سزائے موت

افراد کو سزائے موت (پھانسی) کا حکم دیا ،ریاست میں پھیلے جرائم کی سرکوبی کی بجائے دہشت گردی کی آڑ لے کر جو حکومتیں موت کا حکم صادر کرتی ہیں وہ دورغ گوئی سے کام لیتی ہیں،معمولی جرائم کو دہشت گردی سے منسلک کرنا اور ناکردہ گناہ کی پاداش میں سزائے موت دینا انسانی حقوق کی پامالی ہے،معمولی جرائم میں ملوث افراد کو سدھرنے کا موقع فراہم کیا جانا چاہئے۔تنظیم کے مطابق گزشتہ سال دنیا بھر میں کم سے کم دو ہزار چار سو چھیاسٹھ افراد کو مختلف طریقوں سے سزائے موت دی گئی جو کہ دوہزار تیرہ کے اعداد و شمار کے مطابق کئی زیادہ ہے سزاؤں میں خاص طور پر مصر اور نائیجیریا میں اضافہ ہوا اور صورت حال سنگین تھی،ان دونوں ممالک نے بڑے پیمانے پر گیارہ سو ساٹھ افراد کو پھانسی دی ،مصر میں اسلام پسند اخوان المسلمون کے سیکڑوں حامیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیااور نائیجیریا میں درجنوں افراد کو پھانسی پر لٹکایا گیا،تنظیم کا کہنا ہے کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ کئی سالوں سے سزائے موت پر پابندیوں کے بعد دوبارہ یہ عمل شروع کر دیا گیا ہے پشاور میں دہشت گردی کے المناک واقعے میں ایک سو تیس سے زائد بے گناہ افرادکی اموات ہوئیں ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا اور دسمبر کے آخری ہفتے میں سات افراد کو پھانسی دی گئی،سنگاپور میں بھی دو سال کے وقفے کے بعد دوبارہ پھانسی دینے کا قانون نافذ العمل ہے،تنظیم نے مفصل رپورٹ میں بتایا کہ ایک طرف چین میں منفی مثال قائم ہوئی کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ سزائے موت چین میں دی جاتی ہے اور حکومتی اعداد وشمار کے علاوہ کتنے افراد کو کب اور کس جرم میں پھانسی دی جاتی ہے میڈیا کو اندھیرے میں رکھا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف امریکا میں سزائے موت کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ۔سرکاری رپورٹ کے مطابق رواں سال چھ سو سات افراد کو پھانسی دی گئی اور مختلف جرائم میں ملوث ایک سو اکہتر افراد اپنی موت کے منتظر ہیں،رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکا اور افریقی ممالک خاص طور پر مدغاسکر میں سزائے موت کے قانون کو ختم کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں،ایک دوسری رپورٹ میں بتایا گیا کہ چین کے علاوہ ایران ، سعودی عرب ، عراق اور امریکا میں سزائے موت کا رحجان ہے ، سرکاری رپورٹ کے مطابق ایران میں گزشتہ سال دو سو نوے افراد کو تختہ وار پر لٹکایا گیا، جبکہ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق پھانسی پانے والے افراد کی تعداد چار سو چون رجسٹرڈ کی گئی،سعودی عرب میں غیر ملکی باشندوں سمیت نوے افراد کے سر قلم کئے گئے، عراق میں اکسٹھ افراد کو پھانسی دی گئی اور امریکا میں پینتیس افراد کو گیس چیمبرز ،زہر اور انجیکشن دے کر موت کی نیند سلایا گیا 
تنظیم کے مطابق سزائے موت دینے کی وجوہات ڈکیتی ،منشیات،اقتصادی جرائم ،عصمت دری ، توہین رسالت ، جادو ٹونا اور دہشت گردی کے واقعات سر فہرست ہیں۔ادارے کا کہنا ہے معمولی جرائم میں ملوث افراد کو سزائے موت دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔
دنیا بھر میں روزانہ کئی ایسے ناقابل یقین واقعات پیش آتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے مثلاً سائنسی ایجادات، سپورٹس مقابلے ، تعلیمی ترقی،دھوکہ دہی،سیاسی و معاشی تبدیلیاں اور قتل وغارت گری کے علاوہ تقریباً ہر ریاست میں آگ کی طرح پھیلی دہشت گردی۔ دہشت گردی دو قسم کی ہوتی ہے ایک وہ جو نام نہاد طالبان یا نفسیاتی مریض بندوق اور دھماکوں سے کرتے ہیں اور دوسری وہ جو دنیا کی چند نام نہاد عالمی بزدل حکومتیں اور ان کے ان داتا زبردستی ترقی پذیر بالخصوص اسلامی ممالک کے سر تھوپ دیتے ہیں۔طالبان ٹائپ کی مختلف تنظیمیں سو پچاس بے گناہ افراد کو ناکردہ گناہ کی بھینٹ چڑھا کر موت کے منہ میں دھکیلنے کے بعد سینہ ٹھوک کے ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں کہ ہاں ہم نے دھماکہ کیا ہے جاؤ جو کرنا ہے کر لو۔دہشت گردی کی دوسری قسم ایک خاموش دھماکہ ہوتا ہے جس سے ساری ریاست اور قوم تباہ ہو جاتی ہے ۔عراق،افغانستان،پاکستان،شام، لبنان،مصر،لیبیا،اور براعظم افریقہ کے علاوہ مشرقی یورپ مثلاً سابقہ یوگو سلایہ وغیرہ کو کسی بندوق یا بمب سے تباہ نہیں کیا گیا،نہایت خاموشی ،رازداری اور سالہ سال کی مکمل پلاننگ کے بعد بڑی خاموشی سے سٹیپ بائی سٹیپ گھاؤ پہ گھاؤ لگا کر مرہم رکھا اور جب زخم بھرنے لگا تو پھر ایک اور وار کیا کہ نہ جینے دیں گے نہ مرنے دیں گے۔اسلامی ممالک بالخصوص ترقی پذیر ریاستیں جب تک خود مختار نہیں ہونگی،ریاست اور عوام کے تحفظ کیلئے ٹھوس لائحہ عمل تیار نہیں کریں گی،نام نہاد طالبان اور بزدل عالمی حکومتیں اپنے وار جاری رکھیں گے۔

«
»

سرکا بدلی مگر حالات نہیں بدلے!!

یمن کے ’’حوثی‘‘کون ہیں؟؟؟!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے