امسال بھی دنیا کے کونے کونے سے لاکھوں حجاج کرام‘ حج کا ترانہ یعنی لبیک پڑھتے ہوئے مکہ مکرمہ نہیں پہنچ پائیں گے
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
حج کے مہینوں میں سے شوال کا مہینہ ختم ہونے کے بعد ماہِ ذی قعدہ کے شروع ہونے پر سعودی حکومت نے ۲۱ جون ۱۲۰۲ء بروز ہفتہ یہ اعلان کیا کہ امسال (۲۴۴۱ھ) سعودی عرب میں مقیم مختلف ملکوں کے باشندے (ساٹھ ہزار) ہی حجاج کرام کی حفاظت اور سالمیت کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے حج بیت اللہ ادا کرسکیں گے۔ غرضیکہ گزشتہ سال کی طرح امسال بھی دنیا کے چپہ چپہ سے ضیوف الرحمن حج کی ادائیگی سے محروم رہیں گے۔ گزشتہ سال بھی کورونا وبائی مرض کی وجہ سے ماہِ ذی قعدہ کے شروع ہونے پر حج کے محدود ہونے کا اعلان کیا گیا تھا۔ گزشتہ سال صرف ایک ہزار (دوسری خبر کے مطابق دس ہزار) خواص نے ہی حج کی ادائیگی کی تھی، عوام کو حج کی ادائیگی کی اجازت نہیں تھی۔ اس موقع پر امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہئے کہ مسلسل دوسرے سال دنیا کے کونے کونے سے عازمین حج‘حج کی ادائیگی کے لئے سفر نہیں کرسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔
سعودی حکومت کے اعلان کے مطابق امسال وہی افراد (ساٹھ ہزار) حج کی ادائیگی کرسکتے ہیں جو سعودی عرب کے باشندے ہیں یا سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ نیز جن کی عمریں ۸۱ سے ۵۶ سال کے درمیان ہوں اور کم از کم کورونا ویکسین کی ایک خوراک لے چکے ہوں۔ اس سے قبل تقریباً ۵۲۔۰۳ لاکھ حجاج کرام حج کی ادائیگی کیا کرتے تھے۔ ۳۱ جون ۱۲۰۲ء بروز اتوار دوپہر ایک بجے جب حج ویب سائٹ سعودی عرب میں مقیم حضرات اور سعودی باشندوں کے حج رجسٹریشن کے لئے کھولی گئی تو مقامی عازمین حج‘ سعودی حکومت کی جانب سے امسال کے لئے طے شدہ حج کے اخراجات کو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ قیمتیں کئی گنا بڑھا دی گئی ہیں۔ گزشتہ سال سے پہلے ۶ یا ۷ دن کے لئے چار ہزار ریال سے شروع ہوکر زیادہ سے زیادہ دس ہزار ریال کا پیکیج رہا کرتا تھا۔
وزارت حج وعمرہ نے امسال کورونا وبائی مرض کے پیش نظر حج کے تین پیکیج کی منظوری دی ہے۔ پہلا پیکیج ”گیسٹ اسپیشل ٹاور“ ہے، جس کی فیس 16560 ریال ہے،جس کا 15% ٹیکس بھی سعودی حکومت کو ادا کرنا ہوگا اور تقریباً 500 ریال قربانی کے لئے ادا کئے جاتے ہیں۔ اس طرح اس پیکیج کی کل قیمت تقریباً 20000 ریال ہوئی، جو تقریباً چار لاکھ ہندوستانی روپیوں کے برابر ہے۔
دوسرا پیکیج ”گیسٹ اسپیشل“ ہے، جس کی فیس 14382 ریال ہے جس کا 15% ٹیکس بھی سعودی حکومت کو ادا کرنا ہوگا اور تقریباً 500 ریال قربانی کے لئے ادا کئے جاتے ہیں۔ اس طرح اس پیکیج کی کل قیمت تقریباً 17000 ریال ہوئی، جو تقریباً تین لاکھ تینتیس ہزار ہندوستانی روپیوں کے برابر ہے۔
تیسرا پیکیج ”گیسٹ عوامی“ ہے، جس کی فیس 12113 ریال ہے جس کا 15% ٹیکس بھی سعودی حکومت کو ادا کرنا ہوگا اور تقریباً 500 ریال قربانی کے لئے ادا کئے جاتے ہیں۔ اس طرح اس پیکج کی کل قیمت تقریباً 14430 ریال ہوئی، جو دو لاکھ اسّی ہزار سے زیادہ ہندوستانی روپیوں کے برابر ہے۔
ان تمام پیکیج میں سعودی عرب میں اپنے علاقہ سے مکہ مکرمہ آنے جانے کا خرچہ شامل نہیں ہے، یعنی ریاض یا تبوک یا نجران وغیرہ سے مکہ مکرمہ جانے اور واپس آنے کے تمام اخراجات حاجی کو الگ سے ادا کرنے ہیں۔ غرضیکہ مکہ مکرمہ کا رہنے والے شخص بھی پیکیج میں مذکور رقم کی مکمل ادائیگی کرے گا۔ مکہ مکرمہ کے عازمین حج عموماً ۸ ذی الحجہ کی صبح مکہ سے منی کے لئے روانہ ہوتے ہیں اور ۲۱ ذی الحجہ کی کنکریاں مار کر گھر واپس آجاتے ہیں، یعنی اہل مکہ مکرمہ کو صرف پانچ دن کے لئے یہ خطیر رقم ادا کرنی ہے۔ مکہ مکرمہ کے علاوہ سعودی عرب کے دیگر شہروں سے تمام ہی پیکیج میں زیادہ سے زیادہ سفر 7 دن کا ہوتا ہے۔ ان تمام پیکیج میں مدینہ منورہ کا سفر شامل نہیں ہوتا ہے، نیز مکہ مکرمہ میں ہوٹل نہیں دیا جاتا ہے بلکہ براہ راست منی لے جایا جاتا ہے۔ اس طرح مکہ مکرمہ پہنچ کر ایک شخص کا روزانہ کا خرچہ دو ہزار ریال سے لے کر تقریباً تین ہزار ریال بن رہا ہے، جو ۰۴ ہزار سے ۵۵ہزار روپیوں کے برابرہے۔ ہندوستان سے جانے والے عازمین حج عموماً چالیس روز کے سفر پر جاتے ہیں اور مدینہ منورہ میں بھی دس روز کا قیام ہوتا ہے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ہوٹل کا انتظام بھی ہوتا ہے، تب جاکر بھی اِس سے کم خرچہ پر حاجی حج کی ادائیگی کرکے وطن واپس آجاتا ہے۔
برصغیر کے لوگ کافی تعداد میں سعودی عرب ملازمت کی غرض سے جاتے ہیں، لیکن ان کے پروگرام میں حج وعمرہ کی ادائیگی بھی شامل ہوتی ہے۔ اگر کوئی مسلمان وہاں پہنچ کر بھی حج کی ادائیگی نہ کرسکے تو وہ اس کو اپنی کوتاہی سمجھتا ہے، حالانکہ حج کی فرضیت اسی شخص پر ہے جو صاحب استطاعت ہو، یعنی حج کے مکمل اخراجات برداشت کرسکتا ہو۔ مگر پھر بھی سعودی حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ حج کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ نہ کرتی یا کم از کم حج کی ادائیگی کو ٹیکس سے مفت رکھتی۔ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر انتظامی امور وغیرہ کے اخراجات سعودی حکومت کو ہی برداشت کرنے چاہئے تھے کیونکہ تجربہ ہے کہ حج کی قیمتوں میں جب بھی اضافہ ہوا ہے تو پھر وہ کم نہیں ہوتا۔ نیز اس کا اثر آئندہ سال بیرون ممالک کے عازمین حج پر بھی پڑے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ آئندہ سال ہندوستان سے جانے والے عازمین حج کو بھی بڑی رقم خرچ کرنی پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین۔
سعودی عرب ملک کے بانی شاہ عبدالعزیزؒ سے لے کر شاہ فہدؒ تک حجاج کرام کی خدمت کو ترجیح دی جاتی تھی مگر شاہ عبد اللہؒ کے زمانہ سے خدمت کے ساتھ تجارت کا عنصر بھی شامل ہوگیا۔ اب لگتا ہے کہ تجارت کا عنصر غالب ہوگیا ہے۔ تجارت کرنا معیوب نہیں ہے، لیکن دنیا کے چپہ چپہ سے آنے والے اللہ کے مہمانوں کی خدمت کا جذبہ تجارت پر غالب ہونا چاہئے۔
حج‘ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی طرح اسلام کا ایک اہم بنیادی رکن ہے۔ تمام عمر میں ایک مرتبہ ہر اس شخص پر حج فرض ہے جس کو اللہ نے اتنا مال دیا ہو کہ اپنے گھر سے مکہ مکرمہ تک آنے جانے پر قادر ہو اور اپنے اہل وعیال کے مصارف واپسی تک برداشت کرسکتا ہو۔ فرمانِ الٰہی ہے: لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہونچنے کی استطاعت رکھتے ہوں وہ اس کے گھر کا حج کریں اور جو شخص اس کے حکم کی پیروی سے انکار کرے، اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔ (سورۃ آل عمران ۷۹)
اشہر حج یعنی حج کے ایام شروع ہوگئے ہیں، شوال کا پورا مہینہ مکمل ہوکر ذی قعدہ شروع ہوگیا ہے، مگر امسال دنیا کے کونے کونے سے لاکھوں عازمین حج‘ حج کا ترانہ یعنی لبیک پڑھتے ہوئے مکہ مکرمہ نہیں پہنچ پائیں گے۔ لاکھوں حجاج کرام اسلام کے پانچویں اہم رکن کی ادائیگی کے لئے دنیاوی ظاہری زیب وزینت کو چھوڑکر اللہ جل شانہ کے ساتھ والہانہ محبت میں مشاعر مقدسہ (منی، عرفات اور مزدلفہ) پہنچتے تھے اور وہاں حضور اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ پر حج کی ادائیگی کرکے اپنا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانیوں کے ساتھ جوڑتے تھے۔ حج کو اسی لئے عاشقانہ عبادت کہتے ہیں کیونکہ حاجی کے ہر عمل سے وارفتگی اور دیوانگی ٹپکتی ہے۔ حج اس لحاظ سے بڑی نمایاں عبادت ہے کہ یہ بیک وقت روحانی، مالی اور بدنی تینوں پہلوؤں پر مشتمل ہے، یہ خصوصیت کسی دوسری عبادت کو حاصل نہیں ہے۔ قرآن وحدیث میں اسلام کے اس پانچویں رکن ”حج“ کی خاص اہمیت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے محض اللہ کی خوشنودی کے لئے حج کیا اور اس دوران کوئی بیہودہ بات یا گناہ نہیں کیا تو وہ (پاک ہوکر) ایسا لوٹتا ہے جیسا ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز (پاک تھا)۔ (بخاری ومسلم)
دنیا کے وجود سے لے کر اب تک اس پاک گھر کا طواف، عمرہ اور حج ادا کیا جاتا ہے اور ان شاء اللہ قیامت سے قبل بیت اللہ کے آسمانوں پر اٹھائے جانے تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، یقینا بعض حالات میں حج کی ادائیگی موقوف بھی رہی ہے۔ مگر صحیح بخاری ودیگر کتب حدیث میں مذکور رسول اللہ ﷺ کے ارشاد: ”قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک بیت اللہ کا حج بند نہ ہوجائے۔“ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ حج کا نہ ہونا یا حج کا موقوف کرنا یا عازمین حج کو روکنا کسی بھی حال میں اچھی علامت نہیں ہے خواہ اس کے کچھ بھی اسباب ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے، آمین۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں