سید سلمان حسینی ندوی:نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ وبالا

محمدصابر حسین ندوی

بیسویں صدی عیسویں کے قرن سے جب خورشیدہ تازہ نمودارہوا، تو یہ مسلمانوں کے زوال اور بریطانوی سامراج کی سربلندی کا دور تھا،مغلیہ سلطنت کا چراغ سحری بھی بجھ چکا تھا،اس کا فتیلہ جل کر خاک ہوچکا تھا،تخت وتاج انگلش سروں کی زینت بن گئے تھے،مسلمان کہیں دور ساحل سے طوفاں کا نظارہ کر رہے تھے،دولت و ثروت بھی منہ پھیر چکی تھی،صدیوں کے خزانہ بے بہا کا دروازہ سرپٹ بندہوچکا تھا،مغلول ہاتھ اب بس میں نہیں تھے،مذہب اور مذہب پسند طبقوں کی شامت آچکی تھی،غار و کھوہ کے سوا کوئی پناہ گاہ باقی نہیں رہ گئی تھی،تہذیب و ثقافت کی مضبوط دیوار گرتی جارہی تھی،ایسا محسوس ہورہا تھا اس ملبہ میں مسلمانوں کا قدیم ورثہ بھی دفن ہوجائے گا،اور وہ آثار قدیمہ کی علامت بن کر رہ جائیں گے،مجموعی طور پر پوری ملت اسلامیہ خستہ حالی،اور زبوں حالی میں پچھلے پہر کسی سانس لیتے ہوئے چراغ کی تصویر پیش کررہی تھی،اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی بہار کوئی خزاں رسیدہ بہار تھی جو ختم ہونے کے درپہ تھی۔

ایسے میں اس ناتواں اور نیم جاں ملت کی مسیحائی کیلئے بہت سے مخلصین اور جاں فروش میدان عمل میں کاربند تھے،ہر ایک اپنے خاص دائرہ میں اسلام کی بقا وتحفظ کیلئے سرگرم عمل تھا،ایک جماعت نے علوم دینیہ کو درد کا درماں،اور زخم کا پھایہ سمجھ کر قدیم طرز کا مدرسہ قائم کرلیا تھا،اور وہاں سے علمی ترکہ کی حفاظت اور مستقبل کی فکرمندی کی منصوبہ بندی کا منشور تیار کیا جارہا تھا،تو ایک دوسرے گروہ نے سمندر میں نمک کی طرح گھل جانے کی ترکیب اختیار کی اور انگریزی زبان ،دنیاوی علوم کو زخم کا مرہم سمجھ کر تعلیم گاہیں قائم کی تھیں،ہر ایک اپنے جوارمیں امت کا درد سموئے ہوا تھا اور نفع بخش کارہائے نمایا انجام دے رہاتھا؛لیکن دونوں ہی طبقے ایک دوسرے سے بیگانےاور اجنبی تھے،ایک کے پاس دین تھا ؛لیکن تفہیم و تشریح کیلئے زبان وقت کی کمی تھی،تو دوسرا طبقہ اساس دین سے بے بہرہ اور اہمیت دین سے ناآشنا تھا،دونوں ندی کے دو کنارے بن گئے تھے،اسے کشتی نہیں مل رہی تھی،اور اسے ساحل نہیں مل رہاتھا۔

مسلمانوں کے اس قدیم و جدید ،نئے اور پرانے کی خلیج کو پاٹنے،دونوں جماعتوں میں اعتدال و توازن پیدا کرنے ،گروہ بندی،باہمی اختلافات و جدل اور مناظرات،سب وشتم ،دشنام و الزام کی گرم بازاری کو ختم کرنےکیلئے اہل نظر و دانشورں نے ایک ایسے ادارے کی بنیاد ڈالی جسے ندوۃ العلماء سے تعبیر کیا گیا،جو دل دردمند اور زبان ہوشمند کا پر تواورسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مظبوط حصار کا علمبردار بنا،اس تحریک ندوۃ العلماء کی تاریخ میں درہ بے بہا علماء پیدا ہوئے جنہیں سید الطائفہ تک کا بھی لقب دیا گیا،جنہوں نے ادب و انشاء پرادازی،علم کی جامعیت،وسعت نظری کے ذریعہ علم دین کو فروغ دیا اور ملک وبیرون ملک میں ممتاز مقام حاصل کیا ،اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی دامت برکاتھم ہیں،جنہوں نے حسنی وحسینی کے حسین امتزاج اور شرافت سادات ،اور اپنے زمانے کے عظیم عالم دین ،شیخ الحدیث حضرت مولانازکریا صاحب رحمہ اللہ کے خلیفہ اجل حضرت مولانا سید طاہرمنصورپوری کے خانوادہ میں ۱۹۶۵عیسویں میں زندگی کی پہلی صبح دیکھی،اور حضرت مولانا سیدی ابولحسن علی ندوی رحمہ کی آغوش میں تربہت پائی ،جن کی شفقتوں اور محبتوں کے درمیان ندوۃ العلماءسے ۱۹۷۷ء میں فراغت حاصلی کی،اور علم کا یہ پرستار سات سمندر عبور کرتا ہوا ’’جامعۃ الامام محمد بن سعود ریاض‘‘کی سرزمین پر بھی قدم رنجا ہوا اور وہاں سےعبدالفتاح ابوغدۃ کی نگرانی میںماجستر کی سند حاصل کی۔ایسے میںآپ کی شخصیت جامع وکمالا ت کا حسین مرقع ہے،عصر حاضر میں اندرون ملک اور بیرون ملک میں آپ کی مقبولیت ایسی ہے کہ جس کی خواہش میں نہ جانے کتنے زمین دوز ہوگئے،لیکن جتنا عام اور ہمہ گیر اعتماد آپ کو حاصل ہوا ویسا بہت کم کسی کے حصہ میں آسکا۔

آپ کی شخصیت اس چمن کی ہے جس کے اندر رنگہا رنگ کے پھول پائے جاتے ہیں،قوس و قزح کی نیرنگی اور سر کے ترنگ سے بھی زیادہ ساز ،صبح کی کرنوں اور پھولوں کی رعنائیوںاور اسلوب حیات وعلم کی مختلف ناحیوں کا عطر مجموعہ ہے،ان میں رات کی تاریکی کا گداز،دل اور اہل دل کی تڑپ و سورش،شعر وادب ،سخن و سوزش اور قلم کا ساز،اہل فکر کا ذوق جستجو،للہیت و خشیت ، تواضع و انکساری اور مجاہدین کی روح ،ان کا جدو جہد ،پیہم عمل ،جفا کشی و جواں مردی یہ سب ان کی ذات میں اس طرح جمع ہوگئے ہیں؛کہ آپ کی اپنی شخصیت سب سے منفرد ،یکتا و ممتاز ہوکررہ گئی ہے،اس میں جامعیت بھی ہے،جمال بھی ہے ، کمال بھی ،وہ بےہمہ بھی ہے اور باہمہ بھی ہے۔

مثل خورشید سحر فکر کی تابانی میں شمع محفل کی طرح سب سے جدا سب کا رفیق

آپ کی شخصیت نے گلستان دین کے علم وہنر کے غنچوں سے عطر کشید کیا ہے،وہ اپنے آپ میں ایک امت ہیں،ان کی ذات خانقاہ بھی ہے اور مدرسہ بھی،علم کا بہتا دریا بھی ہے اور عمل میں سکوت و جذبہ قرار کا شاہکار بھی،ان کی فکر میں تابانی ،بلندی اور شاہین کا پرواز بھی ہے،اور مناجات و تسبیحات میں زمین کا چلتا پھرتا آدمی بھی اور تکبیر مسلسل کا آوازہ بھی ،وہ محبت فاتح عالم کا پیامبر بھی ہے اوراس میں انشا کی درخشانی بھی ہے ، حسن اخلاق کی دلبری بھی اوررحماء بینھم کی زندہ تفسیہر بھی ہے ،اشداء علی الکفار کی تعبیر بھی،وہ صوفیاء و بزرگوں کی آنکھوں کاتارہ بھی ہے اور مجاہد و سر بکف جوانوں کا دھڑکتا دل بھی،وہ میدان کا رزار کا سپاہی بھی ہے اور میدان عمل کا شہسوار بھی،وہ دشمان اسلام کے سامنے فوج بھی ہے اور مصلحین کیلئے پیغام محبت بھی، اس کی نگاہیں بلند ،سخن دلنواز کا پیکر ہے ،اور رخت سفر کا مہمیز بھی،وہ ان سے بھی مخاطب ہوتے ہیں، جو اورنگ نشین سلطنت ہیں،اور ان کوبھی پیغام انسانیت دیتے ہیں جو براداران وطن ہیں۔

بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات عبارت کیا،اشارت کیا،ادا کیا!

مولانا کی شخصیت ہشت پہل ہیرا ہے،وہ انگوٹھی میں لگے نگینہ کے مثل ہیں،کثرت تصانیف و تالیف ،اردو وعربی زباں پر یکساں قدرت،تاریخ و جغرافیہ کا شناور،سوانح و سیرت اور رجال کا بحر بیکراں ،تحقیق و تفتیش اور علمی معیار کا سب سے بلند سیارہ ہیں،آپ کی تحریروں میں آبشاروں کی روانی اور ادب کی جلالت پائی جاتی ہے،لیکن یہ بات بھی ہے کہ فی نفسہ انشاء پردازی ان کے نزدیک مقصود نہیں،آپ بحیثیت داعی و محقق کے جابجا انشاپردازی کے موتی چمکاتے ہیں،وہ داعی اور مجدد ہیں،علی میاں کا خواب اور ان کی آرزو ہیں، وہ تمنائے ندوہ اور دل ندوہ ہیں،وہ منتسبین ندوہ کی روح اور محبین ندوہ کی جان ہیں،آپ کی شخصیت کا تجزیہ انتخاب تفاسیرکا مرکزی باب ہے ،القدوری فی لبس جدید اور نور الایضاح فی قالب جدید میں فقہ کا جلی عنوان ہے،آخری وحی،ترتیب و تدوین قرآنی،تبویب القرآن ان کی شمع کی جلوہ فگنی اور ضیاء پاشی کا مجموعہ ہے،مذاکراتی،سفرنامہ ،ہندوستان میں اسلامی شریعت اور ملت کے مختلف طبقات کی ذمہ داریاں،تر کی :ماضی اور حال،سائنس کی خود کشی ان کی شش جہات اقامت دین کا پیغام ہے،مشعال المصابیح شرح مشکاۃ المصابیح اور الفاظ الجرح والتعدیل ان کی عشق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا پر تو ہے،وہ اپنے پیغامات میں تن تنہا سپہ سالار اور لشکر جرارا ہیں،وہ عالمی مقبولیت اور ملت اسلامیہ کے ہیرو ہونے کے باوجود فقیرانہ وزاہدانہ زندگی کا سید القوم اور فخر الملۃ ہیں ،اور بس یہی عرض خواں ہے:

توحد فان اللہ ربک واحد ولا ترغبن فی عشرۃ الرؤساء

آپ کی زندگی کا سب نمایا اور ممتازپہلو قادر الکلامی،خطیبانہ صلاحیت اور جوش بیانی ہے،آپ اپنی تقاریر کے ذریعہ حزب مخالف وحامی میں شعلہ برپا کردیتے ہیں،صفوں میں اتحاد و گرم جوشی کے ساتھ مد مقابل میں لرزہ طاری کر دیتے ہیں،ہر لفظ موتی و لعل وگوہر بن کر گرتا ہے،معاندین کے حق میں وہ شمشمیر بے نیام اور صاحب نظر کیلئے پیغام الفت ہوتا ہے،وہ مرد آہن ہے جس کی زبان کھلتی ہے تو کم علموں اور ظاہر پرستوں اور بوسیدہ خیال ،دقیانوسیت کی چادر میں لپٹے ہوئے اجسام اور لکیر کے فقیر جسم و ابدان میں طوفان مچ جاتا ہے،آ پ رسم ورواج کے پیروں اورمرگ دوام پیری و بزرگی کے ایوان پر ایسا پرزور حملہ کرتے ہیں؛ کہ کہرام بپا ہوجاتا ہے،روحوں میں تڑپ اور رگوں میں گرماہٹ پیدا کرنے اور نوجوانوں میںشرارہ پیدا کرنے میں محرک ہیں،آپ کے ہر اشارے پر شمع کے ارد گرد طواف کرتے پروانوں کے مثل سبھی اس پر نچھاور ہوجانے کو بیتا ب ہوجاتے ہیں،انہیں کیلئے شاعر نے کہا ہے:

ہے قلم میرا تیغ جوہردار ہے زباں میری ابر گوہر بار

آپ کی ذات گرامی کا ایک اہم پہلو تصوف وتذکیہ اور عبادات وریاضت کی کثرت بھی ہے،یہی فقیری ودرویشی آپ کی زندگی کا روشن باب ہے،آپ نے قرآن کریم کو اپنا دستور اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو مقصد حیات بنا کر قطب و اقطاب کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ اور اصحاب دل کی گرماہٹ کو سینہ کی تڑپ اور ابدال زمانہ کی سسکیوں کو حرز جاں بنایا ہے،جس کی بنا پر آپ فی نفسہ مرجع خلائق بن گئے ہیں،رمضان میں سید احمد شہید کٹولی کی پرنور فضا ،جہد وعمل کی عملی مشق اور حیات زندگی کی حقیقی پرکھ دیکھ کر کسی اسلامی ریاست کا خیال پیدا ہوتا ہے،تفاسیر و احادیث کی روشنی میں خلوت وجلوت کا نظارہ اور مراقبہ ومحاسبہ کا دلکش منظر انسانی نظروں کو خیرہ کرتی ہیں؛بلکہ ظاہر بینوں کو مافوق المخلوق کا عالم حیراںنظر آتا ہے،ترک حیوانات،ترک لذات ،تقلیل طعام،تقلیل منام،تقلیل کلام،تقلیل اختلاط مع الانام رجعت الی اللہ کا خوف اور خشیت الہی کی کیفیت دیکھ کر کسی تخت طاوس کا شبہ ہوتا ہے،جو ان دیکھی لہروں کے دوش پر سوار آگے آگے اوپر ہی اوپر رواں رہتا ہے،جگر مرادابادی کے الفاظ میں انہیں یہ کہنے کا حق ہے:

