ڈاکٹر سلیم خان
ملک کی دگر گوں صورتحال سے ہر کوئی فکر مند ہے۔ کورونا کی وباء نے زندگی کے تمام شعبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ان سنگین حالات میں اخلاقی گراوٹ کی یہ عالم تھا کہ کھپت میں اضافہ دیکھ کربھگوا لباس زیب تن کرنے والوں نےشمشان میں کام آنے والی لکڑی کی قیمت کئی گنا بڑھا دی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ غریب اپنے اقربا کی لاشیں گنگا میں بہانے پر مجبور ہوگئے اور جن سے یہ نہیں ہوسکا وہ ندی کنارے دفنا کر اس پر رام نامی چنری لگا گئے۔ اس صورتحال پر قابو پانے میں ناکام رہنے والی بھگوادھاری سرکار نے اپنی ناکامی کی پردہ پوشی کے لیے مزدور لگوا کر رام نامی چنری ہٹوادی۔ سفید پوش تاجروں نے دوائیوں کی خوب جم کر کالا بازاری کی اور جان بچانے والے ادویات کی قیمت کئی گنا بڑھا کر وصول کی۔ اترپردیش جیسے متاثر صوبے کے سیاستداں حقیقت کا اعتراف کرنے کے بجائے انکار کی کیفیت میں مبتلا رہے۔ عدالتیں سرکاری لاپرواہی پر حکومت کی سرزنش کرکے عوام کا غم و غصہ تو کم کرتی رہیں مگر کوئی سزا نہیں سنائی۔ میڈیا عوام کی توجہ غیر اہم مسائل کی جانب موڑ کر اپنے آقاوں کی خدمت بجالاتا رہا۔ سرکار ی بدانتظامی نے سودیشی اڈارپونا والا کو جان کے خوف سے لندن فرارہونے پر مجبورکردیا اور پردیسی کمپنیوں کو اجازت دینا پڑا۔ ایسے میں ہر باشعورہندوستانی کا فکرمند ہونا لازمی ہے۔ سنگھ پریوار میں بھی لاکھ خونخوار سہی انسان ہیں اس لیے وہ وچار منتھن پر مجبور ہوگیا۔ آرایس ایس کے 10 بڑے عہدیدار وں نے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کی قیادت میں دہلی کے اندر غورو خوض کرنے ارادہ کیا یہ بات قابلِ ستائش ہے حالانکہ عوام کو یہ شکایت ہے کہ ؎
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
بی جے پی کی اعلیٰ کمان کے ساتھ آر ایس ایس کا وچار منتھن جن موضوعات پر ہورہا ہے ان کو دیکھ کر یہ خیال گزرتا ہے کہ نہ تو وہ پشیمان ہے اورنہ توبہ کا ارادہ ہے۔ یہ نشست توپچھلے ایک ماہ سے جاری لیپا پوتی کوموثر انداز میں آگے بڑھانے کی مشقت معلوم ہوتی ہے۔ قومی سیاست کی ابجد سے واقف فرد بھیان سوالات کا جواب جانتا ہے جن سنگھ پریوار بحث و مباحثہ کررہا ہے۔ مثلاً اس کے ایجنڈے میں پہلا سب سے گمبھیر سوال یہ ہے کہ بنگال میں انتخابی شکست کیوں ہوئی ؟ اس میں حیرت کون سی بات ہے ؟2019کے قومی انتخاب کے بعد بی جے پی کو کسی بھی ریاستی انتخاب میں واضح فتح نہیں ملی۔ ہریانہ میں حکومت سازی کی خاطر اسے اپنے حریف کے آگے ہاتھ پسارنا پڑا۔ مہاراشٹر میں وہ بھی نہ ہوسکا اور اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ جھارکھنڈ میں وزیر اعلیٰ خود اپنی سیٹ نہیں بچا سکا اور ہاتھ ملتا رہ گیا۔ دہلی میں پھر جھاڑو پھر گیا۔ بہار میں پھر سےتیرنشا نے پر لگا اور لالٹین کی روشنی سےکمل نہیں کھل سکا۔ اس دوران آر ایس ایس کمبھ کرن کی نیند سوتا رہا۔ بنگال میں ہار ہوئی تو نیند سے جاگا لیکن اب پچھتائے کا ہووت جب چڑیا چگ گئی کھیت ؟
سنگھ کے سامنے بنگال سے متعلق دوسرا سوال ہندوؤں پر تشدد کا ہے۔ بنگال کے اندر سیاسی تشدد ہمیشہ سے رہا ہے اور اس میں ہندو مسلم کی تفریق کبھی نہیں رہی بلکہ یہ سیاسی حریفائی کا معاملہ تھا اور ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے ہندو اور مسلم اپنے مخالفین کو بلاتفریق مذہب و ملت قتل کرتے رہے ہیں۔ آر ایس ایس نے اس کو ختم کرنے کے بجائے اس کا فائدہ اٹھایا۔ مختلف جماعتوں میں سیاسی غنڈہ گردی کرنے والوں کو پناہ دی۔ ان کے ذریعہ غارتگری کا طوفان برپا کیا اور انہیں قتل کروایا۔ اس سیاسی تشدد کو ہندو مسلمان کا نام دے کر سارے ملک کو گمراہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے بنگالی عوام کبھی متاثر نہیں ہوں گے۔ اس بار جب انتخاب کے دوران سی آر پی ایف نے مسلمانوں پر گولی چلادی کو بی جے پی نے اس کی حمایت کی۔ وہ بھول گئے کہ انتخاب کے بعد مرکزی حفاظتی دستہ لوٹ جائے گا اورجب صوبائی پولس گولی چلائے گی تو وہ اس کی مخالفت کیسے ہوگی ؟ اس وقت وہ سوچ رہے تھے کہ پولس تو ان کے اشارے پر کام کرے گی لیکن نہیں ایسا نہیں ہوا۔ اب پولس ممتا کے زیر نگرانی کام کررہی ہے اور جب بی جے پی والے ہنگامہ آرائی کرتے ہیں تو ان کو لباس سے پہچان کر ٹھیک کردیتی ہے۔ آر ایس ایس اگر بی جے پی کو اس وقت سمجھاتی تو اب فکرمندی کی نوبت نہیں آتی۔
سنگھ کے سامنے بنگال سے متعلق تیسرا سوال یہ ہے وہاں فکری جنگ کون سی سمت جائے گی ؟ فی الحال قومی سیاست میں نظریات کی اہمیت ختم ہوگئی ہے۔ مغربی بنگال میں انتخاب سے قبل بی جے پی نے ٹی ایم سی کے 50 رہنماوں کو اپنے اندر شامل کرلیا۔ ان میں سے 33؍ارکان اسمبلی تھے۔ کیا وہ لوگ فکر و نظر کی تبدیلی کے سبب بی جے پی میں آئے تھے۔ وہ سب تو ابن الوقت تھے جو اقتدار کی لالچ میں بی جے پی میں آئے تھے اور اب مایوس ہو کر لوٹنے کے چکر میں ہے۔ اس لیے آر ایس ایس کو یہ فکر ستا رہی ہے کہ ان کو واپس جانے سے کیسے روکا جائے حالانکہ فکری اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کا واپس جانا سنگھ پریوار کی فکری تطہیر کے لیے مفید ہے لیکن سچ تو یہ ہے بی جے پیسمیت پورا زعفرانی خاندان موقع پر ستی کا تر نوالہ بن چکا ہے۔ کسی نہ کسی طرح اقتدار میں رہنا اس کا مقصد وجود بن گیا ہے اس لیے وہ فکری جنگ کے بجائے کرسی کی لڑائی میں مصروفِ عمل ہے۔
مغربی بنگال کے بعد اترپردیش میں بی جے پی کی حالت زار نے آر ایس ایس کی نیند اڑا رکھی ہے۔ وہ پنچایتی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے اسباب تلاش کررہا ہے۔ اس کی اولین وجہ یوگی مہاراج کا حقائق سے انکار ہے۔ ایک یوگی کا بھیس بدل کر اگر کوئی سربراہ ڈنکے کی چوٹ پر جھوٹ بولے اور سچ کہنے والوں کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرے تو اس کو جو قیمت ادا کرنی پڑتی ہے وہی اس کے ساتھ ہوا ہے؟ آر ایس ایس میں اگر ہمت ہے کہ اس کی جگہ کسی لائق و فائق انسان کے ہاتھ میں ریاست کی زمامِ کار دے اور اگر ایسا نہیں کرسکتا تو بلاوجہ اپنی عزت خراب نہ کرے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ سنگھ کے داخلی جائزے کے مطابق اگر آج ریاستی انتخابات کا انعقاد ہو تو بی جے پی کواسمبلی میں صرف ۶۵ نشستیں ملیں گی۔ اس لیے اب مایاوتی کو ساتھ لینے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اگر اس کے نتیجے میں ریاست کا ٹھاکر بھی ناراض ہوجائے تو جتنا فائدہ ہوگا اس سے زیادہ نقصان ہوجائے گا۔ اس بار یوگی جی کی بد انتظامی نے براہمنوں کوپہلے ہی بی جے پی سےبرگشتہ کردیا ہے اورآگے چل کر سنگھ پریوار کو اس ناراضی کی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
حیرت کی بات یہ ہے کورونا کی دوسری لہر کے زبردست تباہ کاری کے بعد بھی سنگھ پریوار کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ وبا کے دوران مودی حکومت اپنی ساکھ کیوں کھو بیٹھی ؟ اس سوال کا آسان سا جواب یہ ہے کہ اس نے کبھی اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ بلا سوچے سمجھے لاک ڈاون لگایا۔ تالی، تھالی اور دیا بتی سے کورونا کو بھگانے کی کوشش کی اور بغیر ویکسین کے وبا کو ماربھگانے کا احمقانہ گمراہ کن اعلان کردیا۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے اپنی ساری توجہ بہار اور بنگال کے انتخابات پر صرف کی۔ سنگھ کو چاہیے تھا کہ وہ حکومت کے کان اینٹھتی خود خدمت کا ہاتھ بڑھاتی اور حکومت کو ساتھ لیتی لیکن وہ خود خواب غفلت میں کھوئی ہوئی تھی۔ گنگا میں تیرتی لاشیں اور سڑکوں پر جلتے شمشان بھی اسے ہوش میں نہیں لاسکے وہ تو خیر سے اترپردیش کے انتخابات میں بی جے پی کو شکست ہوگئی ورنہ وہ اب بھی سب کچھ چنگا ہے کی افیون میں مست رہتی۔ سنگھ اب مرکزی کابینہ میں تبدیلی سے پارٹی کے فائدے پر غوروخوض کررہا ہے لیکن مودی و شاہ نہ تو خود فلاح بہبود کا کوئی کام کرتے ہیں اور نہ کسی وزیر کو یہ کرنےکا موقع دیتے ہیں۔
سنگھ پریوار کی بھارتیہ کسان یونین نے مرکزی حکومت کیخلاف جاری کسان تحریک کو ناکام کرنے حتی الامکان کوشش کی اور جب اس میں ناکام ہوگئی تو یہ جان کر پریشان ہے کہ بی جے پی لیڈران متعدد ریاستوں کے دیہات میں داخل ہونے سے کیوں گریز کر رہے ہیں؟ یہ تو جیسی کرنی ویسی بھرنی والی کیفیت ہے۔ آپ کسانوں کی آواز کو ان سنی کردیں اور ان کے گاوں میں جاکر ووٹ مانگیں تو ڈنڈے نہیں تو اور کیا ملیں گے؟ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مودی اور شاہ نے پچھلے دنوں جوش و خروش میں سنگھ کی اہمیت کو تقریباً ختم کردیا تھا۔ اب چونکہ وہ دونوں کمزور ہوچکے ہیں اس لیے سنگھ کو موقع ملا ہے اور وہ اپنی اہمیت بڑھا رہا ہے۔ امسال راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی ایک اہم رابطہ میٹنگ 5 جنوری کو احمد آبادمیں ہوئی تھی۔ اس اجلاس میں سنگھ کے اہم افراد کے ساتھ بی جے پی صدر جے پی نڈا اور تنظیم کے جنرل سکریٹری بی ایل سنتوش بھی شامل ہوے تھے۔ اس اجلاس میں آر ایس ایس کے 200 سے زیادہ ممبران نے تین دنوں تک وچار منتھن کیا تھا۔ کئی سینئر وزراکی موجودگی میں مرکزی حکومت کے پالیسیوں پرتبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ کسانوں کی تحریک بھی زیر غور آئی لیکن یاتو یہ لوگ کوئی ٹھوس پروگرام نہیں بناسکے اور بنایا بھی تو مودی سرکار نے اسے قابلِ اعتناء نہیں سمجھا۔ اب بھی یہی ہوگا۔ حالیہ واقعات چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں کہ سنگھ پریوار کی قوت فکر وعمل تباہ ہوچکی ہے اور بقول مولانا احمد عروج قادی؎
قوت فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے
پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں