سَنگھ راہل گاندھی سے خوفزدہ..

ظفر آغا

اس کو کہتے ہیں گھبراہٹ! جی ہاں، آر ایس ایس گھبرائی ہوئی ہے اور اس گھبراہٹ کا سبب ہیں راہل گاندھی۔ یہ بات آر ایس ایس کے سربراہ جناب موہن بھاگوت کے خصوصی انٹرویو سے عیاں ہے۔ انھوں نے سَنگھ کے اخباروں کو خصوصی انٹرویو دیا جس میں انھوں نے ہندوؤں کے ساتھ ساتھ ملک کی مسلم اور عیسائی اقلیتوں کے بارے میں اپنا اظہارِ خیال کیا۔ اس انٹرویو میں بنیادی طور پر بھاگوت نے وہی کہا ہے جو آر ایس ایس کا نظریہ ہے۔ ان کے انٹرویو کا لب و لباب یہ ہے کہ ہندوستان ایک ہندو راشٹر ہے جہاں ہندو aggression (جارحیت) بچا ہے۔ کیونکہ وہ ایک ہزار سال بعد اپنے کو آزاد محسوس کر رہا ہے۔ دوسری بات جو انھوں نے مسلمانوں کے تعلق سے کہی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے جامہ میں رہیں۔ اپنے کو ہندوؤں سے زیادہ برتر مت سمجھیں۔ یعنی وہ دوسرے درجے کا شہری بن کر رہیں ورنہ ان کو Hindu Aggression جھیلنا پڑے گا۔ عیسائیوں کو سَنگھ کے سربراہ نے آگاہ کیا ہے کہ وہ تبدیلی مذہب سے باز آئیں، ورنہ۔

سنگھ ہمیشہ سے اسی نظریہ کا حامی رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ موہن بھاگوت نے انہی باتوں کو اس وقت اس قدر شد و مد سے دوہرایا کیوں ہے۔ یعنی اس انٹرویو کے لیے سَنگھ نے یہ وقت کیوں چنا! سنگھ ہر کام بہت سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ اس لیے اس انٹرویو کی ٹائمنگ بھی بہت سوچ سمجھ کر کی گئی ہوگی۔ ظاہری طور پر تو حالیہ دقتوں میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے سنگھ کے سربراہ ایک خصوصی انٹرویو دیں۔ ملک میں نریندر مودی کی حکومت سنگھ کے نظریات لاگو کر رہی ہے۔ وہ بابری مسجد ہو یا تین طلاق یا پھر کشمیر کو آئینی طور پر ملی خصوصی مراعات، ان تمام باتوں کو مودی حکومت حل کر چکی ہے۔ بنیادی طور پر ملک میں ہندوتوا کا ڈنکا بج رہا ہے۔ آر ایس ایس جو چاہتا ہے ہر وہ بات ہو رہی ہے، تو پھر یہ خصوصی انٹرویو کیوں!

پچھلے دو مہینوں کے اندر صرف ایک بات نئی ہوئی ہے، وہ ہے راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا۔ اس یاترا کا بنیادی اور نظریاتی محور سنگھ کے نظریات کے خلاف ہے۔ راہل گاندھی ہندوستان کے وہ واحد لیڈر ہیں جنھوں نے کبھی بھی سنگھ سے ڈر کر کچھ نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ سے نظریاتی طور پر سنگھ اور بی جے پی کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس سے قبل ان کی باتوں پر سنگھ کا کوئی رد عمل نہیں ہوتا تھا، مگر اس بار بات کچھ الگ ہے۔ راہل گاندھی اب صرف بیان نہیں دے رہے ہیں، وہ ہزاروں میل پیدل چل کر گاؤں گاؤں، نگر نگر عام ہندوستانیوں کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ سنگھ اور بی جے پی کا ایجنڈا نفرت کا ایجنڈا ہے۔ وہ لوگوں کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ اس ایجنڈا سے محض ہندوستان ہی نہیں بلکہ عام ہندو بھی کمزور ہو رہا ہے۔ وہ کھل کر یہ کہتے ہیں کہ اس ملک کی میڈیا ہر وقت ہندو-مسلم، ہندو-مسلم کی رَٹ لگاتا رہتا ہے۔ ان کا پیغام ہے کہ یہ نفرت کی آگ ملک کو جھلسا رہی ہے۔

صرف اتنا ہی نہیں، راہل اس نفرت کے ایجنڈے کے خلاف گاندھی جی کے انداز میں عوام کے سامنے آر ایس ایس کے نظریہ کے خلاف مختلف مذہبوں اور قوموں کے درمیان محبت، صلح اور ہم آہنگی کا پیغام دے رہے ہیں۔ 2014 سے اب تک راہل گاندھی وہ پہلے شخص ہیں جو اس محبت اور آپسی ہم آہنگی کا پیغام لے کر عوام کے بیچ گھوم رہے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں، راہل کا یہ محبت کا پیغام لوگوں کے دلوں کو چھو بھی رہا ہے۔ تب ہی تو اب تک لاکھوں ہندوستانی راہل کی بھارت جوڑو یاترا میں شریک ہو چکے ہیں۔ سنگھ کو اس بات سے گھبراہٹ ہے، کیونکہ سچ یہ ہے کہ بابری مسجد کا سن 1986 میں تالا کھلنے کے بعد سے اب تک کسی پارٹی نے اس طرح ہندوتوا نظریہ کے خلاف کوئی بہت واضح اسٹینڈ نہیں لیا تھا۔ لیکن راہل نے ملک کی سیاست کو ایک نیا موڑ دیا ہے۔ انھوں نے ملک کے عوام اور تمام سیاسی پارٹیوں کے سامنے یہ بات رکھ دی ہے کہ اس ملک میں اس وقت متضاد نظریے ہیں۔ ایک ہندوتوا کا نفرت کا ایجنڈا اور دوسرا اس ملک کا صدیوں پرانا ہر مذہب کے احترام اور اس کا آپس میں محبت اور امن سے مل جل کر رہنے کا نظریہ۔ یعنی راہل گاندھی اب سنگھ اور بی جے پی کے خلاف ایک نظریاتی جنگ لڑ رہے ہیں۔ راہل کی اس جرأت نے سنگھ کو بوکھلا دیا ہے۔ تب ہی تو موہن بھاگوت نے یہ انٹرویو دے کر یہ جواب دیا ہے کہ سنگھ اپنے نظریہ پر قائم ہے اور قائم رہے گی۔ لیکن ادھر راہل گاندھی بھی اپنی بات پر قائم ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہندوستان کو اس نظریاتی جنگ کی ضرورت تھی اور راہل گاندھی نے ملک کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ جہاں اب یہ جنگ ہو کر رہے گی۔ سنگھ کو اس بات کی گھبراہٹ ہے، کیونکہ نفرت کی سیاست ہمیشہ کامیاب نہیں ہو سکتی۔

مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

«
»

اسمارٹ فون نسل نو کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں

رحمت عالمؐ کی مثالی دوستی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے