عینی شاہدین کے مطابق ہرطرف گوشت کے ٹکڑے ، انسانی اعضاء ، چیختے چلاتے معصوم بچے ، تڑپتی نیم جاں لاشیں ، جلتے مکانات ، تباہ عمارتوں کے ملبے ، ڈرتے بھاگتے شہری ، کراہتے مریض اور زخمی ، اسپتال ،گلی ،کوچوں میں بہتے خون ،دہاڑیں مارمار کر روتے شہریوں کی پکارسے پوراخطہ جہنم کی وادی بن چکاہے ۔ جس سے عالمی ضمیر کچھ بیدار ہوا ، خود اسرائیل کے اندر اس ظلم و استبداد کے خلاف مظاہرے ہوئے ،مگر خاموش ہے تو امریکہ جس کا شیوہ ہی اب عرب ممالک کو تباہ و برباد کرنا ، ان کو اپنا ماتحت اور غلام بنانا، وہاں کے مادی ذخائر کو لوٹنا کھسوٹناہے ۔
تین اسرائیلی نوجوانوں کا اغوااور پھر ان کے قتل کا الزام بغیر تحقیق کے براہ راست حماس پر عائد کیاگیا ، باوجودیکہ حماس نے اس الزام کو سرے سے انکار کیااور کہا کہ اس واقعہ سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے مگر صرف شک کی بنیاد پر اسرائیلی فوجوں نے غزہ کے باشندوں کو جبراًگرفتار کرنا ، ان کے گھروں میں گھس کر تلاشی لیناشروع کردیا جس کے نتیجہ میں سینکڑوں افراد پہلے ہی اسرائیل کی جیلوں میں پہونچ گئے ۔اس کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجا من نتن یاہو نے امریکہ کا دروہ کیا ، امریکی صدر براک اوباماکے ساتھ صلاح و مشورہ کیا ،پھر اسرائیلی وزیر اعظم نے حماس کو منھ توڑ جواب دینی کی بات کہی اورمحصور و مجبور غزہ کے باشندوں کو تباہ و برباد کرنے کی دھمکی دی ۔
8جولائی سے غزہ پٹی پر اسرائیل کی بری ، بحری اور فضائی بمباری شروع ہوئی جس کے نتیجہ میں 1950سے زائد افراد شہید ہوگئے جن میں اکثریت معصوم بچوں ، خواتین اور عام شہریوں کی ہے ، دس ہزارسے زائد افراد زخمی ہوئے ، 18ہزار کے آس پاس مکانات ریت کے تودے میں تبدیل ہوگئے ۔ ایک طرف جدید ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی فوج تو دوسری جانب نہتے اور بے کس غزہ کے عام شہری ، اور حماس کے پچاس سال پرانی راکٹیں جو اکثر ہدف سے دور اور منزل مقصود سے پہلے ہی تباہ کردی جاتی ہیں ۔غزہ جنگ نے سب کے ضمیر کو بیدار کردیا لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اسرائیل فلسطین میں نسل کشی کررہاہے ویسے بھی شہریوں کو نشانہ بنانا جنگی جرائم میں داخل ہے مگر اسرائیل ان تمام قوانین کی دھجیاں اڑارہاہے اور اپنے فعل مذموم پر جما ہوا ہے ۔
خوش آئند بات یہ ہیکہ اقوام متحدہ کی تین رکنی تحقیقاتی کمیشن چند دنوں میں غزہ کا دورہ کرے گا، ترکی توروز اول سے ہی اس وحشیانہ کارروائی پراحتجاج کررہاہے ۔دنیا کے ہر ملک میں احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں اس صورتحال کو دیکھ کر عرب ممالک بھی اب اسرائیل کے خلاف زبان کھول رہے ہیں اور کبھی اشارۃ کبھی صراحۃًاسرائیلی حیوانیت کی ننگی ناچ کی مذمت کرتے ہیں ۔
غزہ جنگ پر ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد12اگست بروز منگل سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعودالفیصل نے عرب اقوام پرزور دیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کا توڑ کرنے کے لئے ایک صف میں اکٹھے ہوں ۔انہوں نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت پر پوری دنیا کو مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ۔سعودی وزیر خارجہ جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی )کے ہیڈکوارٹر س میں منعقدہ ایک وزارتی اجلاس میں شریک تھے جس میں غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی جارحیت سے پیداہونے والی صورتحال پر غور کیا گیا ۔ اجلاس میں شہزاہ سعود الفیصل نے کہا کہ اسرائیل کا مقصد فلسطینیوں کے وجود کو ختم کرنا ہے مگر سعودی عربیہ فلسطینی کاز کو اپنا بنیادی کاز سمجھتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات خانہ جنگیوں کے موجب بن رہے ہیں اور اس سے اسرائیل کو اپنے جرائم کے اعادہ کی شہہ مل رہی ہے ۔
اس موقع پر انہوں نے فلسطینیوں کے علاج و معالجے کیلئے 300ملین ریال عطیہ دینے کا اعلان کیا ۔انہوں نے کہاکہ اب تعزیتی تقریب اور جلسے منعقد کرنے کا وقت نہیں عملی اقدام کی ضرورت ہے ۔ اسرائیل کاواحد اور بنیادی مقصد فلسطینیوں کی نسل کشی اورخاتمہ ہے انہوں نے کہا کہ فلسطین کی بازآبادکاری کے لئے 500ملین ڈالر خرچ کئے جائیں گے اور دنیا نے قابض اسرائیلی فوج کی وحشت و بربریت کی بڑی گھناؤنی صورت دیکھی ۔ وہ معصوم شہریوں کو ان کے گھروں میں قتل کرنے کے لئے ، چھتوں کو ان کے سروں پر گرانے کیلئے نہایت جدید اور مہلک ہتھیار استعمال کررہاہے ۔دنیا نے نونہالوں اورشیرخوار بچوں کو ماؤں کی گود میں قتل ہوتے دیکھا اور ایسی ماؤں کودیکھا جوموت کی گھاٹ اتاردی گئیں اوران کے پیٹ میں زندہ بچے ہیں ۔ غزہ پرمسلط جنگ میں اسرائیل کیجانب سے ہورہے مظالم اورعام تباہی نے تمام انسانی حدود و قیود کو پامال کردیا ہے ۔یہ وہ بیان ہے جس کو سعودی عربیہ کے وزیر خارجہ نے دیا بس ضرورت اس بات کی ہے اس کو عملی جامہ پہنایا جایا اور ایک پلیٹ فارم آکر دشمن کو شکست فاش دی جائے کاش کہ وزیر خارجہ کا بیان صرف الفاظ کے ذخیر ہ تک محدود نہ رہے اور عملی میدان میں امت آگے بڑھے تو اس میں وہ جوہر اور مادہ پوشیدہ ہے جس سے کفرپاش پاش اوردو ٹکڑے ہوجائے ۔
اسی دریاسے اٹھتی ہے وہ موجِ تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہہ وبالا
جواب دیں