تحویل اراضی جیسے قوانین پر اسے کانگریس اورکمیونسٹ پارٹی کے علاوہ این ڈی اے میں شامل اکالی دل اور شیوسینا کی حمایت بھی حاصل ہوسکتی ہے اس لئے کہ وہ دونوں کھل کر کسان مخالف قانون کی مخالفت کررہی ہیں۔
قومی انتخاب میں ناکامی کے بعد علاقائی جماعتوں کو شدید اندیشہ لاحق ہوگیاتھا کہ اب ان کے دن پورے ہو گئے ہیں۔ اس خوف نے ان کے اندر اتحاد کی ضرورت کو پیدا کیا۔یہ اتحاد بہار کے ضمنی انتخاب میں رنگ لایا اور بی جے پی کے وجئے رتھ کو لگام لگی لیکن اس کے باوجود خود اعتمادی کی کمی ٹھوس اقدامات کی راہ میں حائل رہی۔ دوسرا مسئلہ مانجھی کی بغاوت نے پیدا کیا لیکن دہلی انتخاب میں بی جے پی کی ناکامی نے ان لوگوں کے حوصلے بلند کردئیے اوریہ احساس پیدا کیا کہ کسی غیر کانگریسی جماعت کو بھی عوام کی زبردست حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔ جنتا پریوار اس سے قبل سنگھ پریوار کے شانہ بشانہ کانگریس کے خلاف محاذ ا?راء رہا ہیلیکن یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ اب کانگریس اس کے ساتھ بی جے پی کے بالقابل برسر پیکار ہے۔یہ مجبوری بھی ہے اور ابن الوقتی کا بھی تقاضہ ہے۔ اس طرح کی موقع پرستی کا مظاہرہ سنگھ پریوار بھی کرتا رہتا ہے لیکن اس میں اور جنتا پریوار میں فرق یہ ہے کہ سنگھ کے لوگ اپنے پریوار والوں کے ساتھ غداری نہیں کرتیایک دوسرے سے نہیں لڑتیجبکہ جنتا والے آپس میں بھڑ جاتے ہیں جس کے نتیجے میں سوڈہ واٹرکیابال کی مانند قائم ہونے والااتحاد دیکھتے دیکھتے بکھر جاتا ہے۔
خالص ابن الوقتی کو بھی اگر ایک نظریہ مان لیا جائے تو ہندوستان میں فی الحال چار نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک ہندو فسطائیت ہے ، دوسرے اشتراکیت، تیسرا اسلام اور چوتھا مادیت یاابن الوقتی۔ویسے مختلف نظریات کے حامل بھی بحالتِ مجبوری موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن وہ ان کانظریہ نہیں بلکہ اپنے اس سے انحراف ہوتا ہے۔ سرمایہ داری کو بھی لوگ ایک نظریہ کہتے ہیں لیکن شاید اس کی مثال اندھیرے کی سی ہے کہ اجالا جیسے جیسے کم ہوتا جاتا ہے تاریکی اپنے ا?پ پھیلتی چلی جاتی ہے اور جب روشنی پوری طرح غائب ہو جاتی ہے تو اندھیرے کا بول بالا ہوجاتا ہے۔ ان نظریاتی تحریکات میں سنگھ پریوار کو قدرتی طور پر ایک طرح کا امتیاز حاصل ہو گیا ہے اس لئے کہ اس کی ابتداء4 ڈاکٹر ہیڈگیوار نے ایک سماجی تحریک کی حیثیت سے کی تھی لیکن انہیں گرو گولوالکر جیسا مفکر میسر آگیا جس نے اس میں مذہبی و تہذیبی رنگ ڈال کر اسیفسطائی تحریک بنا دیا۔
جب تک ہندو مہاسبھا متحرک تھی قومی افق پر کسی اورہندوتوادی سیاسی جماعت کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی لیکن اس کے مفقود ہوجانے کے بعدسنگھ نے جن سنگھ کے نام سے اپنا ایک سیاسی شعبہ قائم کردیا اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا تعلیم گاہوں کیلئے ودیارتھی پریشد،زراعتی شعبے میں کسان سنگھ، صنعت وحرفت میں مزدور سنگھ، میناکشی پورم کے خلاف وی ایچ پی، رام مندر کیلئے بجرنگ دل، غیر ملکی سرمایہ کاری کے خلاف سودیشی جاگرن اورقبائلیوں کی فلاح کیلئے ونواسی کلیان جیسی تقریباً ۳۴ تنظیمیں عالم وجود میں آگئیں جن کامجموعہ سنگھ پریوار کہلاتا ہے۔ چونکہ یہ جماعتیں باہر سے کسی مجبوری کے تحت یکجا نہیں ہوئیں بلکہ انہیں ایک خاص مقصد کے تحت شعوری طور پر قائم کیا گیا اس لئے ان کے اندر فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ان کے اندر اختلافات تو ہوتے ہیں لیکن اس کے سبب انتشار نہیں پیدا ہوتااتحاد کی فضا قائم رہتی ہے۔
ہندوستان کی دیگر نظریاتی تحریکات کے ساتھ یہ ہوا کہ ان کی توجہات کسی خاص شعبے تک محدود رہیں جس کے سبب اثرات بھی محدود رہے۔ ان میں سے کچھ نے کارکنان کی خاطر خواہ تعداد کیبغیر جب اپنا دامن پھیلانے کی کوشش کی تو بے اثر ہو کررہ گئے۔ یہ بھی ہوا کہ سنگھ پریوار کی مانند۹۰ سال تک بغیر کسی خاطر خواہ کامیابی کے صبرو استقامت کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہنے کی کمی نے انہیں درمیان میں مایوس و بددل کردیا لیکن سب بڑا نقصان بہوجن سماج یا دراوڈ کلگم جیسی تحریکوں کا ہوا۔ ان لوگوں نے اپنی سیاسی جماعت بنانے کے بعدنظریاتی بیداری اور تنظیم و تربیت کو خیرباد کہہ دیا اور انتخاب کی نذر ہوگئے۔ اگر سنگھ نے بھی یہی کیا ہوتا تو اندراگاندھی کی موت کے بعد ہاتھ آنے والی شکست کے بعد اس کا بھی نام و نشان مٹ جاتا لیکن اس کے برعکس سنگھ پریوار نے بی جے پی کو۲۵ سال بعد دوبارہ خود اپنے بل بوتے پر اقتدار کا حقدار بنادیا۔
آر ایس ایس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ کسی فرد واحد یاخاندان کی جاگیر نہیں ہے بلکہ اس میں ہر تین سال بعد انتخابات ہوتے ہیں جس میں سر سنگھ چالک یعنی صدر کے بجائے سر کاریہ واہک یعنی سکریٹری جنرل چنا جاتا ہے۔ سنگھ کے اندر سکریٹری جنرل کی حیثیت دوسرے نمبر کی ہوتی ہے لیکن سنگھ کی تنظیم و ترتیب اس کی اولین ذمہ داری ہوتی۔ سنگھ چالک کا بنیادی کام فکری رہنمائی ہوتا ہے۔ اس فکری رہنمائی کا مظاہرہ آئے دن موہن بھاگوت کی جانب سے ہوتا رہتا ہے۔ کبھی تو وہ یہ ارشاد فرمادیتے ہیں کہ ہندوستان کے رہنے والے سارے باشندے ہندو ہیں تو کبھی مدر ٹیریسا پر کیچڑ اچھال دیتے ہیں۔ سنگھ کے سکریٹری جنرل کے عہدے پر سریش عرف بھیا جی جوشی ۲۰۰۹ سے براجمان ہیں۔
سابق سرسنگھ چالک سدرشن جب صحت کی بنیاد پر ازخود اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے تو موہن بھاگوت کو سکریٹری جنرل سیسر سنگھ چالک بنا دیا گیا۔ دیگر جماعتوں میں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے کہ کوئی خود اپنی مرضی سے معذرت پیش کردے بلکہ خود بی جے پی کے اندر عہدوں کیلئے بڑی جوڑ توڑ ہوتی ہے۔موہن بھاگوت کی ترقی کے سبب جو جگہ خالی ہوئی اس پر سنگھ کے اندر انتخاب ہوا۔ پرتی ندھی سبھا یعنی مجلس نمائندگان کے ارکان نے ونواسی آشرم میں غیر معمولی کاکردگی دکھانے والے بھیاجی جوشی کو اس ذمہ داری کیلئے منتخب کیا۔ ۲۰۱۲ میں دوبارہ مجلس نمائندگان نے اعتماد کا اظہار کردیا۔
اس اجلاس سے قبل ذرائع ابلاغ میں یہ افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ اس بار بھیا جوشی کی چھٹی کردی جائیگی اور نریندر مودی کی قریبی سمجھے جانے والے جوائنٹ سکریٹری دتاتریہ ہوسابلے کو جنرل سکریٹری بنا دیا جائیگا تاکہ موہن بھاگوت کے بعد وہ سر سنگھ چالک بن جائیں اور بی جے پی کی طرح آرایس ایس بھی مودی جی کی جیب میں آجائے لیکن ہوسابلے کو مودی جی قربت مہنگی پڑی اور سنگھ نے پھر ایک بار بھیا جی کو ان عمر۶۷ کے باوجود اتفاق رائے سیمنتخب کیا۔ اس بابت دورائیں سامنے آئی ہیں۔ ایک پرچارک کا خیال ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ سریش سونی جیسا کوئی سیاستدانوں سے قریب آدمی سنگھ کی اہم ذمہ داری پر فائز ہو۔ ایسا کرنے سے حکومت میں اپنے رسوخ بڑھانے والی بات بھی سنگھ کے اندر پسند نہیں کی گئی۔ ایک وجہ یہ بھی تھی چونکہ ہوسابلے مودی سے جونیر ہیں اس لئے پھر وہی صورتحال نہ پیدا ہوجائے جو پرمود مہاجن کے زمانے میں ہو گئی تھی جبکہ وہ سنگھ کو اہمیت ہی نہیں دیتے تھے۔ دوسری رائے زیادہ سنگین ہے ایک معمر پرچارک نے بھیا جوشی کے دوبارہ انتخاب کو قحط الرجال سے تعبیر کیا وہ بولا ہمارے یہاں قابل اورباصلاحیت افراد کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔اوپر کی سطح پرذمہ داریوں کو پر کرنے کیلئے لائق و فائق افراد کا فقدان ہے اسی لئے بھیا جی دوبارہ منتخب ہو گئے۔
سنگھ پریوار کی گومگوں کیفیت کا اثر اجلاس میں موجود ارکان پر دیکھا گیا۔ آوٹ لوک جریدے کے ایک صحافی نے جب ایک معمر پرچارک سے اس کے تاثرات دریافت کئے تو اس نے دو الفاظ میں ساری کہانی کہہ دی’ پست ہمت اور مجہول‘(demoralized & confused) اس کی وجہ دریافت کئے جانے پر وہ بولایہاں پر ’’ہمارے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔ہم تین دن تک یہ سوچتے رہے ہمارے رہنما نئی فکر اور حکمت عملی سامنے لائیں گے لیکن وہی پرانی باتیں دوہرائی گئیں خاص طور پر اس صورتحال میں جبکہ لوک سبھا میں ہماری اکثریت ہے۔نہ تو حکومت آرایس ایس کی سنتی ہے مثلاً وزارت انسانی وسائل اور نہ ہمارے پاس کرنے کو کچھ ہے‘‘۔ یعنی پہلے ایک کام تو یہ تھا حکومت کی مخالفت کرو اور اپنی حکومت بناو اب اپنی حکومت بن چکی اس کی مخالفت کرنہیں سکتے اس لئے گویا بے کار ہو گئے ہیں۔ سنگھ کیایک اور پر چارک نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہمارے ریزولیوشن دیکھئے۔ اب ہمیں کیا کرنا ہے یوگا اور مادری زبان میں تعلیم۔ کیا یہی آئندہ تین سالوں کا ہدف ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ ۲۰۱۴ کی انتخابی کامیابی کے بعد حکومت سنگھ کو مضبوط کرنے میں تعاون کرے گی لیکن اب پھر ہمیں توسیع کے کام میں لگا دیا گیا ہے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ ۲۰۱۴یقومی انتخابات کا انعقاد ایک ایسے وقت میں ہوا جب کانگریس پارٹی کی عدم مقبولیت بامِ عروج پر پہنچ چکی تھی۔ بدعنوانی کا سیلاب سر سے اونچا ہو چکا تھا اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ اس سے پہلے کے تیسرا محاذاپنے آپ کو منظم کرپاتا کارپوریٹ دنیا نے اپنا سرمایہ بی جے پی پر لگادیا اور ذرائع ابلاغ کے اندر نریندر مودی کی ایسی ہوا بنائی گئی کہ اس میں اچھے اچھوں کے قدم اکھڑ گئے۔ یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن میں داخل شدہ رپورٹ کے مطابق بی جے پی نے حزب اختلاف میں ہونے کے باوجود ۴۱۷ کروڈ روپئے خرچ کئے جبکہ کانگریس اقتدار پر قابض ہونے باوجود صرف ۵۱۶ کروڈ خرچ کر سکی۔ یہ تو وہ روپیہ ہے جس کاحساب دیا گیا جو کالا دھن خرچ کیا گیا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ نریندر مودی کو اپنے سامنے کسی مضبوط مدمقابل کی عدم موجودگی کا فائدہ ملا اور بی جے پی کو اپنے بل پر اکثریت حاصل ہو گئی۔
اس کامیابی میں حسب سابق سنگھ پریوار نے اپنی ساری توانائی جھونک دی۔ اس سے پہلے چونکہ کامیابی نہیں ملتی تھی اس لئے سنگھ والے یہ بتانے کوشش نہیں کرتے تھے کہ انہوں نے کون کون سے پاپڑ بیلے اس کے باوجود کچھ ہاتھ نہیں ا?یا لیکن اس بار چونکہ اکثریت آگئی تو سنگھ کے کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس کامیابی کا سہرہ بھی بھیا جی کے سر باندھا گیا حالانکہ ۲۰۰۹ میں بھی انہوں نے یہی سب کیا تھا لیکن اس وقت لاٹری نہیں لگی۔بی جے پی کی حکومت کے قیام کے بعد یہ پہلا مجلس نمائندگان کا اجلاس منعقد ہوا ہے۔ کاش کہ سنگھ کی میعاد چند ماہ قبل مکمل ہو گئی ہوتی یا بی جے پی کی مرکزی حکومت نے عوام کواس قدر مایوس نہیں کیا ہوتا لیکن مشیت کے فیصلوں میں بھلا کس کا عمل دخل ہے۔
اس بار مجلس نمائندگان کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کا کام دہلی کے انتخابی نتائج نے کیا اس لئے کہ یہ سوال پیدا ہوگیا اگرحقیقت میں سنگھ اس قدر طاقتور ہے تو اپنے گڑھ دہلی کے اندر وہ بی جے پی کو کیوں کامیاب نہیں کرسکا؟ سنگھ کیلئے دوسرا مسئلہ کشمیر کی پی ڈی پی حکومت میں بی جے پی شمولیت تھی۔ بی جے پی نے تو بڑی آسانی سیدستورکی دفعہ ۰۷۳ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا لیکن آر ایس ایس ایسا نہیں کرسکتا اس کے علاوہ مفتی صاحب کے بیانات سے بھی سنگھ اتفاق نہیں کرسکتا اس لئے جوائنٹ سکریٹری دتاترے ہوسابلے نے یہ تسلیم کیا کہ ہم ان باتوں سے خوش نہیں ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ہم اس بابت جلد بازی نہیں کریں گے بلکہ سنگھ بی جے پی کواور وقت دینا چاہتا ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی نے بڑی ہو شیاری سے کام کیا۔ اسے پتہ تھا سنگھ کو اس معاملے میں راضی کرنا ایک مشکل کام ہوگا اس لئے امیت شاہ نے یہ کیا کہ سنگھ سے آئے ہوئے رام مادھو کو جموں کشمیر کی حکومت سازی کی پیش رفت میں شامل کرلیا تاکہ سنگھ قیادت کو سمجھانے منانیکا کام انہیں کو سونپا جاسکے اور یہی ہوا۔
یہ تو سیاسی معاملات تھے لیکن سنگھ چونکہ سیاست کے علاوہ مذہبی جذبات کا بھی بھرپوراستحصال کرتا ہے اس لئے وی ایچ پی اور ہندو جاگرن منچ کے اپنے مسائل ہیں۔رام مندر کے معاملے کو سنگھ نے علی الاعلان آئندہ چار سال تک کیلئے برف دان میں ڈال دیا ہیاور وی ایچ پی کو اس کیلئے کوئی عوامی تحریک چلانے سے منع کردیا گیا ہے۔ گھر واپسی کے ہنگاموں سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوا اس لئے بی جے پی کی مرکزی حکومت کو اس کے خلاف موقف اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ امریکی دباؤ کے تحت وزیراعظم کو صفائی پیش کرنی پڑی۔اس مسئلہ پر ایوان کے اندر خوب فضیحت ہوئی اور دنیا بھر میں الگ بدنامی ہوئی۔ اس کے بعد گھر واپسی کے نام پر چھوٹے موٹے ہنگامہ کی امید تو کی جاسکتی ہے لیکن کسی بڑی تحریک کی توقع کم ہے۔
ایوان پارلیمان میں تحویل اراضی کے قانون پر حزب اختلاف کے متفقہ موقف نے مرکزی حکومت کی نیند اڑا دی ہے۔ اس مسئلہ پر این ڈی اے کے اندر پھوٹ پڑ گئی ہے۔ راجیہ سبھا میں بی جے پی اکثریت سے محروم ہے اس لئے اس کا پاس ہونا ناممکن ہے۔ یہ مسئلہ اس قدر سنگین ہے کہ انتخابات میں ناکامی کے بعد پہلی مرتبہ کانگریس کو اس کے توسط سے عوام میں جانے کا موقع مل گیا۔ سونیا جی نے راجستھان اور ہریانہ کے کئی علاقوں کا دورہ کیا بلکہ کانگریس اس بابت رتھ یاترا بھی نکالنے جارہی ہے۔ ایسے میں بے موسم بارش نے فصلیں تباہ کردی۔کسانوں کی خودکشی کے واقعات میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے مہاراشٹر میں
تو اس کی شرح ڈیڑھ گنا ہو گئی ہے۔جنتا پریوار بھی کسانوں سے رابطہ کررہا ہے پہلے بھارتیہ کسان سنگھ کے لوگ اس صورتحال میں متحرک ہو جاتی تھی۔ وہ کسانوں کے پاس جاکر انہیں کانگریسی حکومت کے خلاف ورغلا کر اپنا ہمنوا بناتی تھی لیکن اب یہ حالت ہے کہ بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی سرکاریں غفلت کی نیند سو رہی ہے۔ وزیراعظم اپنے من کی بات سے ان کا دل بہلانے کی کوشش کررہے ہیں انہیں تو بس تحویل اراضی کا قانون کسی طرح پاس کرکے صنعتکاروں کا بھلا کرنے کی فکردن رات ستا رہی ہے۔ بھارتیہ کسان یونین کی برسوں کی کمائی ہوئی ساکھ پر اوس پڑ رہی ہے۔ وہ کسانوں کو منہ دکھانے کی جراٗت نہیں کرپارہی ہے۔
یہ عجیب و غریب اتفاق ہے کہ سیٹھ جی اور بھٹ جی کی آرایس ایس نے جب بھارتیہ مزدور سنگھ بنائی تو اس کی طاقت بائیں بازو کی مزدور تنظیموں سے زیادہ ہوگئی۔ یہ لوگ کانگریس کے دور میں حکومت کی مزدورمخالف پالیسیوں کی خوب جم کر مخالفت کرتے تھے اور خود ان کا ہمدردوغمخوار بتاتے تھے لیکن اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سرمایہ داروں نے بی جے پی سرکار کوخرید لیا ہے وہ مزدوروں کے خلاف قوانین بنا ئے جارہی ہے لیکن بھارتیہ مزدور سنگھ کو بھی زبانی مخالفت سے آگے بڑھ کرحکومت کے خلاف مورچہ نکالنے کی اجازت نہیں ہے ایسے میں کوئی مزدور یونین بھلا کیسے زندہ رہ سکتی ہے۔ یہی حال سودیشی جاگرن منچ کا ہے جو بیرونی سرمایہ کاری کے خلاف زہر اگلا کرتا تھا۔ اب اس کی زبان پر لگام لگا دی گئی ہے اس لئے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی جیسی حمایت مودی جی کرتے ہیں پہلے کسی وزیراعظم نے نہیں کی تھی۔ اب اگر ان ذیلی تنظیموں کی نس بندی کردی جائے جن کی جدوجہد نے بی جے پی سرکار کو اقتدار میں لانے کیلئے اہم کردارا دا کیا تھاتو سنگھ پریوار کی توسیع کا کام کیسے ہوگا ؟ دیکھنا یہ ہے کہ سنگھ پریواراس اگنی پریکشا سے کیسے گزرتا ہے؟
بی جے پی جب تک اقتدار سے محروم تھی ان ذیلی تنظیموں کے نخرے اٹھانا اس کی مجبوری تھی لیکن اب وہ اس سے بے نیاز ہوگئی اور پھر سمندر کا یہ اصول بھی توہے کہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے یہی کچھ سنگھ پریوار میں اب ہونے لگا ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے آرایس ایس خود اپنی ننھی ذیلی تنظیموں کے بچاؤ میں آنے کے بجائے انہیں بلی کا بکرہ بنا رہی ہے۔ویسے جنگلی جانوروں کے عادات و اطوار کی تحقیق کرنے والوں نے انکشاف کیا ہے کہ بعض جانور وں میں یہ خصلت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے جھنڈ پر تسلط و غلبہ برقرار رکھنے کی غرض سے اپنی ہی اولاد کو قتل کردیتے ہیں۔ یہ صفت جہاں شیروں میں پائی جاتی ہے وہیں قدیم ہندوستانی لنگور کے اندر بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس لئیاگر بجرنگ بلی کے بھکت بھی اس کا مظاہرہ کرنے لگیں تو اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔
جواب دیں