سیکولرازم کا اِحیا ہی سیکولر پارٹیوں کی بقا کا ضامن

ظہیر الدین صدیقی اورنگ آباد 

بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ پورے ملک میں فسطائیت کا دور دورہ ہے۔ فسطائی طاقتیں ملک کی گلی کوچوں سے لیکر دارالحکومت تک ننگاناچ ناچ رہی ہیں۔ ہجومی تشدد کی ایک لہر پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے جو بھی اس کی زد میں آتا ہے بے قصور مارا جاتا ہے، سوامی تو سوامی اب تو پولس والے بھی ا س ہجومی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں۔ اقلیتوں کے علاوہ دیگر اقوام میں بھی ایک عجیب سی بے چینی اور خوف کا ماحول ہے۔لفظ’ سیکولرازم‘کو انتہائی مکاری کے ساتھ ایک مخصوص طبقہ سے جوڑ کر اس قدر بدنام کیا گیا کہ وہ یا تو ایک حقیر سی گالی بن گیا یا پھراپنی معنویت کھو بیٹھا ۔ عوام کی ترجمانی کرنے والی سیاسی جماعتوں نے بھی شائد یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ان کا مستقبل ہندتوؤ نظریات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں پنہا ں ہے۔چنانچہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں اپنی سیکولر شبیہ سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہندوتوؤ وادی بنا کر پیش کرنے میں لگ گئیں ہیں۔سیکولر اقدار اور روایات سے کھلے عام انحراف کرکے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے کے ہم بھی ہندوتوؤ کے رکھوالے ہیں۔ جب کہ ہندوتوؤ کے متوالوں پر پہلے ہی فسطائی طاقتیں اپنا قبضہ جما چکی ہیں۔ اب ہندوتوؤ کے نام پر کسی دوسری پارٹی کو اقتدار تک پہنچنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔فسطائی طاقتوں کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ہندتوؤ وادی افراد اور تنظیموں کو اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آرہی ہے ان کے اعصاب پر ہندوتوؤ کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ایسا لگ رہا ہیکہ بھارت کی اکثریت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اس ملک کو کسی بھی طرح ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ہے۔لیکن کیا صورت حال واقعی ایسی ہے؟ یا صرف چند مٹھی بھر افراد اور تنظیمیں ہیں جو حکومت کی مجرمانہ چشم پوشی کافائدہ اٹھا کر عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہیں کہ اب اس ملک میں وہی کچھ ہوگا جو ہم چاہیں گے۔ یا حکومت مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد اور تنظیموں کو کھلی چھوٹ دیکر اکثریت کو یہ پیغام دینا چاہ رہی ہے کہ بھارت اب ہندو راشٹر بن گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مذکورہ دونوں باتیں سچ ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج بھی ملک کی اکثریت نے فسطائی نظریات کو قبول نہیں کیا ہے۔ گذشتہ چار سالوں میں منعقد ہونے والے انتخابات کے نتائج نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ ملک کی اکثریت آ ج بھی ملک میں امن و شانتی اور سرو دھرم سمبھاؤ کے عقیدے پر یقین رکھتی ہے۔ ہندوتوؤ کے ایجنڈے پر کام کرنے ، اور نفرت کی سیاست کو ہر سطح پر فروغ دینے کے باوجودفسطائی طاقتیں ۳۱ سے ۳۸ فیصد سے زیادہ رائے دہندگان کو اپنی طرف راغب کرنے میں کا میاب نہیں ہو سکیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ملک کی ۶۲ سے ۶۹ فیصد عوام اب بھی سیکولر نظریات پر یقین رکھتی ہے۔ ضرورت ہے تو صرف ا س بات کی کہ سیکولر نظریات پر یقین رکھنے والوں کا اعتماد بحال کیا جائے اور انہیں انتشار سے بچا کر متحد کیا جائے۔اور یہ کام ملک کی سیکولر جماعتوں کو ہی متحد ہوکر کرنا ہوگا۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ گذشتہ انتخابات میں سیکولر جماعتوں کو شکست اس لئے نہیں ہوئی کہ وہ سیکولر کردار کی پاسدار اور ہندتوؤ نظریات کی مخالف تھیں بلکہ اُنہیں یہ ہزیمت اس لئے اٹھانی پڑی کہ انہوں نے سیکولر عوام کا اعتماد کھو دیا تھا، اور سیکولر ووٹ منتشر ہو گیا۔ انہیں اپنی دوغلی پالیسیوں کی وجہہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں اپنی نا عاقبت اندیشی اور عدم منصوبہ بندی کی وجہ سے یہ دن دیکھنا پڑا، انہیں اپنی خاموشی اور مجرمانہ غفلت کی وجہہ سے سرنگوں ہونا پڑا، اگر اقتدار میں رہتے فسطائی طاقتوں کا سر کچل دیتے تو یہ سپولہ آج ناگ بن کر انہیں نہ ڈستا۔اقتدار کے نشہ میں چور سیکولر جماعتیں یہ سمجھ ہی نہیں پائی کہ ان کی صفوں میں موجود کالی بھیڑیں جو نفرت کا زہر عوام میں پھیلا رہی ہیں ایک دن وہ زہر اُن کے لئے ہی سمّ قاتل ثابت ہوگا۔ اقتدار کے لئے کبھی فسطائی طاقتوں سے سانٹھ گانٹھ، کبھی نرم ہندوتوؤکا الاپ، اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی، دلتوں سے دوری، اکثریت میں عدم اعتماد کے چلتے گھپلوں اور گھوٹالوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور سنگھی ذہنیت جو اسی موقع کی تاک میں تھی اُسے یہ موقع مل گیا کہ گرم لوہے پر ہتوڑا مارا جائے، چنانچہ انہوں نے صحیح وقت پر صحیح نشانہ سادھا اور تیر نشانے پر لگ گیا۔ سیکولر اقدار کے خاتمہ کے لئے کوئی اور نہیں خود سیکولر جماعتیں ذمہ دار ہیں۔ وہ اگر ما قبل آزادی کی سیکولر روایات پر قائم رہتیں ، فرقہ پرستوں کو وقت رہتے منہ توڑ جواب دیتیں اور سیکولر اقدار پر عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنے کی کما حقہ کوشش کرتیں تو یہ ممکن نہیں تھا کہ ملک میں فرقہ پرستوں کا راج ہوتا۔ سماجی ترقی اور انسانی ہمدردی کے جذبوں سے عاری سماج واد، راشٹر واد، اشتراکیت ،علاقائیت اور غیر جانبداری کے کھوکلے نعروں سے عوام کو مزید بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔اب ضرورت ہے کہ ان نعروں کو حقیقی معنی عطاء کئے جائیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جس شدت سے لفظ سیکولر کو بدنام کیا گیا سیکولر جماعتیں اسی شدت سے اس بات کا اعلان کریں کہ ہاں ہم سیکولر ہیں، ہم مذہبی روادارہیں،ہم مذہب اور ملت کے نام پر کوئی تفریق نہیں کرتے، ہم مذہب کے نام پر سیاست نہیں کرتے، نہ کسی مذہب کی حمایت کرتے ہیں اور نہ ہی کسی مذہب کی مخالفت، اور ہم اس بات کے لئے آئینی طور پر پابند ہیں کیوں کہ ہمارا آئین مذہبی آزادی بھارت کے ہر شہری کا بنیادی حق تسلیم کرتا ہے۔یہ کام تو بہت پہلے ہونا چاہئے تھا لیکن اقتدار پر قابض حکمرانوں کو کبھی اس بات کا ادراک ہی نہیں ہوا کہ ملک کے سیکولر ڈھانچہ کو فرقہ پرستی کی دیمک اندر ہی اندر کھوکلا کر رہی ہے، اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ آج سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے آپ کو سیکولر کہلانے سے بچنے اور خود کو ہندو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ۔صرف دلتوں کے گھرقیام و طعام سے کوئی سیکولر نہیں ہو جاتا، صرف پانچ ستارہ ہوٹل میں افطار پارٹی کرنے اور عید کی مبارکباد دینے سے ، صرف درگاہوں پرچادر چڑھانے سے، صرف گرودوارہ میں ماتھا ٹیکنے سے ،صرف چرچ میں صلیب کو بوسہ دینے سے کوئی سیکولر نہیں ہو جاتابلکہ اس کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا پڑ تا ہے کہ وہ سیکولر نظریات کا حامل ہے اور تمام مذاہب کے ماننے والے اس کی نظر میں اس ملک کے باشندے اور یکساں شہری ہیں۔ اسی طرح مٹھوں اور مندروں میں حاضری دے کر ماتھے پر ٹیکہ لگانے سے کوئی پارسی ہندو نہیں بن سکتا۔پارسی پارسی ہی رہے گا، عیسائی عیسائی ہی رہے گا، سکھ سکھ ہی رہیگا۔ اس لئے سیاسی قائدین کے لئے بہتر یہی ہوگا کہ وہ ا پنی مذہبی شناخت ظاہر کرنے او رہندوتوؤ سے نسبت ثابت کرنے کے بجائے خو د کو سیکولر ہی رہنے دیں اور اس بات کا فخریہ اعلان کریں کہ ہاں ہم سیکولر ہیں۔’’ گرؤ سے کہو کہ ہم سیکولر ہیں‘‘ اور سیکولر اقدار کی پاسداری ہماری آئینی ذمہ داری ہے۔ اُن دوتہائی سیکولر رائے دہندگان کے اعتماد کو بحال کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے فرقہ پرستی اور ہندوتوؤ نظریات کے خلاف ووٹ دیکر یہ ثابت کر دیا کہ وہ بھارت کے سیکولر آئین میں یقین رکھتے ہیں۔ سیکولر جماعتوں کو چاہئے کہ وہ سیکولرازم کے احیاء اور بقاء کے لئے با ضابطہ ایک ملک گیر مہم چلائیں اور عوام کودو ٹوک انداز میں یہ بتلائے کہ ملک اور قوم کی ترقی مذہبی منافرت میں نہیں بلکہ سیکولر اقدار میں پوشیدہ ہے۔ سیکولرازم کوئی گالی نہیں بلکہ امن ، شانتی، بھائی چارگی اورنتیجتاً ملک کی ترقی کا لازمی جُز ہے۔سیکولرازم اس ملک کی پہچان ہے، انیکتا میں ایکتا، تکثیریت میں وحدانیت اس ملک کی شان ہے۔ کیونکہ اس ملک کے اجزائے ترکیبی کچھ ایسے ہیں کہ یہاں کسی ایک مذہب کو برتری تو حاصل ہو سکتی ہے لیکن پورے ملک میں صرف ایک ہی مذہب ہو یہ ممکن نہیں۔ سکھ، جین، بودھ، دلت، لنگایت ، اور دیگر کئی مذاہب ہیں جو خود کو ہندو نہیں مانتے اس لئے اس ملک میں ہندو راج ( جو آزادی کے بعد سے ہی رو بہ عمل ہے )تو ہو سکتا ہے لیکن اس ملک کو ہندو راشٹر بنانا ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔اسی لئے وہ سیکولر جماعتیں جو اپنے آپ کوہندوتووادی بنانے کی فکر میں دن بدن کمزور ہوتی جارہے ہیں انہیں چاہئے کہ اپنی اصلاح کر لیں اور اپنے بنیادی سیکولر کردار پر لوٹ آئیں۔ ورنہ اس دوہری پالیسی نے جس طرح آپ کو حاشیے پر ڈال دیا بہت ممکن ہے کہ سیکولرازم اور ہندوتوؤ کے اس تذبذب کے چلتے آپ کا نام و نشان تاریخ کا حصہ بن جائے اور فسطائی طاقتیں پوری طرح سیکولرجماعتوں پر غالب آجائیں۔سیکولرازم کا احیاء اس لئے بھی ضروری ہے کہ جس طرح آگ سے آگ کو بھجایا نہیں جاسکتا اسی طرح فرقہ پرستی کو فرقہ پرستی سے ختم نہیں کیا جاسکتا، فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے ایک مخالف نظریہ کی ضرورت ہے جو سیکولرازم کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔اور چونکہ ابھی تک عوام کی اکثریت فرقہ پرستی کے خلاف ہے اس لئے اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ اگردیانت داری سے سیکولرازم کو فروغ دیا جائے تو فرقہ پرستی کو شکست دی جاسکتی ہے۔

مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
23؍ جولائی 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

«
»

مدینہ منورہ میں حجاج کرام کی آمد کا سلسلہ جاری

کانگریس پر ’’مسلم تشٹی کرن ‘‘کے الزام کی حقیقت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے