آپ کو یاد ہوگا ایک وقت تھا جب پورے ملک سے اندرا کو ہٹانے کی آواز آرہی تھی ۔ اس وقت اندرا جی نے غریبی ہٹاؤ کا نعرہ دیا ۔ملک کی عوام نے پوری اکثریت کے ساتھ اندرا کو سرکار میں لا بٹھایا غریبی اپنی جگہ رہی الٹے غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ۔ پھر دیش میں نعرہ لگا افسر شاہی کو ٹا پرمٹ کو ختم کرنا ہے اور سماج واد کو لانا ہے ایسا لگا کہ اس سے دیش کے تمام دکھ دور ہو جائیں گے عوام اس نعرہ کے ساتھ کھڑے نظر آئے کوٹہ پرمٹ تو ضرور ختم ہوا لیکن بیرو کریٹس کی طاقت اور بڑھ گئی ۔ دنیا کے ساتھ چلنے کی چنوتی میں جلد ہی احساس کرادیا کہ صرف سماج واد کی بنیاد پر ہم دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ نتیجہ کے طور پر ہم اپنی پرانی روش پر واپس آگئے ۔اس بار نکسل واد ، فسادات اور دہشت گردی نے ملک کو اپنی چپیٹ میں لے رکھا تھا ملک اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی جستجو میں لگ گیا اسی کے سہارے نئی پارٹی اور نئے لوگ اقتدار میں آگئے ۔اس وقت ملک کی سیاست میں کئی بڑی تبدیلیاں رو نما ء ہوئیں ذات ، برادری ، طبقہ واریت ، رعلاقائیت اور مذہب کو سیاست میں جگہ مل گئی ۔فسادات کے پیچھے کی قواعد سے پردہ تو ہٹا لیکن اس کا حل نہ مل سکا ۔ صوبائی پارٹیوں کا جنم ہوا دیش و عوام کے بنیادی مسائل نعروں اور آوازوں میں کہیں دب کر رہ گئے سیاست کے نئے اصولوں اور ہتھیاروں نے ہماری سماجی قدروں کو پامال کردیا ۔
اس سیاسی تبدیلی نے دیش کو سکھا دیا کہ طلباء نو جوانوں ، کسانوں ، غریبوں ، مزدوروں محنت کشوں اور کمزوروں سے کیسے نپٹا جائے ۔ عوام کو کس طرح گمراہ کیا جائے اور متوسط طبقہ کو کس کام میں لگایا جائے ۔ملک کا ہر شخص پریشان تھا کاروبار سے روز گار سے اور پیسے کی کمی سے خزانہ خالی تھا ملک کو چلانے کے لئے سرکار کو سونا گروی رکھنا پڑا ۔ان حالات سے نپٹنے کے لئے ملک کی عوام کے سامنے کھلی معیشت کا حل پیش کیا گیا کہا یہ گیا کہ اس سے دنیا کے لوگوں کو
ہمارے ملک میں سرمایہ لگانا آسان ہوگا باہر کا پیسہ آئے گا تو ہماری مالی حالت بہتر ہوگی ، روز گار بڑھے گا ، پیسے کی تنگی دور ہوگی اور کاروبار میں اضافہ
لیکن اس راستہ سے دیش میں پونجی واد کو داخلہ ہی نہیں ملا بلکہ وہ سرکار کی پالسیوں پر اثر انداز ہونے لگا ملک کے اثاثے ایک کے بعد ایک فروخت ہونے لگے یا ان میں پونجی پتیوں کی شمالیت ، سرکاری کمپنیوں کو نجی زمرے میں دیدیا گیا اسے نجی کاری کا نام دیا گیا ،عوام کو شائنگ انڈیا کا خواب دکھایا گیا مہنگائی ، بے روزگاری بڑھتی غریبی محنت کشوں اور کسانوں کی پریشانیوں نے شائننگ انڈیا سے عوام کا موہ بھنگ کردیا ۔
ایک بار پھر ملک میں دلتوں ، پچھڑوں ، غریبوں ، محنت کشوں اور کسانوں کی بات ہونے لگی اقلیتوں کے کمزور طبقات کو اتر اٹھانے پر زور کیا جانے لگا روزی روٹی کے بنیادی مسئلوں کو اہمیت دینے پر سوچا جانے لگا بنیادی سوالوں نے مذہب ، طبقہ ، علاقہ اور علیحدگی پسندوں کی سیاست کومسترد کردیا عوام نے اپنا حق ادا کیا لیکن جو لوگ بنیادی سوالوں کی معارفت اقتدار میں آئے وہ اپنی ذمہ داری پوری نہ کر سکے ۔ اس کا خوب پروپیگنڈہ ہوا در اصل یہ وہ وقت تھا جب پوری دنیا معاشی بحران کا شکار تھی لوگوں کو نوکریوں سے نکالا جا رہا تھا سرکار کی ذمہ داری ملک اور عوام کو اس سے بچانا اور محفوظ رکھنا تھا دوسری طرف کول بلاک ، اسپکٹرم ، گیس کے کنوؤں اور کھدانوں کو نجی کاری کے تحت الکاٹ منٹ میں پچھلی سرکار سے ہوئی چوک بھی اس سرکار کے حصہ میں آئی اور تیسرے دہشت گردی کے معاملوں میں کچھ ایسے لوگ پکڑے گئے جن کا تعلق ہندوتو واد ی تنظیموں سے تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان مسائل پر بیورکریسی کا رول بھی سوالوں کے گھیرے میں تھا ۔
عوام میں بے چینی کا پیدا ہونا فطری تھا مہنگائی بڑھ رہی تھی غیریبی کی نئی نئی تعریفیں گھڑی جا رہی تھیں کسان اپنی زمینوں کے چھننے اور ان کی فصلوں کی صحیح قیمت نہ ملنے سے پریشان تھے نوجوان و طلباء کو روزگار نہ ملنے کا ڈستا رہا تھا ۔ سرکار عوام اور کارپوریٹس کو مطمئن نہیں کر پا رہی تھی ۔ کارپوریٹس کو اور منافع درکار تھا اور عوام کو قیمتوں کے کم ہونے کا انتظار ۔کارپوریٹس نے اپوزیشن اور این جی او کے لوگوں کی مدد سے عوام کے غصہ کو بھڑکانے اور سرکار کی طرف سے مایوسی پیدا کرنے کی کوشش کی میڈیا جو کارپوریٹس کے ہاتھ میں ہے اس نے اپنے مالکوں کی مرضی کے مطابق کام کیا بیروکریسی نے آندولن کے لئے آکسیجن فراہم کی کارپوریٹس چاہتے تھے کہ سرکار کا مکھیا ایسے شخص کو بنایا جائے جو ان کے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہو ۔اس کام کیلئے انہوں نے اپنے خزانوں کا منھ کھول دیا ۔
ملک میں پہلی مرتبہ عوام کو خواب دکھانے اور نو جوانوں کے سپنے سجانے کی ایسی آندھی شروع ہوئی کہ اس نے ذات برادری نسل علاقہ بھوک غریبی کسان مزدور جیسے تناور درختوں کو اکھاڑ پھینکا ۔ آندھی کے ساتھ چمک نے لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کردیا سوچنے سمجھنے کی طاقت سلب ہوگئی انا ہزارے کو دوسرا گاندھی بتایا گیا ۔ انا نے لوک پال کا مطالبہ شروع کیا یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ ملک میں تمام مسائل کرپشن کی وجہ سے ہیں اگر پرپشن دور ہو جائے تو سب کو روزگار مل سکتا ہے مہنگائی ختم ہو سکتی ہے کسانوں مزدوروں کی پریشانی دور ہو جائے گی غریبوں کی حالت سدھر جائے گی بھوکوں کو کھانا ملنے لگے گا وغیرہ وغیرہ یہ آندولن انا نے دہلی میں شروع کیا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں انا کی مانگ کی حمایت نے دھرنے ہونے لگے سوال یہ ہے کہ وہ کون لوگ تھے جو پورے ملک میں دھرنے دے رہے تھے اور لوک پال میں ایسا کیا تھا کہ جس کے لاگو ہونے پر کرپشن ختم ہو سکتا تھا ۔جبکہ یوپی اے سرکار نے اپنے آخری وقت میں لوک پال بل پاس بھی کرالیا تو کیا ملک کی حالت میں کوئی تبدیلی ہوئی ؟۔
انا کے تماشہ کو الیکٹرونک میڈیا نے خوب بڑھا چڑھا کر عوام کے سامنے پروسہ اس کا رنگ پھیکا پڑنے سے پہلے ہی بابا رام دیو کالی دولت کا ڈرم پیٹنے لگے سرکار نے ان کی بات پر بھی خصوصی توجہ دی لیکن وہ رام لیلا میدان سے ہٹنے کو تیار نہیں تھے ایسا لگ رہا تھا کہ کالی دولت کسی بکسے میں بند ہو اور سرکار اسے نکالنا نہیں چاہتی ان کا ڈرامہ کئی دن تک جاری رہا ۔ عوام کو ان دونوں نے اتنا جذباتی بنا دیا کہ اسے سرکار کی کسی بات پر بھروسہ ہی نہیں رہا عوام کے رخ کو دیکھ کر اروند کجریوال نے ایک نئی سیاسی پارٹی کا اعلان کردیا ۔
بابا رام دیو اور انا ہزارے نے جو ماحول تیار کیا تھا اس میں سپنوں کے سوداگر کی آمد کا انتظار تھا اس کے آنے سے پہلے ہی اس کی شبیہ ایسی بنائی گئی کہ وہ دور اندیش دانشور اور پڑھا لکھا انسان ہے آپ کو یاد ہوگا کہ تاریخ جغرافیہ کی سر پیٹ لینے والی نادر معلومات کے نمونے ان کی تقریروں میں جا بجا سننے کو ملے بحر حال سپنوں کے اس سودا گر کے لئے جو زمین تیار کی گئی تھی اب اس کی باری تھی کہ وہ عوام کے بیچ جا کر جادو کا کھیل دکھائے عوام کو اس بات کا موقع نہ دے کہ وہ اپنی رائے کا استعمال کرتے وقت کچھ اور سوچے انہیں اپنے چاروں طرف صرف اچھے دن نظر آئیں ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس دکھائی دے ۔ یا پھر گجرات کی ترقی کا ماڈل ، ہر شخص یہ سوچ کر خوش ہوتا رہے کہ کالی دولت اب آئی اور تب آئی ہر گھر کو پندرہ لاکھ ملیں گے ہر نو جوان کے پاس روزگار ہوگا ، ہر کسان خوشحال ، مزدور کے گھر چل کر کام آئے گا ، غریبی کا کیا مطلب جب کوئی غریب ہی نہیں رہے گا ۔ یہ انتظام بھی کیا گیا کہ جن پر اس جادو کا اثر نہ ہو وہ اروند کے جال میں الجھ جائیں ۔
چھ ماہ سے زیادہ گزر چکے ہیں ہمارے سپنوں کے سودا گر ملک کی ریاستوں سے زیادہ دوسرے ملکوں کا سفر کرچکے ہیں ہر ملک سے ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کی گہار لگا چکے ہیں دیش کے عوام اچھے دنوں کا انتظار کررہے ہیں عوام کے سر سے ابھی جادو کی خماری نہیں اتری ہے ایک کے بعد دوسری ریاست کے عوام یہ ثابت کرنے میں لگے ہیں کہ ہم بے وقوف تو نہیں لیکن ضرورت سے زیادہ آشا وادی ہیں لیکن ہماری تاریخ یہ ضرور بتاتی ہے کہ ہم جس طرح کسی کو سر پر چڑھانے میں دیر نہیں لگاتے اسی طرح سچائی سامنے آنے پر دھول چٹانے سے بھی پیچھے نہیں رہتے ۔ اس تاریخ میں امید کی کرن باقی ہے دہلی کے چناؤ سے یہ معلو م ہو جائے گا کہ سپنے دکھانے والوں کے حصہ میں کیا آتا کیا عوام انہیں سرپر بٹھائیں گے یا پھر ان کی جگہ دکھائیں گے اس وقت دہلی والوں کی سمجھ کا بھی امتحان ہے ۔۔
جواب دیں