سنگھ اور مسلمانوں کے بنتے بگڑتے رشتے

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

مسلم وفد نے چند ایسے سوالات کردیے جس کے بعد آر ایس ایس ممکن ہے اس گفتگو کو جاری رکھنے پر سنجیدگی سے غور کرے اور بعید نہیں کہ ازخود یہ قصہ ختم کردے۔
مسلمانوں کے حوالے سے مودی سرکار کی کیفیت ’کہا بھی نہ جائے اور سہا بھی نہ جائے‘ جیسی ہوگئی ہے۔ امت کے ساتھ موجودہ حکومت کا معاندانہ رویہ مسلمانوں سے قربت کی راہ میں سب بڑی رکاوٹ ہے۔یہ لوگ کانگریس اور دیگر جماعتوں پر مسلمانوں کی طرفداری کا شور مچا کر اپنی سیاست چمکاتے رہے ہیں اس لیے ملت کے تعلق سے منصفانہ قدم اٹھانے کی صورت میں اسے شدت پسند ہندو رائے دہندگان کی ناراضی کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ پہلے تو مسلمانوں کو سیاسی حاشیے پر پہنچانے کا کریڈٹ لیتے ہیں لیکن جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ مغربی بنگال میں ان کی کراری شکست اور اترپردیش میں سیٹوں کی کمی کے پیچھے مسلم رائے دہندگان کا ہاتھ ہے تو ان کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے وزیر اعظم کبھی مسلم خواتین پر تین طلاق قانون بنانے کا احسان جتا کر توقع کرنے لگتے ہیں کہ وہ انہیں ووٹ دیں گے تو کبھی پسماندہ مسلمانوں کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ دونوں حربے ہر بار ناکام ہوجاتے ہیں اس لیے مسلمانوں کو بے وقوف بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
ایسی صورتحال میں مسلمانوں سے رابطہ کرنے کی ذمہ داری آریس ایس کو سونپ کر یہ امید کی جاتی ہے کہ اس کے ذریعہ کچھ مسلم شخصیات اور تنظیموں کو رام کرکے مسلم مخالفت میں کمی کی جائے گی ۔ سنگھ پریوار کی جانب سے مسلمانوں سے رابطے کی کوشش ہمیشہ ہوتی رہی ہے لیکن یہ کام خفیہ طور پر ہوتا تھا کیونکہ کوئی مسلمان اس کا اعتراف کرکے بدنامی مول لینا نہیں چاہتا۔ اس روایت سے انحراف کرتے ہوئے سنگھ کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت نے یکم ستمبر 2019 کو علی الاعلان مولانا ارشد مدنی سے ملاقات کی اور اس کا مقصد محبت کو عام کرنا بتایا۔ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی، بھائی چارہ اور امن کے قیام کی خاطر مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت جمیعت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی اور آریس یس کے سربراہ موہن بھاگوت کی تاریخی ملاقات سے یہ توقع وابستہ کی گئی تھی کہ دونوں رہنماوں کی قربت سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوار منہدم ہوگی ۔ اس مشترکہ نشست کو ملک میں ہندو مسلم بھائی چارہ کا سنگ میل قرار دیا گیا ۔
موہن بھاگوت کے ساتھ ملاقات کی تفصیل ڈھائی سال قبل خود مولانا ارشد مدنی نے صحافیوں کو بتائی تھی۔ مولانا کے مطابق ملک میں روز افزوں نفرت کے خلاف پیغام امن کا عام کرنے کی خاطر یہ پہل خود ان کی جانب سے کی گئی کیونکہ اس معاملے میں علماء کرام اور دینی شخصیات کا کردار ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ آگے بھی علمائے کرام اور دینی ومذہبی شخصیات قومی یکجہتی، ملکی استحکام، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن وامان کےلیے ہمیشہ کی طرح اپنا سیاسی اور کلیدی کردار کرتے رہیں گے۔ انہوں نے ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل وغارت گری کو خلاف مذہب بتا کر اس کی پرزور مذمت کی ۔ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ اس وقت چہار جانب پھیلے ہوئے نفرت کے ماحول میں اپنی فکر کے بجائے ملک کی فکر کرنے کو ضروری ہے ۔
مولانا ارشد مدنی نے موہن بھاگوت کے سامنے اپنا یہ نظریہ پیش کیا کہ آج اگر آپسی بھائی چارے کےلیے کام نہیں کیا گیا تو آنے والا وقت نہ صرف اقلیتوں کےلیے بلکہ ملک کے ہر باشندے کے لیے نقصان دہ اور تباہ کن ہوگا، اس لیے سب کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق موہن بھاگوت نے بھی اس تجویز کی دل کھول کر حمایت کی اور کہا کہ ملک کے اتحاد اور آپسی بھائی چارہ کےلیے وہ مل کر کام کریں گے۔ موہن بھاگوت نےمذکورہ تجویز پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئےاس پہل کو ملک کے مفاد میں مناسب قرار دیا اورساتھ مل کر کام کر نے کی یقین دہانی کی ۔مولانا ارشد مدنی نے امید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں وہ مل جل کر اپنے ملک کے مفاد میں کام کریں گے۔
مولانا نے اس وقت کے بدترین حالات سے نجات کے لیے پوری قوم کے اتحاد پر زور دیتے ہوئے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء اتحاد کی فضا قائم کرنے کےلیے اپنا کردار ادا کرنے کی تلقین کی تھی ۔ انہوں نےدیرپا امن کےلیے اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے آگے بڑھنے کی ترغیب دی اور اسلام کی بابت کہا کہ یہ امن و آشتی کا مذہب ہے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی ملک کو امن کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر انہوں نے صاف کہا کہ جمیعت علماء ہند شروع ہی سے مانتی ہے کہ کوئی بھی حکومت جذبات کی بنیاد پر عوامی تحریک کا سامنا نہیں کر سکتی۔این آر سی سے متعلق جمیعت کی کوششوں کو بیان کرنے کے بعد سپریم کورٹ سے اچھے فیصلے کی توقع ظاہر کی گئی تھی ۔
یہ ملاقات ایسے وقت ہوئی تھی جب ملک کے اندر حالات اچھے نہیں تھے ۔ اس کی تین بنیادی وجوہات تھیں۔ اول تو بی جے پی ’گھر میں گھس کر مارا‘ کے فرقہ وارانہ نعرے پر کامیاب ہوئی تھی اور اس کا دماغ آسمان پر تھا۔ دوسرے ایوانِ پارلیمان میں بی جے پی نے اکثریت کے بل پر پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی دفع 370آئین سے حذف کروادی تھی۔ یہ معاملہ اب بھی عدالت عظمیٰ کی آئینی بنچ کے سامنے معلق ہے۔ تیسرے بابری مسجد کے معاملے سپریم کورٹ کی جانب سے مقررہ مصالحتی کمیٹی اپنے مقصد میں ناکام ہوچکی تھی۔ ایسے میں مولانا ارشد مدنی نے تو کشمیر پر دوٹوک موقف کا اظہار کردیا مگر مولانا محمود مدنی نے سرکاری فیصلے کی قومی اور بین الاقوامی سطح پر حمایت کردی ۔ امن و آشتی کی ان خوشگوار باتوں کے دس ہفتہ بعد بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کا بد بختانہ فیصلہ آگیا اور ساری امیدوں پر یکسر پانی پِھر گیا۔
بابری مسجد کے معاملے میں نہایت ناعاقبت اندیش فیصلے کے بعد حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ بہار، بنگال اور اتر پردیش کا انتخاب جیتنے کی خاطر بی جے پی نے فرقہ واریت کو خوب ہوا دی یہاں تک کہ جون 2022میں بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما نے نبی کریم ﷺ کی گستاخی تک کرڈالی۔ عالمی سطح پر جب پر مذمت کا طوفان اٹھا تو حکومت کا دماغ ٹھکانے آیا۔ اس کے بعد ڈیمیج کنٹرول کے لیے نوپور شرما سے پلہّ جھاڑلیا گیا ۔نوپور پر علامتی کارروائی ہوئی اور عدالت نے اسے بری طرح پھٹکارا۔ مسلم دنیا میں ملک کی شبیہ سدھارنے کی خاطر یہ سب کیا گیا تھا ۔ اسی تناظر میں پچھلے سال اگست 2022 میں پانچ سابق مسلم بیوروکریٹس کی آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت سے ملاقات ہو ئی ۔اس وفد نےمختلف جماعتوں کے ذمہ داران سےملاقات کرکے انہیں بھی گفتگو میں شرکت کی دعوت دی۔ مجوزہ ملاقات سے قبل موہن بھاگوت نے ایک طویل انٹرویو دے کر رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ انہوں نےکئی متنازع باتیں کہنے کے بعد مسلمانوں کو اوٹ پٹانگ مشوروں سے نواز دیا ۔ اس کے بعد تو اگر کسی مسلم تنظیم کے سربراہ نے مشترکہ نشست میں شرکت کا ارادہ بھی کیا ہوتا تو اس کو ترک کردیتا ۔ اس لیے سبھی نے اپنے نمائندے بھیجنے پر اکتفا کر کے کنارے ہوگئے۔ موہن بھاگوت نے یہ ردعمل دیکھا تو خودبھی اپنے نمائندوں کو روانہ کردیا۔
14جنوری کو آر ایس ایس کے ساتھ ملاقات سے ایک دن قبل مسلم نمائندوں کی ایک نشست ہوئی جس میں سابق لیفٹنٹ گورنر دہلی جناب نجیب جنگ، سابق چیف الیکشن کمشنر جناب ایس وائی قریشی، صحافی اور سابق رکن پارلیمنٹ جناب شاہد صدیقی، جناب سعید شیروانی ،مولانا ارشد مدنی ، مولانا محمود مدنی ، انجینئر محمد سلیم ، مولانا نیاز احمد فاروقی، مولانا سلمان چشتی اور ملک معتصم خان نے شرکت کی ۔ اس موقع پر پہلے مرحلے میں ملک کے اندر فرقہ وارانہ منافرت، لا قا نونیت اور مسلمانوں کے ساتھ جانب دارانہ برتاو کے موضوع پر بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔آر ایس ایس سربراہ کےتازہ بیان پربھی گفتگو کرنے کی بات ہوئی اور آئندہ مرحلوں میں دیگر اہم اور بنیادی موضوعات کو ترتیب کے ساتھ زیر بحث لانے کا ارادہ کیا گیا۔
14؍ جنوری کی میٹنگ میں ملی نمائندوں نے موہن بھاگوت کے انٹرویو سے متعلق تین سوالات کیے ۔ پہلا یہ کہ ہندو ایک ہزار سال سے بیرونی طاقتوں سے حالت جنگ میں ہیں سے کیا مراد ہے؟ ہمارے دشمن صرف بیرون میں نہیں، اندربھی ہیں کا منشا کیا ہے؟ اور مسلمانوں کو احساس برتری کی ذہنیت کو ترک کرنے کا مشورہ کیوں دیا گیا ہے؟ وفد کے ارکان نے اس بات کو واضح کیا کہ آر ایس ایس اگر باہمی گفت وشنید کی بابت سنجیدہ ہے تو ایسی باتوں سے غلط پیغام نہیں دینا چاہیے۔ اس نصیحت کے علاوہ جس پر عمل درآمد کی توقع نظر نہیں آتی مسلم وفد نے چند ایسے سوالات کردیے کہ جس کے بعد آر ایس ایس ممکن ہے اس گفتگو کو جاری رکھنے پر سنجیدگی سے غور کرے اور بعید نہیں کہ ازخود یہ قصہ ختم کردے۔
مسلم وفد نے موجودہ حالات کی روشنی میں پوچھا کہ لا اینڈ آرڈر کی صورت حال اور مسلمانوں پر یک طرفہ مظالم پر سنگھ کیا سوچتا ہے؟ماب لنچنگ پر سنگھ کا کیا موقف ہے اور اس کو روکنے کے سلسلے میں کیا اس کے پاس کوئی منصوبہ ہے؟کیابلڈوزر کی سیاست سراسر ظلم و ناانصافی نہیں ہے؟ اورکیا اس عمل سے ملک کی شبیہ نہیں بگڑ رہی ہے؟ مسلم نوجوانوں کی بے جا گرفتاریوں کے بارے میں سنگھ کی کیارائے ہے؟نفرت پر مبنی تقاریر پرسنگھ خاموش کیوں رہتا ہے؟کیا اس کا ارتکاب کرنے والوں پر کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟ نسل کشی پر اکسانے والے بیانات پر کارروائی ،مسلمانوں کے ساتھ مختلف میدانوں میں غیر منصفانہ سلوک،تعلیمی سہولیات میں کٹوتی ، معاشی ترقی کی پالیسیوں میں امتیازی رویہ وغیرہ پر بھی استفسار کیا گیا۔ آر ایس ایس کی جانب سے ان سنجیدہ سوالات کے جوابات مضحکہ خیز تھے۔
آر ایس کے نمائندوں نے بلا واسطہ ماب لنچنگ کا جواز فراہم کرتے ہوئے کہا کہ گائے کی ہتیا سے ہندو بھاؤناؤں کو ٹھیس پہنچتی ہےاس لیے ہجومی تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اس کو روکنا تو درکنار مذمت کرنے زحمت بھی گوارہ نہیں کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے نشست کے دوہفتوں بعد دہلی سے قریب میوات میں ایک ماب لنچنگ کا واقعہ ہوگیا اور 28 جنوری کو بائیس سالہ نوجوان وارث ہجومی تشدد کا شکار ہوکر شہید ہوگیا۔ اس کے بعد سنگھ کی جانب سے پروچن شروع ہوگیا جس میں نیشنل ازم کے تحت مذہب و ذات پات پر ملک و قوم کو فوقیت دینے کا مشورہ دیا گیا۔طلاق کےذریعہ مسلم عورتوں کے ساتھ ناانصافی کے خلاف ان کے مطالبے پر قانون بنانے کا احسان تھوپا گیا حالانکہ وہ قانون اپنے آپ میں ایک ظلم ہے۔مسلم اکثریتی علاقوں کو منی پاکستان نہ کہنے کی رائے دی گئی لیکن اس کا مقام غلط تھا اس لیے کہ مسلمان نہیں بلکہ سنگھ والے یہ کہتے ہیں۔ یہ ان کے داخلی اصلاح کا مسئلہ ہے۔ دونوں جانب پائی جانے والی غلط فہمیوں کی جانب توجہ دلائی گئی مگربی جے پی کا آئی ٹی سیل اور سنگھ کے لوگ دن رات غلط باتیں پھیلانے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ مہاراشٹر کے اندر لوجہاد اور لینڈ جہاد جیسے مصنوعی موضوعات پر ہندو جن آکروش ریلیوں کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ فی زمانہ غلط فہمی پیدا کرنے والوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ ان کو سرکاری تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔
بالآخر بلی تھیلے سے باہر آگئی اور سنگھ کے نمائندوں نے تعلقات کی بہتری کو تین مساجد کی حوالگی سے مشروط کردیا ۔ آر ایس ایس کے رویہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ فی الحال اقتدار کے نشے میں مدہوش ہیں اس لیے ان سے مسلمانوں کے مسائل پر گفتگو بے سود ہے مگر دو مقاصد کے لیے، اور یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ پہلا مقصد دعوت اسلام کی ذمہ داری ہے۔ انبیائے کرام نے اس معاملے دوست اور دشمن میں تفریق نہیں کی اور مسلمان بھی ایسا نہیں کر سکتے اس لیے دعوتی روابط لازمی ہیں ۔ دوسری بات کلمہ حق کو پیش کرنے کا جہاد ہے۔ بے کم و کاست اپنا واضح موقف رکھنے اور انہیں ان کی غلطی کا احساس دلانے کی خاطر بھی رابطہ ہونا چاہیے ۔ اس سے زیادہ کی فی الحال توقع نہیں ہونی چاہیے لیکن جب حالات بدلیں گے اور یہ لوگ بھی سرکار کی جانب سے معتوب ہوں گے جیسا کہ ایمرجنسی کے دوران ہوئے تھے تو اس وقت تعاون و اشتراک کا ماحول بن سکتا ہے ۔ اندرا گاندھی کی آمریت کے خلاف ایسا ہوا تھا۔ اس سے قبل کسی خیر کی توقع بظاہر محال ہے مگر اللہ کی مشیت سے سب کچھ ممکن ہے۔
ہندوستان کی تاریخ میں اس کی دلچسپ مثال آزادی کے پہلے بھی ملتی ہے۔ 1937 میں منعقد ہونے والے صوبائی انتخابات میں کانگریس نے ہندو مہاسبھا کو بری طرح روند دیا تھا تاہم،1939 میں کانگریس کی وزارتوں نے وائسرائے لارڈ لِن لِتھگو کے ہندوستانی عوام سے مشورہ کیے بغیر دوسری عالمی جنگ میں ہندوستان کو جنگجو قرار دینے کے اقدام کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ اس کے سبب ہندو مہاسبھا کا بھلا ہوگیا اور اس نے بعض صوبوں میں حکومتیں بنانے کے لیے مسلم لیگ کے ساتھ الحاق کرلیا اور سندھ، صوبہ سرحد وبنگال کی مخلوط حکومتوں میں شامل ہوگئی ۔سندھ میں ہندو مہاسبھا کے ارکان غلام حسین ہدایت اللہ کی مسلم لیگی حکومت میں شامل ہوئے۔ مارچ 1943 میں، سندھ کی صوبائی اسمبلی کے اندر پاکستان کے قیام کے حق میں قرارداد منظور کی گئی اس کے باوجود سندھ حکومت کے مہاسبھائی وزراء نے استعفیٰ نہیں دیا، بلکہ محض ’’احتجاج سے خود کو مطمئن کیا‘‘
شمال مغربی سرحدی صوبے میں، ہندو مہاسبھا کے ارکان نے 1943 میں حکومت سازی کے لیے مسلم لیگ کے سردار اورنگ زیب خان کے ساتھ ہاتھ ملایا اور مہاسبھا کے رکن مہر چند کھنہ کابینہ کے اندر وزیر خزانہ بن گئے۔ بنگال میں، ہندو مہاسبھا نے دسمبر 1941 میں فضل الحق کی ترقی پسند اتحاد کی وزارت کرشک پرجا پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ ساورکر نے مخلوط حکومت کی بہترین کارکردگی کو سراہا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب ہندوتوا نواز کمزور ہوتے ہیں تو اپنے مفاد کی خاطر مسلمانوں کے ساتھ اشتراک عمل کی بابت سنجیدہ ہوجاتے ہیں مگر جب انہیں طاقت و قوت حاصل ہوجاتی ہے تو ان کا رویہ بدل جاتا ہے اور رعونت کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں ۔ عمائدین امت کو اس کا پاس و لحاظ رکھ کر ان سے گفت و شنید کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اپنی منصبی ذمہ داری ادا کرتے رہنا چاہیے۔ ویسے کسی خوش فہمی کا شکار ہوئے بغیر امت کا یہ رویہ ہونا چاہیے؎
نفرت کی ہر فصیل گرانے کے واسطے
تم اس طرف سے ہاتھ بڑھاؤ ، ادھر سےہم
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
بشکریہ : دعوت نیوز)

«
»

اسمارٹ فون نسل نو کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں

رحمت عالمؐ کی مثالی دوستی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے