ذوالقرنین احمد
جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ ہندوستان میں اپنے مذہبی تشخص پر پوری طرح عمل کرنے میں آزاد ہوچکے ہیں۔ بقول علامہ اقبال ملا کو ہے ہند میں سجدے کی اجازت ، نادان یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ہے آزاد، کے مطابق مسلمانوں نے حد سے زیادہ اپنے آپ کو سیکولر ازم کا ٹھیکیدار بنا لیا۔ اور ہر وقت اپنے سیکولر ازم کو ثابت کرنے کیلے سیاسی و سماجی میدان کے زریعے اس حد تک گر گئے کہ مذہبی تشخص کا خیال تک دل میں نہیں آیا۔ جس کا خمیازہ آج اس نسل کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ صرف مسلم پرسنل لاء کے نفاذ ہونے کو یہ سمجھ لیا گیا کہ ہم پوری طرح سے شریعت پر عمل کرنے کیلے آزاد ہے۔ جبکہ اسکے علاوہ بھی مسلمانوں کو جمہوری حقوق سے محروم کردیا گیا۔ ریزورش کیلے ہندو ہونے کا بل پاس کیا گیا اور پھر اس میں سکھوں کے احتجاج کرنے پر ترمیم کرکے سکھوں کو اس ریزرویشن میں شامل کیا گیا۔ لیکن مسلمانوں کو ریزرویشن سےمحروم کردیا گیا جس دن کو آجتک مسلم سیاست دان سیاہ دن کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
آزادی کی جنگ میں سبھی کا خون شامل ہے لیکن اس جنگ میں شدت پیدا کرنے اور اس کو منظم کرنے میں علماء حق کا کردار قابل قدر ہے۔ جسے ہندوستان کی تاریخ سے مٹانے کی کوشش کی جاری ہے۔ اور جنگ آزادی کے مسلم شہداء کو نئی نسل کے ذہنوں سے صاف کردیا گیا۔ جھوٹی تاریخ اسکولی نصاب میں شامل کردی گئی۔ ایک بہت بڑا ذہین طبقہ مسلمانوں کے بیچ سے ملک کے دو لخت ہونے کی وجہ سے ہجرت کرگیا جو افراد اپنے حقوق اور مذہبی شعائر کی بقاء کیلے ببانگ دہل صدائے احتجاج بلند کرنے کی طاقت رکھتے تھے۔ اس وجہ سے جو مسلمان ملک میں بچے وہ صرف عوام بن کر رہ گئے۔ کچھ گنے چنے افراد حکومت کے عہدوں پر فائز ہوئے لیکن وہی سے مسلم قیادت کمزور کردی گئیں یا پھر نئی قیادت کو موقع ہی نہیں دیا گیا۔ پوری مسلم کمیونٹی کانگریس کے زیر سایا پلتی رہی لیکن اس سیاسی جماعت نے بھی سافٹ ہندوتوا کا کھیل کھیلا اور فرقہ پرست عناصر کی آبیاری کی۔ وہ فرقہ پرست آج اس قدر مضبوط ہوچکے ہیں کہ اپنے تقریباً سو سالہ منظم منصوبے کے تحت کوشش و جد وجہد کی وجہ ایک بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی جس نے ہر بڑے عہدے پر اپنے ہم نشینوں کو فائز کردیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں جو حالات آج بنے ہوئے ہیں وہ ایک فرقہ پرست جماعت کے اشارے پر ہورہے ہیں۔
مسلمانوں کو سیکولرازم کا خوف دیکھا کر اور انکے دلوں میں اسی محبت کو زبردستی داخل کرانے کیلے ان پر دیش دروھی کے جھوٹے الزامات عائد کیے گئے ملک غدار کہا گیا۔ اور اسی سیکولرزم کے وفا کے جنازے کو مسلمانوں نے اپنے کندھے پر ڈھونے کا ذمہ اٹھایا یہ ایک مجبوری بھی تھی جبکہ دیش آزاد ہونے کے بعد میں جو مسلمان یہاں پر رکے وہ اپنے پسند کے مطابق رکے ناکہ کسی کے کہنے پر۔ ہجرت کے دروازے کھلے ہونے کے باوجود مسلمانوں نے ہندوستان میں رہنا پسند کیا کیونکہ اس ملک کی آزادی میں ہمارے آبا و اجداد کا خون شامل ہے۔ لیکن مسلمانوں پر اس قدر خوف و ہراس طاری کیا گیا کہ ہر وقت ان سے دیش بھکتی کا ثبوت مانگا گیا۔ اور انکی دیش سے محبت کے مختلف پیمانے بنا دیے گئے ،چاہے پھر اس میں انکے حقوق کو کچل دیا گیا ہو ، یا انکے مذہبی تشخص پر ڈاکے ڈالے گئے ہو، یا ان کیلئے آزادی کے دائرے کو محدود کردیا گیا۔ انکے ساتھ غیر منصفانہ ظالمانہ برتاؤ کرنے حقوق کی پامالی اور غیر انسانی تشدد کرنے کے باوجود انکے دلوں میں عدالت عالیہ کوا تنا مقدس قرار دیا گیا کہ وہ اپنے مذہبی شعائر و تشخص، اپنی تہذیب و ثقافت کو بھی اسکے آگے ہیچ محسوس کرنے لگے اور اس خوف سے کے اس غیر منصفانہ فیصلوں کے خلاف احتجاج کرنے کی کوشش کرنے پر دیش دروھی قرار دیے جانے کے خوف سے عدالت عالیہ کو مقدم رکھنے پر مجبور کردیا گیا۔
جس میں مسلم قیادت کا بہت بڑا کردار رہا ہے، باربار بے وجہ اپنی دیش بھکتی کو اجاگر کرنے کا کام سیاسی مذہبی قیادت نے کیا۔ اور آج تک ان گناہوں کی سزا مسلمان بھگت رہے ہیں۔ کہ آج کی نام نہاد سیاسی سماجی قیادت پھر اپنے مذہبی شعائر کے خلاف غیر مذہبی رسومات کو انجام دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔ بھائی چارے اور قومی اتحاد کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ تم اپنے مذہبی شعائر و تشخص کو ہی سیکولرزم کی بھینٹ چڑھا دو۔ جبکہ قانون میں سبھی کو اپنے پرسنل لا پر چلنے کی آزادی دی گئی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ اس پر حملے اور ترامیم کی جارہی ہے۔ آج اگر مجبوری میں یا کسی کی دلجوئی کیلے آپ یہ کام انجام دے رہے ہیں تو کل آنے والے نسل تم سے دو نہیں چار قدم آگے ہوگی۔ موجودہ حالات تبدیلی کا اشارہ کر رہے ہیں اگر اب بھی غیروں کی اقتداء میں چلنے لگو گے اور غیروں کی قیادت کو تسلیم کرو گے۔ تو آنے والی نسل ایک طویل مدت کیلے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ جائے گی۔ آج ویسے بھی ہماری نوجوان نسل فکری ارتداد کے دہانے پر کھڑی ہوئی ہے۔ جو حرام کو حرام غلط کو غلط تسلیم کرنے کیلے راضی نہیں ہے۔ جو تعلیم کے اور آزادی نسواں کے نام پر مغربی تہذیب کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلمان جسے آزادی کے بعد سے مجبوری کہتے ہوئے جو وفا کا جنازہ ڈھوتے آئے ہیں انہوں نے اپنے آپ کو سیکولرزم کے سامنے سرینڈر کردیا ہے۔ یاد رکھیے جو قوم اپنے تشخص پر قائم نہیں رہتی ہے اور جو اپنی تہذیب کی حفاظت نہیں کرتی ہے وہ اپنی پہنچان ختم کر چکی ہوتی ہے۔ ہمارے لیے سب سے بڑھ کر اور مقدم شریعت اسلامی ہونی چاہیے اسکے آگے تمام دنیاوی قانون و مفادات ہیچ ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
۲۲ فروری ۲۰۲۰
جواب دیں