اس پر عالمی ردعمل توقعات کے عین مطابق ہے۔ امریکا ، برطانیہ اور فرانس نے نمائشی طور پر اس کی مذمت کردی ہے جبکہ عرب ممالک نے اس بہیمیت کو جائز قرار دیا ہے۔ اندازہ ہے کہ امریکا و مغربی ممالک مصر کی امداد ایک ہاتھ سے روک دیں گے تو دوسری طرف اپنی سیٹلائٹ عرب ریاستوں کے ذریعے اس سے زیادہ مصری فوجی حکومت کو نواز دیں گے۔
جب سے مرسی کو بزور قوت ایوان اقتدار سے اتار کر داخل زنداں کیا گیا ہے، ایک سوال شدت سے سر اٹھاتا ہے کہ آخر یہ عبدالفتاح السیسی ہے کون؟
محمد محمد مرسی عیسی آیات جنہیں عرف عام میں محمد مرسی یا صرف مرسی کے نام سے جانا جاتا ہے ، جون 2012 میں ایک منتخب صدر کی حیثیت سے جب ایوان اقتدار میں داخل ہوئے تھے ، اس وقت ان کے ذہن میں ایک بات بالکل واضح تھی اور وہ یہ کہ انہیں مصر سے فوجی آمریت کو یکسر جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔انہوں نے اس ایجنڈے پر فوری طور پر عمل بھی کیا اور اپنے انتخاب کے صرف دو ماہ بعد ہی اگست میں 78 برس کے عمر رسیدہ طاقتور جنرل فیلڈ مارشل محمد حسین طنطاوی کو بہ جبر ریٹائر کرکے گھر بھیج دیا۔ طنطاوی دو عشرے تک مصر کے وزیر دفاع اور مصری فوج کے سربراہ کے منصب پر فائز رہے تھے۔ طنطاوی کو گھر بھیجنا آسان تھا مگر اس کے جانشین کا انتخاب مشکل تھا۔ تاہم مرسی کو اس وقت یہ انتخاب بہت آسان لگا اور انہوں نے سب سے زیادہ جونیئر 58 سالہ عبدالفتاح السیسی کومصر کا وزیر دفاع اور فوج کا سربراہ مقرر کردیا۔ السیسی کو مصری فوج کا سربراہ بنانے میں کس کی رائے شامل تھی یا یہ کس بیرونی قوت کا اشارہ نما حکم تھا، اس بارے میں ابھی کچھ زیادہ واضح نہیں۔ مگر یہ ضرور کہا گیا اور تنخواہ دار بین الاقوامی میڈیا میں ہی یہ طوفان مچایا گیا کہ السیسی کی صورت میں پوری مصری فوج کی کمانڈ اخوان کے ایک کارکن کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ اس سے اخوان اور حماس کے کارکنان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ جیسے ہی السیسی کا انتخاب عمل میں آیا ، ڈرم پیٹا گیا کہ السیسی شروع سے ہی اسلامی خیالات کے حامی رہے ہیں۔ وہ ایک ماڈریٹ مسلمان سے زیادہ کنزرویٹو ہیں۔ حتی کہ ان کی اہلیہ صرف اسکارف ہی نہیں لیتیں بلکہ چہرے کا بھی مکمل پردہ کرتی ہیں۔
مگر جب مرسی السیسی کا انتخاب کررہے تھے یا کسی اشارتی حکم پر السیسی کی تعیناتی کررہے تھے ، اگر اس وقت ان کا کوئی خیرخواہ ان کو پاکستانی فوجی طالع آزماں کے بارے میں بتادیتا تو شائد وہ اس تعیناتی سے رک جاتے۔ ضیا الحق اور پرویز مشرف کی باتیں کوئی ماضی بعید کا قصہ نہیں ہے۔ ان دونوں حضرات کا انتخاب کرنے والوں کا بھی یہی خیال تھا کہ یہ دونوں برخوردار ہیں اور چونکہ بہت سارے سینئرز پر ان کو فوقیت دے کر آٹ آف ٹرن ترقی دی گئی ہے، اس لیے یہ احسان فراموشی سے گریز کریں گے۔ مگر ہوا کیا۔ ضیا الحق نے اپنے مربی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا کر ہی دم لیا اور پرویز مشرف گو کہ اس کوشش میں کامیاب تو نہیں ہوسکے مگر انہوں نے نواز شریف کو جلاوطن تو کر ہی دیا۔
اصل میں انتخاب کی غلطی نہ تو بھٹو نے کی تھی، نہ نواز شریف نے اور نہ ہی مرسی نے۔ سب سے پہلے پاکستانی فوج کے ماڈل پر نظر ڈالتے ہیں۔ پاکستانی فوج میں کرنل تک تو ہر ہما شما پہنچ ہی جاتا ہے۔ یہاں سے سلیکشن شروع ہوتی ہے۔ترقی میں تین فیکٹر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سب سے پہلا فیکٹر برادریاں ہیں۔ یہ برادریاں اپنے لوگوں کو سلیکشن بورڈ میں پروموشن کروانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دوسرے نمبر پر اہم کردار خواتین ادا کرتی ہیں۔ اب آپ یہ مت کہیے گا کہ یہ دوسری افواج میں ہوتا ہے اورپاکستان کی فوج اسلامی ملک کی فوج ہے۔ جناب حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کے مندرجات دیکھ لیجئے۔ مشرف دور کی مشتبہ ترقیاں تو دیکھیے۔ تیسرا اور سب سے اہم کردار امریکی سفارتخانہ ادا کرتا ہے۔ امریکی سفارتخانہ کی منظوری کے بغیر میجر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل اور پھر مکمل جنرل تک کی ترقی عملا ناممکن ہے۔
اب جب پورے کا پورا گروپ ہی نامزد کردہ ہو تو پھر اس میں کسی کا بھی انتخاب کرلیں ۔ ہونا وہی ہوتا ہے جو ضیا الحق نے کیا ، جو پرویز مشرف نے کیا اور مصر میں السیسی نے کیا۔اس السیسی کا بیک گرانڈ تو دیکھیں۔ کیلیفورنیا میں واقع نیول پوسٹ گریجویٹ اسکول میں مصری فوج کا ماہر رابرٹ اسپرنگ بورگ کہتا ہے کہ السیسی کو شروع سے ہی انتہائی احتیاط کے ساتھ لیڈرشپ کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ فوج کی کمانڈ، انٹیلی جنس اور سفارتی برانچوں میں کام کے بعد السیسی کسی بھی اہم کردار کو ادا کرنے کے لئے بہترین انتخاب تھا۔اس کی دیگر پوسٹنگ میں ریاض، سعودی عرب میں بہ طوردفاعی اتاشی پوسٹنگ بہت اہم تھی۔ اس کے علاوہ وہ اسرائیل کی سرحد کے ساتھ ساتھ سینیائی کے علاقے میں اور مصر کے دوسرے بڑے شہر اور شمالی فوجی علاقے اسکندریہ کی کمانڈ کا سربراہ رہا تھا۔ یہاں پر اس کو اسرائیلیوں سے ربط ضبط بڑھانے کا موقع ملا۔
اسپرنگ بورگ کہتا ہے کہ السیسی کا شروع سے ہی اسلامی امیج ابھارا گیا۔ اس کے باوجود وہ امریکی حلقوں کا محبوب تھا۔سیسی کی پوری تربیت یوکے جوائنٹ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج میں ہوئی تھی اور اس نے ماسٹر امریکی ریاست پنسلوانیا کے آرمی وار کالج سے کیا تھا۔اسٹیو گیراس ایک ریٹائرڈ کرنل ہے اور امریکی کالج میں سیسی کافیکلٹی ایڈوائزر تھا۔ وہ کہتا ہے کہ سیسی ہمیشہ سے امریکا کے لیے کھلے دل کا اور مصر کے مستقبل کے بارے میں فکرمند رہتا تھا۔
اب سمجھ میں آتا ہے کہ عالمی سازش کار کس طرح اپنے مہرے ہر وقت تیار رکھتے ہیں اور کس کس نقاب میں اور کس کس کردار میں ان کو رکھا جاتا ہے تاکہ جس وقت بھی ان کی ضرورت پڑے ، ان سے بروقت کام لیا جاسکے۔ السیسی نے مصر میں ایک منتخب صدر کے ساتھ جو کچھ کیا، رابعہ العدویہ میں جو کچھ کیا اور مزید جو کچھ کرنے جارہا ہے، اس میں اس کا کچھ بھی قصور نہیں ہے ۔ وہ تو ایک کٹھ پتلی ہے جو اپنے آقاں کے اشارے پر ناچ رہی ہے۔ یہی انگلیاں جو السیسی کی ڈوریں ہلارہی ہیں، عرب ریاستوں کے سربراہوں کی بھی ڈوریاں ہلارہی ہیں۔ دیکھئے تو کتنا زبردست ڈراما ہے مگر عبرت انگیز اور سبق حاصل کرنے والوں کے لئے سبق آموز بھی۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔
جواب دیں