تیرے عشق کی کرامت نہیں ہے کبھی بے ادب نہ گزرا مرے پاس سے زمانہ

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مولانا کی ذات اس حدی خواں کی ہے،جو کاروان انسانی کو بے خوف و خطر تیرہ وتاریکی کے عالم میں نور ووہدایت کی طرف لے جانا چاہتی ہے،جس کے سینہ میں زمانے بھر کا درد و سوزش ہے،بالعموم پوری انسانیت اور بالخصوص امت مسلمہ پر اگر خراش بھی آئے تو وہ دشمان کی آنکھیں نوچ لینا چاہتے ہیں،ظالم و جابر کی کلائیاں مروڑ دینے اور ان کے ناخن تراش دینے کا جذبہ رکھتے ہیں،عالم عرب آپ کی محبت کا مرکز ہے،وہاں کی خوں آشامی ،کشتوں کے پشتے اور لہوکی ندیاں اور نعشوں کے منار دیکھ کر آپ کے دل کی دھڑکن بیتاب و بے چین رہتی ہے،صہیونی پنجوں کی دست درازی اور صلیبی نگاہوں کی کجی سے آپ کی زبان نالاں اور بے قرار رہتی ہے،عالم اسلام پر بڑھتی اسرائیلی گرفت اور امریکی جارحیت کے خلاف زبانی وقلمی جہاد کا محاذ قائم کر رکھا ہے،وہ نوجوانوں کو اسی نہج پر تربیت کرنے اور ان میں اسلامی شعور اور اسلامی غیرت وحمیت پیدا کرنےکی انتھک کوشش کرتے ہیں،شاید و باید ہی کوئی خطاب ہو جہاں آپ نے یہ نہ کہا ہو!

محبت مجھے ان نوجوانوں سے ہے ستاروں پر جو دالتے ہیں کمند

اور نوجوانوں کو یہ باور کراتے ہیں:

وہی جواں ہےقبیلے کی آنکھ کا تارہ شباب جس کا ہے بے داغ،ضرب ہے کاری

لیکن اپنے درد کو بیان کرنے میں نوجوانوں کی بے حسی وبے رغبتی اور ان کی غفلت کا لہو یوں بہاتے ہیں،اور کہتے ہیں’’لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی‘‘،حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ کیفیت ہے جو کسی انسان کو اللہ کی ربوبیت پر غیر متزلزل یقین اور مقام توکل حاصل ہونے کے بعد اہل دل کو حاصل ہوتا ہے،دل کا یہی وہ جہاں ہے جو اگر آباد ہوجائے تو مال ومنال اور جاہ وجلال پر نگاہ غلط کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ،بلکہ ایسا شخص درویشی میں بھی سلطانی کا لطف لیتا ہے،زمانہ اس کے قدموں میں پڑا رہتا ہے؛لیکن وہ اسے ٹھوکر مار کرصرف اور صرف اس کی فلاح وبہبودی کا پتہ بتاتا ہے،وہ زمانے کے رسم ورواج کو ماننے سے انکار کردیتا ہے،وہ ایک ہی دھارے پر بہنے والی کوری زندگی کا مخالف ہوتا ہے،وہ تحقیقی و جستجو میںیقین رکھتا ہے،حقیقت شناسی کا عنصر اورحیات انسانی میں اصول خداوندی ’’لکل شیئ قدرناہ تقدیرا‘‘ کا قائل ہوتا ہے،اس کے سامنے دنیا کی بوسیدگی عیاں ہوتی ہے،وہ اسرار الہی کا بینا اور حکمت خداوندی کا رازداں ہوتا ہے؛ایسے میں ظاہر پرستی کی شیدائی میںمولانا کی بہت سی تدقیق و نظر سے اگرچہ اختلاف کیا جاسکتا ہے؛ لیکن سورج کو چراغ دکھلانے کی جرأت،چشمہ صافی کو گدلا کہنے کی جسارت روانہیں،شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ جل ترنگ نہیں بلکہ لہو ترنگ کے قائل ہیں،متمدن علاقوں کی خوشحالی اور خوش جمالی کے مقابلہ میں کوہستانوں اور چٹانوں اور دشوار گزار پہاڑوں کی زندگی کو پسند کرتے ہیں۔

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یابندہ صحرائی یا مرد کوہستانی

 

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
17اکتوبر2018(ادارہ فکروخبر)

 

«
»

عدالت عظمیٰ میں بابری مسجد کا قضیہ

ماہِ صفر المظفر اسلام کی نظر میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے