سزا سے پہلے ضروری سماج کی اصلاح اور فعال عدلیہ

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی 

 

ملک میں جنسی درندگی انتہا پر ہے۔ ہر واقع ظلم کا نیا ریکارڈ بنا رہا ہے۔ عصمت دری کے بعد جلانے یا ثبوت مٹانے کے لئے قتل کرنے کا نیا ٹرینڈ شروع ہوا ہے۔ جس کی شروعات کٹھوا کی سات سالہ بچی کی آبروریزی کے بعد جلا کر مار دینے سے ہوئی۔ حیدرآباد میں لیڈی ڈاکٹر کو عصمت دری کے بعد اسی طریقے سے قتل کیا گیا۔ اناؤ ریپ کی متاثرہ کو اس وقت مٹی کا تیل ڈال کر جلا دیا گیا جب وہ عدالت جانے کے لئے گھر سے نکلی تھی۔ شعلوں سے گھری وہ باہمت لڑکی ایک کلومیٹر تک دوڑتی رہی، سماج کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ کوئی اس کی مدد کے لئے آگے نہیں آیا۔ اس نے خود ہی پولیس کو فون کیا، پولیس اسے اسپتال لے گئی۔ جہاں سے اسے دہلی کے صفدر جنگ اسپتال ریفر کیا گیا۔ ڈاکٹروں کی کوشش کے باوجود وہ زندگی سے رہا گئی۔ ہر واردات کے بعد ریپ کرنے والوں کو سخت سزا(پھانسی) دینے کی مانگ ہوتی ہے۔ نربھیہ کیس کے بعد 2012 میں پوسکو قانون کو سخت اور کم سن بچیوں کو ہوس کا شکار بنانے والوں کو پھانسی دینے کا التزام کیا گیا۔ مگر اعداد بتاتے ہیں کہ بچوں اور خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں کمی کے بجائے سال در سال اضافہ ہو رہا ہے۔ 

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ملک میں یومیہ 55 بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے۔ حکومت نے پارلیمنٹ میں مانا ہے کہ بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد سے جڑے جرائم کے نہ درج کرائے جانے والے معاملے اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ کیلاش ستیارتھی چلڈرن فاونڈیشن کی جانب سے بچوں کے جنسی ہراساں پر جاری رپورٹ میں قومی کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 2013 سے 2016 کے دوران بچوں کے خلاف جرائم کے واقعات میں 84 فیصد اضافہ ہوا، ان میں سے 34 فیصد جنسی تشدد کے معاملے ہیں۔ 2016 میں عصمت دری کے 17473 مقدمے عدالت میں پیش ہوئے جبکہ پہلے سے ایک لاکھ 33 ہزار سے زیادہ معاملے سنوائی کے انتظار میں تھے۔ 2012 میں یہ تعداد صرف ایک لاکھ ہی تھی۔ 2017 میں مقدمات کی تعداد 1.5 لاکھ پہنچ گئی۔ زیرالتوا مقدمات کا انبار گھٹنے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اگر ان کی سماعت اسی سست رفتاری سے جاری رہی تو ان معاملوں کو نبٹانے میں دو دہائی کا وقت لگے گا اور کئی ریاستوں میں ان کے تصفیہ کے لئے50 سال سے بھی زیادہ کا وقت درکار ہوگا۔ 

ایسی صورت میں بچیوں سے جنسی زیادتی یا آبروریزی جیسے سماجی مسئلہ کا حل نہ اکیلے قانون سے ہو سکتا ہے، اور نہ ہی سیاسی طریقہ سے کیا جا سکتا ہے۔ عصمت دری کے پیچھے کی وجوہات کو دور کرنے کے لئے معاشرے کی اصلاح کے ساتھ نظام عدل و قانون کو فعال اور محکمہ پولیس کو چست و درست کرنا ہوگا۔ بھارت کا سماج پرش پردھان (مرد وادی) ہے۔ یہاں بچیوں، عورتوں کو کمزور مانا جاتا ہے۔ بالا دستی قائم کرنے کے لئے مرد طرح طرح سے ان کا استحصال کرتے ہیں۔ کبھی کبھی کمزور ذات و طبقات کو نیچا دکھانے یا ذلیل کرنے کے لئے ان کی بچیوں کو اغواء  یا آبروریزی کا شکار بنایا جاتا ہے۔ ایک وجہ جنسی ضرورت کو پورا کرنا بھی ہے۔ بے حد افسوسناک ہے کہ ایسے 95 فیصد جرائم قریبی رشتہ دار یا خاندان کے ملنے جلنے والوں کے ذریعہ انجام پاتے ہیں۔ پھر نظام عدل و قانون کا حال یہ ہے کہ لمبے انتظار کے بعد بھی 24 فیصد معاملوں میں ہی سزا ہو پاتی ہے۔ یہ وارداتیں عورتوں کی کمی، جہیز، فضول رسم و رواج اور بے روزگاری کے چلتے وقت پر شادی نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہوتی ہیں۔ بچیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دینے سے لڑکیوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔ 12-2014 میں ایک ہزار لڑکوں کے مقابلہ لڑکیوں کا تناسب 906 تھا جو 13-2015 میں گھٹ کر 900 رہ گیا۔ اس وقت یہ آنکڑا 898 پر سمٹ گیا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق 6.30 کروڑ لڑکیاں رحم مادر میں ہی مار دی جاتی ہیں۔ بیوا یا طلاق شدہ لڑکیوں کی دوسری شادی بھی بڑا مسئلہ ہے۔ 

اسلام نے اس مسئلہ سے نبٹنے کے لئے شادی کو آسان کرنے کے ساتھ بچیوں کو رحم مادر میں مارنے کو گناہ عظیم بتایا ہے اور سخت بعید کی ہے۔ بیٹیوں کا والد کی وراثت میں حصہ دیا ہے تاکہ مالی طور پر وہ اپنے بھائیوں کی طرح مضبوط ہو سکیں۔ بیوا یا مطلقہ کی دوسری شادی کرنے کو بڑھاوا دیا ہے۔ پھر غیر محرم سے پردہ کرنے کو کہا گیا ہے۔ عورتوں کو غیر مردوں کے ساتھ بے تکلف ہونے سے روکا گیا ہے۔ کیوں کہ غیر مردوں سے بے تکلفی اور بے پردگی کی وجہ سے جنسی خواہشات کے پیدا ہونے کا امکان رہتا ہے۔ اسلام ایسی تمام وجوہات پر قدغن لگاتا ہے جن سے جنسی جذبات بھڑکنے کا خطرہ ہو۔ اسلام نے سماجی اصلاح اور صحیح غلط کی سمجھ پیدا کرنے کے بعد سزا کو رائج کیا۔ زانی کے لئے اسلام میں موت کی سزا کا التزام ہے۔ یہ سزا سرعام دینے کو کہا گیا ہے تاکہ دنیا کو عبرت ہو۔ اب یہ بات ملک کی پارلیمنٹ میں اٹھی ہے۔ ہمارے ملک میں عورت کو اشیاء  بازار بنا دیا گیا ہے۔ ان کو ہر طرح سے بیچا جا رہا ہے۔ ٹیلی ویڑن پر ایسے اشتہارات آتے ہیں جنہیں آپ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ پرفیوم کے اشتہار میں دکھایا جاتا ہے کہ اس کا استعمال کرنے سے لڑکیاں لڑکوں کے پیچھے چل پڑتی ہیں۔ لڑکیوں کے جسم کی تاجرانہ نمائش کی جا رہی ہے اور انہیں سامان تعیش کے طور پر بازار میں پروسا جا رہا ہے۔ رہی سہی کسر پورن سائٹوں نے پوری کر دی ہے۔ یہ کیفیت نئی نسل کو قبل از وقت بالغ، ان کے جذبات کو بھڑکانے کے ساتھ ذہنیت کو آلودہ کر رہی ہے۔ صالح معاشرے کی تشکی کے لئے حکومت کو اس کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ 

اصلاح معاشرہ کے ساتھ نظام عدل و قانون کو فعال اور محکمہ پولیس کو چست درست کرنے پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ قانون کی سست رفتاری نے عدلیہ میں عوام کا اعتماد کم کیا ہے۔ اور لڑکیوں و خواتین میں روز بروز عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ مجرم دولت اور قانونی داو پیچ سے بچ جاتے ہیں۔ قانون و عدلیہ سے مایوسی کی وجہ سے حیدرآباد کی پولیس کے ذریعہ عصمت دری سانحہ کے مشتبہ ملزموں کے انکاؤنٹر کو عوام نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ لوگوں نے پولیس پر پھول برسائے اور عورتوں نے راکھی باندھی۔ ہو سکتا ہے کہ عوامی ناراضگی اور سیاسی دباؤ کو کم کرنے کے لئے پولیس نے یہ قدم اٹھایا ہو، اگر پولیس عوام کو مطمئن کرنے کے لئے اس طرح کا قدم اٹھانے لگی تو اس سے ملک کا عدالتی نظام چرمرا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس انکاؤنٹر کی جہاں تعریف ہو رہی ہے وہیں سوشل ایکٹوسٹ، سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء ، سابق جج اور خود بی جے پی کی لیڈر مینکا گاندھی نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے جانچ کی مانگ کی ہے اور اس سے ملک میں بھیانک چلن شروع ہونے کی بات کہی ہے۔

 قومی انسانی کمیشن نے ازخود انکاؤنٹر کی تحقیقات کی ہدایت دی ہے۔ سماجی سروکار کے لئے کام کرنے والے ایکٹیو سٹوں کی ایک تنظیم نے تلنگانہ ہائی کورٹ میں اس انکاؤنٹر کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے کو سنوائی کے لئے منظور کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینئر ایڈووکیٹ وکاس سنگھ نے کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہئے۔ انصاف کی فراہمی کے نظام اور شہریوں کے انسانی حقوق کے درمیان توازن قائم کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے سابق جسٹس کاٹجو نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دستور کی دفعہ 21 کے تحت کسی بھی شخص کو قانونی طریقہ کار کے علاوہ کسی دوسری طرح زندگی اور ذاتی آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے انکاؤنٹر کو بہیمانہ قتل سے تعبیر کیا۔ عصمت دری جیسا گھنونا جرم کرنے والوں کو موت کی سزا ملے اس سے کسی کو انکار نہیں مگر اس کا فیصلہ پولیس کے بجائے عدالت کرے۔ ملک کا آئین یہی چاہتا ہے جس کی سب کو عزت کرنی چاہئے۔ 

11 دسمبر ۲۰۱۹
 

«
»

ہم نہیں بننے دینگے ’این آرسیستان‘

حفیظ نعمانیؔ : بے باک صحافت کا ایک باب بند ہوگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے