اس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ سرکار کسی بھی پارٹی کی ہو ، کام کرنے کے انداز اور طریقے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آتی اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔دہلی میں جیت کر آنے والی عام آدمی پارٹی نے بھی عوام کے ساتھ کئی وعدے کیے تھے، ان کی سرکار تو پہلے بھی آئی تھی، مگر 49دنوں میں وہ سرکار ختم ہوئی۔ہم عوام سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا نہیں کرسکتے ایسا کہہ کر کیجریوال نے استعفیٰ دیا تھا۔ مگر دوبارہ ایک نئے جوش اور حوصلہ کے ساتھ وہ اقتدار میں آئے ہیں۔انھوں نے دہلی میں مودی کو شکست دے کر وزیر اعلیٰ کی کرسی حاصل کی ہے۔جس پیمانے پر عوام نے انھیں ووٹ دیے ہیں اسی پیمانے پر عوام کے ان سے توقعات وابستہ ہیں۔کیجریوال کچھ نیا کرکے دیکھائیں گے ایسی لوگوں کی سوچ ہے ، لوگوں کے توقعات ہیں ، مگر ان توقعات کو خاک میں ملانے کا کام کیچروال کر رہے ہیں۔
کیجریوال نے ایک جلسۂ عام میں عوام کو مخاطب ہوکر کیا کہ اگر ہم ۵سال تک بھی اقتدار میں رہے مگر لوگوں کو کیے ہوئے وعدے صرف 50%تک ہی پورے کرسکتے ہیں۔ ہم تمام وعدوں کو کسی قیمت پر بھی پورا نہیں کرسکتے ہیں۔ملک کا اقتدار بھلے ہی بدل جائے مگر انتظامیہ تو وہی ہوتی ہے۔جس کی وجہ سے سرکاری کاموں کی رفتار توقعات پر پوری نہیں اُترتی، ایسا انھیں محسوس ہوتا ہے۔ مگر کیا انتظامیہ بدلنے کایا ان میں رفتار کا جذبہ پیداکرنا کیجریوال کے بس کے باہر ہے ؟کیجریوال نے جو وعدے کیے ہیں انھیں پورا کرنے کی ضرورت ہے۔مگر کسی بھی قسم کا مطالعہ کیے بغیر یا جائزہ لیے بغیر یہ سوچنا اور کہنا کہ اقتدار میں جو پارٹی ہے اس سے بہتر کام میں کرسکتا ہوں کہاں تک درست ہے؟مگر جب اقتدار میں آتے ہیں تو انھیں سیاسی نشیب و فراز کا اندازہ ہوجاتا ہے۔پھر انھیں اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ لوگوں کے وعدے کیوں پورے نہیں کیے جاسکتے ہیں۔
اگر مہاراشٹر حکومت کی مثال دیں تو انھیں ٹول ناکوں سے پاک مہاراشٹر کرنے کا عزم کیا تھا، ٹول ناکہ کی وجہ سے بی جے پی نے اس وقت کی کانگریس سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ٹول ناکہ کے موضوع نے بھی کانگریس کو شکست دینے میں اہم رول اداکیا تھا۔مگر اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی ٹول ناکوں کو ہٹانے میں مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے۔کیونکہ اس وقت جو ٹول ناکوں کے تعلق سے معاہدے ہوئے تھے ، وہ اب درد سر بن گئے ہیں۔اس کا مطلب یہی ہوا کے بی جے پی نے اس وقت ٹول ناکو ں کو لیکر جو الزام لگائے، وہ بنا کسی مطالعہ اور بنا جائزہ لیے لگائے گئے تھے۔جس کی وجہ سے عوام ناراض ہوسکتی ہے۔ہم بھی دیگر سیاسی لیڈران کی طرح ہے یہ کیجریوال نے ثابت کردیا ہے۔کیجریوال کی پارٹی میں فی الحال لیڈران کو برطرف کرنے کی مہم شروع ہوچکی ہے، اس کے ساتھ ساتھ کیجریوال پارٹی کے دیگر تمام باتیں بحث کا موضوع بن گئی ہیں۔
ان تمام باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کی کیجریوال بھی دیگر لیڈران کی طرح عوام کے مسائل حل کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کررہے ہیںیا عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکا م ثابت ہورہے ہیں۔انھوں نے الیکشن کے تعلق سے جو فنڈ حاصل کیا تھا اس پر بھی کافی سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔خیر اگر کیجریوال نے جو 50%لوگوں کے وعدوں کو پورا کرنے کا اعلان کیا ہے ، اگریہی پورا کرلیتے ہے تو اس میں بھی عوام چین کی سانس لے سکتی ہے اور کیجریوال کی سیاسی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
جواب دیں