراتفری اور فساد کی کیفیت پیدا ہوئی تو 1789 میں نوجوان طبقہ آزادی ،انصاف اور مساوات کا نعرہ لیکر حکومت کے خلاف سڑکوں پر اتر آیا۔فرانس کے اس انقلاب میں یہودیوں نے اپنی دولت اور سرمائے کی طاقت سے جو کردار ادا کیا دنیا نے یہ سمجھاکہ خاندانی حکومت کے خلاف یہ عوام کا کی فطری بغاوت ہے ۔جبکہ یہودی سرمایہ داروں نے فرانسیسی انقلاب کے قائدین کو حکومت اور اقتدار تک پہنچانے کے عوض ریاست اسرائیل کے حق میں خفیہ عہد کروالیا تھا۔اسی انقلاب کے نتیجے میں نیپولین جیسے جنرل پیدا ہوئے جیسے کہ آج عبد الفتاح السیسی مصر کا حکمراں بنا ہو اہے۔یوروپ کا یہ پہلا جنرل تھا جس نے 1799 میں فوج کی قیادت سنبھالتے ہی یہ عہد کیا کہ وہ فلسطین کے’ حقیقی وارث‘ یہودیوں کیلئے ریاست اسرائیل کے قیام کا پابند رہے گا۔نیپولین اپنی زندگی میں تو خود اس وعدے کو پورا نہیں کرسکامگر یہودیوں نے فرانس کے اس انقلاب سے اپنے پہلے مرحلے کی جنگ ضرور جیت لی اور فرانسیسی حکومت میں کئی عہدے حاصل کرلئے۔اس دوران کارل مارکس ،فرائیڈ اور ڈارون جیسے مصنفین کے گمراہ کن نظریات یہودیوں کیلئے اور بھی فائدے مند ثابت ہوئے اور یوروپ مکمل طور پر ایک لادینی طرز سیاست کے عذاب میں قید ہوتا چلا گیا ۔یعنی وہ سارے خرافات اور خواہشات پر مبنی باطل نظریات کی تبلیغ جو خاندانی اور مذہبی طرز سیاست میں ناممکن تھی پہلے تو آمریت کے دور میں ممکن بنایا گیا ۔بعد میں انہیں آمروں اور ڈکٹیٹروں نے کمیونسٹ اور سوشلسٹ تحریک کے نام پر فرد کی بے لگام آزادی کو جائز قرار دیا ۔پھر لبرل جمہوریت میں تمام برائیوں اور بد کاریوں کو تجارت کا درجہ حاصل ہو گیا اور یہ برائیاں بھی انسان کی ضرورت میں شامل ہو گئیں اور ہم دیکھ بھی سکتے ہیں کہ اسی فرانس میں عورتوں کو لباس اتارنے کا پیسہ دیا جاتا ہے اور جسم ڈھکنے پر جرمانہ ادا کرنا پڑرہا ہے ۔
یہودیوں کیلئے یوروپ کے بعد آخری معرکہ ترکی سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ رہ گیا ۔ جو انہوں نے بیسویں صدی کے اول میں اسی آزادی ،انصاف اور مساوات کے نعروں کے ساتھ حاصل کرلیا ۔یعنی فرانس کے جس انقلاب کو نیپولین نے زینت بخشی ترکی میں مصطفیٰ کمال پاشا جیسے لبرل قسم کے فوجی جنرلوں نے اپنا کمال دکھایا ۔ اس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودیوں نے فرانس اور برطانیہ کی مدد سے جب فلسطین میں اپنی حکومت کا اعلان کیا تو روئے زمین پر انہیں روکنے والی مسلمانوں کی کوئی مضبوط سلطنت اور خلافت موجود نہیں تھی۔ ڈاکٹر اسرار عالم نے اپنی کتاب ’دجال اکبر ‘میں لکھا ہے کہ اکیسویں صدی میں اسلامی بیداری کے سبب لبرل جمہوری سیاست کا وجود خطرہ میں پڑچکا ہے یہ ناکام ہو گئی تو خود اسرائیل کا اپنا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔خود اسرائیلی دانشوروں کو بھی پتہ ہے کہ یوروپ کے موجودہ سیاسی نظام کو اگر کوئی چیلنج دے سکتا ہے تو وہ صرف اسلام ہے جو اپنے آپ میں ایک مکمل نظام حیات کی نمائندگی کرتا ہے ۔شاید اسی لئے صہیونی دانشور اور سیاستداں اسلام کے نام پر اٹھنے والی کسی بھی سیاسی بیداری سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس تحریک کو بدنام کرنے اور ان کے بڑھتے قدم کو روکنے کیلئے جھوٹ فریب اور مکاری کے ہر ممکن حربے کا استعمال کیا جائے ۔ہم دیکھ بھی سکتے ہیں کہ ایران کے اسلامی انقلاب ،افغانستان کی طالبانی تحریک ،ترکی میں طیب ارودگان کی اسلام پسند سیاسی جماعت کی مقبولیت اور مصر میں اخوان کی جد وجہد نے صہیونی نیو ورلڈ آرڈر کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔اسرائیل اور قوم یہود کی مشکل یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دماغ اور سرمائے کی طاقت سے پوری دنیا کو تو اپنے شکنجے میں قید کرلیا مگر ان کے اطراف میں ترکیوں ،بغدادیوں اور اخوانیوں کا گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے ۔
اب 2014 میں عراق اور شام میں ایک تحریک داعش کی کامیابی سے ان کے ہوش اڑچکے ہیں۔اسرائیلی اب اپنی ہاری ہوئی جنگ کو ایران ،سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے آمروں کی مدد سے جیتنا چاہتا ہے۔ایران نے توہندوستان وغیرہ میں کانفرنس منعقد کرکے سوشل میڈیا اور اپنے زرخرید صحافیوں اور دانشوروں کی مدد سے اسلامک اسٹیٹ کو بدنام کرنے کی وہی تمام حرکتیں شروع کردی ہیں جو یہودیوں کے پروٹوکول میں شامل ہے ۔ سعودی علماء جنہوں نے اسرائیل اور ظالم السیسی کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں دیا اپنے حکمرانوں کے دباؤ میں داعش کو قاتل اور فسادی ہونے کا فتویٰ جاری کیا ہے۔اسرائیل تو بہر حال اپنے نظریے کی جنگ لڑ رہا ہے اور وہ اپنے اس دین کی حفاظت کیلئے ایماندار بھی ہے ۔سوال یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے حکمراں اور ان کے علماء کس دین کی حفاظت کر رہے ہیں۔کیا یہ لوگ ایک بار پھر اسرائیل کیلئے نیپولین ،کارل مارکس،فرائیڈ اور مصطفیٰ کمال پاشا کا کردار نہیں ادا کررہے ہیں؟اللہ رحم کرے اگر انہیں حالات میں مہدی اور عیسیٰ علیہم السلام کا نزول ہوتا ہے تو یہ لوگ ان کے خلاف بھی فتویٰ صادر کردیں گے اور ممکن ہے کہ دجال کی فوج کے حمایتی قرار پائیں!
جواب دیں