سرزمین کربلا ،خطبہ حسین ،شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ!!!

از قلم: جاوید اختر بھارتی

عاشورہ کی رات ختم ہوئی اور دسویں محرم الحرام کی قیامت نما صبح نمودار ہوئی سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اہلبیت اور اپنے تمام جانثاروں کے ساتھ فجر کی نماز ادا فرمائی-

اب دسویں محرم کا سورج عنقریب نکلنے والا ہے حضرت امام حسین، ان کے اہلبیت اور تمام ساتھی تین دن کے بھوکے پیاسے ہیں ایک لقمہ بھی کسی کی حلق کے نیچے نہیں اترا اور نہ ہی ایک قطرہ پانی حلق سے نیچے گیا ایسے لوگوں پر ظلم وجبر و  جفا کے پہاڑ توڑ نے کیلئے بائیس ہزاروں ہزار کی تعداد میں تازہ دم لشکر موجود ہے اور اس لشکر نے جنگ کا نقارہ بجادیا،، آقائے دوعالم صل اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لال،، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے نونہال کو مہمان بناکر بلانے والی قوم نے جانوں پر کھیلنے کی دعوت دیدی،، حضرت امام عالی مقام میدان کارزار میں تشریف لائے اور ایک جامع تقریر فرمائی یعنی خطبہ دیا،، اللہ رب العالمین کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا ائے لوگوں میرے نسب پر غور کرو کہ میں کون ہوں،، پھر اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سوچو کہ کیا تمہارے لیے میرا خون بہانا جائز ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ نہیں ہوں؟ کیا میں ان کے چچا زاد بھائی علی کا فرزند نہیں ہوں؟ غور کرو سید الشہداء امیر حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ میرے باپ کے چچا اور جعفر طیار خود میرے چچا تھے کیا تم میں سے کسی نے یہ نہیں سنا ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ دونوں جنتی جوانوں کے سردار ہیں میری یہ باتیں پوری طرح سچ ہیں اس لیے کہ میں کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتا مجھے پہچانو میں رسول اللہ کا نواسہ ہوں فاتح خیبر علی کا لخت جگر ہوں خاتون جنت فاطمہ زہرا کا نور نظر ہوں میرے خون سے اپنے ہاتھوں کو نہ رنگو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کربلا والے یہ تو جانتے ہی تھے کہ یہ نبی کریم علیہ السلام کے نواسے ہیں پھر اپنا تعارف کرانے کی کیا ضرورت تھی لیکن نہیں امام عالی مقام کو نانا جان سے درس ملا ہے کہ دشمن کے سامنے پہلے اپنا نظریہ پیش کرو، اپنا کیریکٹر و کردار پیش کرو تاکہ کل وہ یہ نہ کہنے پائے کہ ہمیں معلوم نہیں تھا جس طرح رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کو جمع کر کے پوچھا کہ بتاؤ میں کون ہوں تو سب نے کہا کہ آپ محمد ہیں، آپ سچے ہیں، آپ امانتدار ہیں یعنی سب نے جب سچائی کا اعتراف کرلیا تب رسول کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے  کہا کہ اگر میں یہ کہوں کہ ان پہاڑوں کے پیچھے ایک طاقتور لشکر چھپا ہوا ہے جو اچانک تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم سچ مانوگے تو سب نے کہا تھا کہ ہاں ہم سچ مانیں گے کیونکہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ہے یعنی ایک بار پھر سب نے سچائی کا اعتراف کرلیا تب نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سنو اللہ ایک ہے،، اس کا کوئی شریک نہیں،، اور میں اللہ کا رسول ہوں،، آج سے تم بتوں کی پوجا کرنا چھوڑ دو بس اتنا کہنا تھا کہ وہی لوگ جو اب تک سچائی کا اعتراف کر رہے تھے سخت ترین مخالف ہوگئے گالیاں دینے لگے آج انہیں کا نواسہ کربلا کی سرزمین پر کہہ رہا ہے کہ کیا میں نے کبھی شریعت سے بغاوت کی ہے، کیا میں نے کبھی رب کے قرآن اور نبی کے فرمان سے منہ موڑا ہے، کیا میں نے کبھی کسی کا حق مارا ہے، کیا میں نے کبھی قوانین اسلام کی خلاف ورزی کی ہے، کیا میں نے کبھی امانت میں خیانت کی ہے، کیا میں نے کبھی جھوٹ بولا ہے تو سب نے یہی کہا کہ نہیں تب امام عالی مقام نے کہا کہ تو پھر یہ بتاؤ کہ آل رسول پر پانی کیوں بند کیا گیا، ہمیں قتل کرنے کا منصوبہ کیوں بنایا گیا پانی تو اس کا بند ہونا چاہیے جو شریعت کا باغی ہوجائے، جو احکام خداوندی کا منکر ہو جائے سنجیدگی کے ساتھ غور کرو یزید کی بیعت کو ٹھکرا کر ہمارے ساتھ آؤ میں نانا جان سے کہکر تمہاری شفاعت کراؤنگا اتنا سننا تھا کہ وہ امام عالی مقام کو جنگ کیلئے للکارنے لگے،، انکی آنکھوں پر پردہ پڑچکا تھا وہ دنیا کی دولت و شہرت اور منصب کی لالچ میں اندھے ہوچکے تھے انہیں یہ بھی احساس نہیں ہورہا تھا کہ ہم جس نبی کا کلمہ پڑھ تے ہیں انہیں کے نواسے کو بھوک اور پیاس سے تڑپا رہے ہیں اور قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں انہیں یہ بھی احساس نہیں ہورہا تھا کہ ہم میدان محشر میں رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے،، امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ رسول کائنات نے فرمایا ہے کہ حسین منی وانا من الحسین یعنی حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں،، جس نے حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے حسین سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اب یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہوگی کہ جس نے رسول سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی اور جس نے اللہ سے دشمنی کی وہ لعنتی نہیں تو اور کیا ہے-

اب آؤ معاملہ کیا تھا معاملہ تو یہی تھا کہ بیعت کرو جان بچاؤ یہ اعلان یزید کی طرف سے تھا لیکن یزید فاسق وفاجر تھا، اسلامی قوانین کی خلاف ورزی کرتا تھا، حلال و حرام کی تفریق کو مٹا رہا تھا، دین اسلام کو جھٹلا رہا تھا، اور وہ امام حسین سے بیعت کا مطالبہ اس لئے کر رہا تھا کہ مجھے سند حاصل ہوجائے کہ میری حکومت اچھی ہے، میری حکومت معتبر ہے، میرا کردار اچھا ہے مجھے نواسہ رسول تک کی تائید و حمایت حاصل ہے یقیناً اگر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یزید کے ہاتھوں پر بیعت کر لیتے تو اس کو سند حاصل ہوجاتی لیکن نواسہ رسول ایسا کر ہی نہیں سکتے تھے ان کے ہاتھوں میں صداقت، عدالت، سخاوت، شجاعت کا پرچم تھا اور یہ پرچم میدان بدر میں خود اللہ و رسول نے بلند کیا ہے،، اور اسی پرچم اسلام کو ہاتھوں میں تھام کر عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آدھی دنیا فتح کرڈالی،، آج وہ پرچم سرزمین کربلا میں کسی فاسق و فاجر کے ہاتھوں میں چلا جائے ایسا ہوہی نہیں سکتا،، یزید کے ظلم و دہشتگردی اور جور و جفا کے آگے امام عالی مقام صبر کی چٹان بن کر کھڑے رہے نتیجہ یہ ہوا کہ یزید امام حسین کا خون بہا کر بھی اپنے مشن میں ناکام ہوگیا اور امام حسین نے اپنا پورا کنبہ قربان کر کے مذہب اسلام کے وقار اور معیار کو بلند کردیا اور صبح قیامت تک کے لیے عالم اسلام اور عالم انسانیت کے لئے عقیدت و احترام و محبت کا مرکز بن گئے یزیدی اتنے بڑے ظالم تھے کہ چھ ماہ کے ننھے بچے علی اصغر کی پیاس پر بھی انہیں ترس نہیں آیا امام حسین کی بیوی نے دیکھا کہ علی اصغر پیاس سے تڑپ رہے ہیں زبان باہر اچکی ہے انہوں نے امام پاک سے کہا کہ آپ علی اصغر کو لیجائیے  شائد دشمنوں کو ان کا حال دیکھ کر ترس آجائے وہ پانی کے چند قطرے پلادیں آخر کار امام حسین انہیں اپنے ہاتھوں میں لیکر میدان کارزار میں جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو تمہاری دشمنی مجھ سے ہے یہ ننھا بچہ ہے اس پہ ترس کھاؤ پانی کے لیے یہ تڑپ رہا ہے لیکن ان ظالموں نے علی اصغر کا حال دیکھ کر بھی پانی نہیں دیا اور نہیں تو بدبخت حرملہ نے تیر چلایا جو علی اصغر کی حلق کو چیرتا ہوا امام حسین کے بازوؤں میں پیوست ہوگیا ننھے حضرت علی اصغر نے بھی جام شہادت نوش کرلیا امام نے خون ہاتھوں میں لیکر آسمان کی طرف اچھالتے ہوئے کہا کہ الہ العالمین اس ننھے علی اصغر کی قربانی قبول فرما اٹھارہ سال کے جوان علی اکبر جب شہید ہوئے تو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اتنا غم اور اتنا صدمہ ہوا کہ آپ جب خیمے سے میدان کارزار گئے تو آپکی ڈاڑھی کے بال کالے تھے لیکن جوان بیٹے علی اکبر کے لاشے کو اٹھایا اور خیمے تک لائے تو سبھی بال سفید ہوگئے حضرت عباس، حضرت قاسم بھی یکے بعد دیگرے شہید ہوتے گئے یزیدی دنیاوی لالچ میں اندھے ہوکر آل رسول اور اہلبیت کا خون بہاتے رہے لیکن اللہ کی طرف سے حر ریاحی کو ہدایت ملی وہ امام پاک کے خطبے سے متاثر ہوئے انکی آنکھوں سے پردہ ہٹا اور انہیں امام پاک کا مقام و مرتبہ نظر آیا گھوڑے کو ایڑ لگایا دوڑاتے ہوئے بارگاہ حسین میں پہنچے عرض کیا آقا میں آپکی غلامی کرنے آیا ہوں میں نے آپ کا راستہ روکا یہاں تک لایا میرے امام مجھے معاف کردیجئے اگر امام پاک کہدیتے کہ میں نے معاف کیا تو وہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتا اس لئے امام پاک نے فرمایا حُر تو تو جہنم سے آزاد ہوگیا اب کیا پوچھنا تھا وہ حُر سے اب حضرتِ حُر ہوگئے امام سے میدان میں جانے کی اجازت مانگی میدان میں گئے کتنے لوگوں کا سرقلم کردیا اور خود بھی جام شہادت نوش کیا کربلا کی تاریخ ہر اعتبار سے مکمّل و مرتب نظر آتی ہے انبیاء کرام علیہم السلام کے ادوار میں جتنے بھی مغرور اور ظالم گذرے ہیں جنہوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کو ٹھکرایا وہ سارے تیور کربلا کی سرزمین پر موجود تھے سب کے مقابلے میں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شریعت مصطفیٰ کے تقدس کو پامال ہونے سے بچانے کے لیے صبر و استقامت سے لبریز ثابت قدم رہے اور بارگاہِ رب ذوالجلال میں اپنا کنبہ قربان کرتے رہے جب کوئی نہیں بچا تو خود شہادت کے دولھا بن کر میدان کارزار میں پہنچے یزیدیوں نے کہا کہ ائے حسین اب تو کوئی نہیں بچا ہے اب سے یزید کی بیعت کرلو تمہاری جان بچ جائے گی تو شہید ابن شہید،، سخی ابن سخی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ بدبختوں میں جان بچانے نہیں آیا ہوں بلکہ نانا جان کا دین بچانے آیا ہوں تم اگر اب سے میرے نانا جان کے دین کی طرف اجاؤ تو میں تمہیں معاف کردونگا اور نانا جان سے شفاعت کی سفارش بھی کرونگا لیکن ان ظالموں پر امام پاک کے آخری خطبے کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا چاروں طرف سے تیروں کی بارش شروع کردی امام عالی مقام زخموں سے چور ہوگئے،، وقت نماز آگیا امام نے کہا کہ ظالموں دیکھو اور سنو اذان کے کلمات میں کس کے نانا کا نام لیا جارہا ہے ابن سعد سے بھی مخاطب ہو کر امام نے کہا کہ ائے بدبخت ایک تیرا باپ تھا جو رسول اکرم کے اوپر آنے والے تیروں کو اپنے سینے پر روکا کرتاتھا ایک تو ہے کہ سب سے پہلا تیر تو نے آل رسول پر چلا یا ہے گھوڑے سے زمین پر اترے کہا کہ مجھے نماز ادا کرلینے دو تاکہ دنیا سے جاتے جاتے بھی میں اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر اس کا شکر ادا کرلوں کہ ائے اللہ تونے مجھے ثابت قدم رکھا میں نے بچپن میں نانا سے کیا ہوا وعدہ نبھایا ائے اللہ میں اس حال میں بھی تجھ سے راضی ہوں بس یہی خواہش ہے کہ صبحِ قیامت تک دین اسلام کا ڈنکا بجتا رہے – 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

24اگست 2020(فکروخبر)

«
»

کرونا نے ہمیں مسلمان کردیا

توہینِ رسالت کی سزا کے لیے عالمی قانون بنایا جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے