سعودیہ اور اسرائیل کے خفیہ رشتے اور حماس پر اس کے اثرات

سعودی عرب کے اس فیصلے سے بھی حماس کو شدیدجھٹکا لگا ہے ۔ حماس فکری طور پر اخوان سے جڑی ہوئی ہے لہذا سعودی عرب کے اس فیصلے سے حماس کے پاس صرف دو راستے ہیں یا تو اپنے آپ کو اخوانیوں سے الگ کرے یا پھر ہماری تنظیم کے الزام کا مواجہہ کرنے کے لیے تیارہوجائیں ۔ اس سلسلہ میں حماس کا مقصد واضح ہے کہ حماس اسرائیل کے خلاف جدوجہد کانام ہے ۔ اس کا مقصد صرف فلسطین کے اندر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرناہے حماس نے اب تک کسی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کی ہے اور نہ کرے گا ۔ 

جس طرح مصر کے فیصلے سے اسرائیل کو فائدہ پہنچا ہے ایسے سعودیہ کے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دینے کے نتیجہ میں حماس پر پڑنے والے اثر کا تناظر میں بھی اسرائیل کو بے انتہا فائدہ ہوگا ۔ 
اسرائیل کے سابق جنرل اور اسرائیلی نیشنل سیکوریٹی کے صدر ’’ عاموس بادلین‘‘ نے کہا ہے کہ سعودیہ کے اِس شاہی فرمان سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اسرائیل کو فائدہ پہنچے گا اور اتنا فائدہ پہنچے گا جتنا کبھی نہیں پہنچا بلکہ یہی نہیں اس سے ان ساری قوموں کا گلا گھوٹنا بھی آسان ہوجائے گا جو اسرائیل کے لیے کسی نہ کسی حد تک خطرہ ہیں ۔ 
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے سیاسی مشیر ’’ دوری گولڈ ‘‘ کا کہنا ہے کہ سعودیہ کے اس فیصلے سے غزہ پر قائم اسرائیلی حصار کو اور سخت کرنا آسان ہوجائے گا ۔ اس فیصلے سے غزہ کو مالی امداد کے راستے بند ہوجائیں گے ۔ دوری گولڈ کے بقول سعودیہ اور خلیجی ممالک نے اگرچہ ایک عرصہ سے غزہ پر آنے والی امداد پر لگام لگائے ہوئے ہیں مگر سعودیہ کے اس فیصلے کے بعد مالی امداد کا آخری دروازہ بھی بند ہوجائے گا جس سے اسرائیل مخالف مزاحمت کو سخت دھکا لگے گا ۔ 
سعودیہ کے اِس فیصلے سے مصر کے لیے غزہ اور مصر کے درمیان بنی خفیہ سرنگوں کو گرانے میں بھی آسانی ہوجائے گی جس کے ذریعہ غزہ کو بعض اوقات رسد مل جاتی ہے۔ 
اسرائیل کے وزیر اعظم کے سیاسی مشیر ڈوری ولڈ کا ایک مضمون 22دسمبر 2013ء کو ٹوڈے اسرائیل میں شائع ہوا تھا جس کا عنوان تھا ’’ اسرائیل اور سعودیہ کے مشترکہ مصالح ‘‘ مذکورہ مضمون میں انکشاف کیا گیا ہے ۔ 1964-1966کے درمیان یمن کی جنگ میں ’’ امامت (شیعہ فرقہ) کے حامیوں کے لیے سعودیہ کے انٹلی جنس افسر کھال ادھر نے اسرائیل سے رابطہ کیا تھا جس کے بعد اسرائیل نے جنگی ہتھیار اور دوسری امداد سے کو ’’ امامت ‘‘ کے حامیوں تک پہونچائی تھی ۔ 
مذکورہ مضمون میں خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ سعودی عربیہ اسرائیل کے ساتھ تعلق بنانے میں عبدالعزیز بن باز کے فتوی کا سہارہ لے گا جنہوں نے مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر اسرائیل سے مصالحت کے جواز کا فتوی دیا ہے ۔ مضمون کے مطابق چونکہ اسرائیل اور سعودیہ کو ایران سے خطرہ درپیش ہے اس لیے یہ مسئلہ اسرائیل اور سعودیہ کو ایک صف میں قریب کھڑا کردے گا ۔ 
یروشلم پوسٹ نے اپنی اشاعت 3؍ جنوری 2014کو ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں سعودیہ اور اسرائیل کے مابین تعلقات قائم کرنے کی امریکہ میں سعودی سفیر عادل الجبیر کے خفیہ کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ 
ایسے ہی اسرائیل کے قومی امن وسلامتی کے ماہر یوسی میلمان نے ایک رپورٹ لکھی ہے جس میں سعودی سفیر عادل الجبیر کی اُن خفیہ ملاقاتوں کا تذکرہ ہے جو وہ واشنگٹن میں یہودی تنظیموں کے سربراہوں سے کررہے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق سعودی سفیر اور یہود سربراہان کی ملاقات کا نتیجہ یہ ہوا کہ گذشتہ چند عرصے میں سعودیہ اور اسرائیل مختلف میدانوں میں آپسی تعاون میں قریب تر ہوئے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی سفیر کی یہ کوششیں سابق سفیر بندر بن سلطان کے مشن کے تکملہ کے طور پر ہے جو ابھی بھی امریکہ میں یہودی لابی سے گہرے تعلقات رکھتے ہیں ۔ 

«
»

دورِ جدیدکااستعمارمیدان میں

مودی کی قصیدہ خواں مدھو کشور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے