اور افسران وعملہ کی تنخواہ کا بوجھ بھی ٹیکس دہندگان کی جیب پر پڑتا تھا۔ آنجہانی راجیو گاندھی کے زمانہ میں معیشت کو کھولنے کا آغاز ہوا لیکن اصل دروازہ کھلا نرسمہا راؤ کے زمانہ میں جن کے وزیر مالیات ڈاکٹر منموہن سنگھ تھے۔ اس زمانہ میں ان اداروں میں سرمایہ کاری یا عوامی حصص کم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس معاشیات کی زبان میں سرمایہ نکاسی (Disinvestment) کہا جاتا ہے۔ شروعات غیر منفعت بخش اداروں سے ہوئی حالانکہ اس وقت اس کی مخالفت بھی کی گئی تھی اور الزام لگایا گیا تھا کہ حکومت سرمایہ کاروں، صنعت کاروں اور دھنا سیٹھوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے یہ پالیسی اختیار کررہی ہے لیکن حکومت کا کہنا تھا کہ وہ ان اداروں پر کھربوں روپیہ خرچ کررہی ہے جب کہ سماجی ضروریات اور ڈھانچہ جاتی سہولیات کے فروغ کے لئے اس کے پاس سرمایہ کی کمی پڑرہی ہے آج حالات نے ثابت کردیا کہ گذشتہ دو دہائیوں کی کھلی معیشت کی وجہ سے ہندوستان نے جتنی ترقی کرلی ہے اتنی چادر دہائیوں کی منصوبہ بند معیشت کے دور میں نہیں کرسکا تھا حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ تب کے اور اب کے حالات میں زمین وآسمان کا فرق بھی ہے۔
اکثر کہا جاتا رہا ہے کہ حکومت کو صرف انہیں اداروں میں سرمایہ نکاسی کرنی چاہئے جو گھاٹے میں چل رہے ہیں لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ منافع میں چلنے والی کمپنیوں میں بھی اس حد تک سرمایہ نکاسی کی جاسکتی ہے کہ جہاں ان کی انتظامیہ پر ان کا کنٹرول برقرار رہے مثلاً حکومت اپنا حصہ 51فیصد تک ہی رکھے بقیہ 49فیصد حصص فروخت کردے لیکن بڑے سرمایہ کار اس پر آسانی سے راضی نہیں ہوتے اس لئے یہ مسئلہ اٹک جاتا ہے۔ 2008میں حکومت نے BSNLمیں سرمایہ نکاسی کرنی چاہی تب یہ کمپنی 10ہزار کروڑ روپیہ کے منافع پر چل رہی تھی اور اس کے حصص کے خریداروں کی لائن لگی ہوئی تھی لیکن ٹیلی مواصلات کے میدان میں پرائیویٹ پارٹیوں کے آ جانے سے یہ کمپنی ان سے مقابلہ نہیں کرسکی اور محض 6برسوں میں 10سے 15ہزار کروڑ روپیہ سالانہ کے گھاٹے پر چل رہی ہے اور اب کوئی بھی اس کے حصص خریدنے میں دلچسپی نہیں دکھارہا ہے۔
سرمایہ نکاسی کے معاملے میں بدعنوانی کے بھی کئی معاملات سامنے آئے جن میں تازہ ترین معاملہ سرکاری زمرہ کے ایک ہوٹل کی سرمایہ نکاسی کا ہے جس میں سابق وزیر ارون شوری اور کئی افسران سی بی آئی کی نظر میں آگئے ہیں۔ الزام ہے کہ کئی کمپنیاں تو اتنی سستی فروخت کردی گئیں کہ ان کے پاس زمین کی شکل میں اس سے کئی گنا زیادہ سرمایہ موجود تھا۔ یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے اور سرمایہ نکاسی میں ان تمام باتوں کا دھیان رکھنا اور کمپنی کے اثاثوں واجبات اور دیگر امور پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ باجپئی جی نے تو اس کے لئے ایک الگ وزارت ہی قائم کردی تھی پھر بھی ارن شوری جیسا شخص الزام سے نہیں بچ پایا۔ یہ بات دیگر ہے کہ اس بار ویسا شور نہیں مچ رہا ہے جیسا منموہن حکومت کے معاملات میں خود بی جے پی مچاتی تھی۔
گذشتہ دنوں مرکزی کابینہ کی معاشی امور کمیٹی نے آئل اینڈ نیچرل گیس کمیشن کے 5فیصدی کول انڈیا کے 10فیصدی اور این ایچ پی سی کے 11فیصدی حصص فروخت کرنے کی منظوری دی۔ یہ تمام کمپنیاں منافع میں چل رہی ہیں اس لئے حکومت کو امید ہے کہ وہ اس سرمایہ نکاسی سے 40ہزار کروڑ روپیہ حاصل کرلے گی دوسری جانب مخالف پارٹیوں کا الزام ہے کہ منافع دینے والی کمپنیوں کے حصص فروخت کرکے حکومت دراصل اڈانی، امبانی، ٹاٹا وغیرہ جیسے بڑے سرمایہ داروں کو منافع پہنچاکر اپنے الیکشن فنڈ میں ملی رقم مع سود واپس کرنا چاہتی ہے ۔ مخالفین کو ایسے الزام لگانے کا حق ہے لیکن حکومت کو اپنی سماجی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے جو رقم درکار ہوتی ہے وہ یا تو ٹیکسوں کی شکل میں عوام سے وصولی جاتی ہے یا پھر ایسے ہی ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں حکومت نے دوسرا راستہ اختیار کرکے دراصل کانگریس حکومت کے شروع کئے گئے معاشی اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھایا ہے جس پر سیاسی نقطہ نظر سے تو تنقید کی جاسکتی ہے لیکن معاشی طور سے ایک درست اور حق بجانب قدم ہے۔
سرکاری اداروں (PSU)کو سفید ہاتھی بننے سے روکنے کے لئے ان کے کام کاج میں اصلاحات ضروری ہیں کیونکہ بغیر منافع کمائے کوئی بھی ادارہ چل نہیں سکتا عوام کی گاڑھی کمائی سے ٹیکس کی شکل میں حاصل رقم چند ہزار یا چند لاکھ لوگوں کی عیش وعشرت پر نہیں خرچ کی جاسکتی سرمایہ نکاسی کا یہی اصل مقصد ہے اور یہ بالکل درست ہے۔
جواب دیں