سنگھ دفتر کے سامنے حال ہی میں ایک ایسا احتجاج کیا جاچکا ہے اور مستقبل میں بھی اس قسم کی کوششیں ہونگی۔ سنگھ پریوار نے ’’لوجہاد‘‘کے نام پر قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی تو نئی نسل نے اس کے خلاف ’’کس جہاد‘‘کا آغاز کیا ہے۔ یعنی نفرت کے خلاف محبت کا آغاز۔ مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں لڑکے اور لڑکیوں نے دلی میں سنگھ فدتر کے سامنے جمع ہوکر ایک دوسے کا بوسہ لیا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ
پیار کیا ہے، پیار کرینگے
دنیا سے اب ہم نہیں ڈریں گے
دنیا کی ایسی کی تیسی
دنیا کی پرواہ کیسی
آج کی جدت پسند نسل پیار پر کسی قسم کی بندش کے خلاف ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ اسے کسی قید وبند میں رکھا جائے جب کہ آر ایس ایس اس پر کئی قسم کی بندش چاہتا ہے۔ولنٹائن ڈے پر لڑکے اور لڑکیوں پر ہندتو وادیوں کی طرف سے حملے عام بات ہیں اور کئی مقامات پر
دیکھا جاتا ہے کہ انھیں پولس سے لے کر ہندوتو دای جماعتوں کے ورکر تک پریشان کرتے ہیں۔ حالانکہ ملک کا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ دو بالغ مردوعورت اپنی مرضی سے ایک دوسرے کے ساتھ پیار کرسکتے ہیں، ایک ساتھ رہ سکتے ہیں ، اس کے لئے شادی بھی لازمی نہیں ہے۔ اس معاملے میں سنگھ پریوار اخلاقی پولس بن کر درمیان میں آنے کی کوشش کرتا ہے اور ان باتوں کو مغربی کلچر کی دین بتاتا ہے ،جس کے سبب نئی نسل میں غصہ پایا جاتا ہے۔ اسی لئے انھوں نے سنگھ کے خلاف "Kiss Of love”کے عنوان سے تحریک شروع کردی ہے۔ حال ہی میں دلی کے جھنڈے والان علاقے میں سنگھ دفتر کے سامنے نوجوانوں نے اپنے نئے اور اختراعی طریقے سے احتجاج کیا۔ ایک دوسرے کو بوسہ دے کر انھوں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ سنگھ پریوار کے سامنے سرجھکانے کو تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ میڈیا نے اس جدید رنگ وآہنگ کے احتجاج کو زیادہ توجہ نہیں دی اور اسے چند سرپھرے لڑکے اور لڑکیوں کا کرتوت قرار دیتے ہوئے ،خبر کو دبا دیا۔ اس مظاہرے میں تین سو سے زیادہ لڑکے اور لڑکیوں نے حصہ لیا تھا۔ ایسا ہی ایک احتجاج کیرل کے کوزی کوڈی علاقے میں بھی سنگھ دفتر کے سامنے ہوا۔ اکتوبر میں انھوں نے یہاں ’’کِس ڈے‘‘ منایا اور اس کا پرچار سوشل میڈیا پر بھی خوب کیا گیا۔
احتجاج کے نئے طریقہ کی مقبولیت
جدید طریقے کے پیار بھرے مظاہرے کی شروعات کا سہرا کلکتہ کو جاتا ہے۔ اسے مظاہروں کا شہر کہا جاتا ہے اور نئے نئے ڈھنگ کے مظاہرے یہاں اکثر وبیشتر دیکھنے میں آتے ہیں مگر یہ انوکھے انداز کا احتجاج لوگوں کی توجہ اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب رہا۔ یہاں ایک دلت لڑکے اور اس کے اہل خاندان کا قتل صرف اس لئے کردیا گیا تھا کہ وہ ایک اونچی ذات کی لڑکی سے محبت کرتا تھا۔ اس قتل کے خلاف جادو پور یونیورسٹی اور پریسیڈنسی یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات نے گزشتہ ۵ نومبر کو ایک دوسرے کو چوم کر احتجاج کیا۔ کلکتہ کے شاعروں، کویوں، افسانہ نگاروں، مصوروں، موسیقاروں اور فنکاروں کو ان کی اختراعی فکر کے لئے جانا جاتا ہے مگر مظاہرے میں جدت پسندی نے بہتوں کو محو حیرت کردیا۔ ٹھیک ایسا ہی احتجاج دلی میں ۱۰نومبر کو آر ایس ایس دفتر کے سامنے ہوا۔ ایسا ہی ایک احتجاج دلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں بھی ہواجس میں ایک دوسروں کو چومنے کے ساتھ ساتھ محبت بھرے اشعار بھی پڑھے گئے، گانے گائے گئے اور موسیقی کی دھنیں چھیڑی گئیں۔ یونیورسٹی کے اندر اور باہر ہم جنس پرستوں کے حق میں آواز ٹھانے والے یہیں کے طالب علم گورو گھوش نے اس کے انعقاد میں خاص دلچسپی دکھائی جن کا میڈیا سے کہنا تھا کہ یہ نہ گنئے کہ کتنے افراد نے ایک دوسرے کو چوما بلکہ اس کی معنویت کو دیکھئے کہ ہم نے شہریوں کی جنسی آزادی کے لئے احتجاج کیا ہے۔ دائیں بازو کی طرف سے اس پر حملہ کیا جارہا ہے اور لوگوں سے ان کے سیکس کا حق چھینا جارہا ہے۔ یہ مرد اور عورت دونوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی سے ہندتو وادیوں کا عروج شروع ہوا ہے اور انھوں نے مردوں اور عورتوں سے ان کے جسم اور جنس کے حق کو سلب کرنا شروع کردیا ہے۔ انھیں یہ حق کس نے دے دیا ہے کہ یہ اخلاقیات کے پولس بن جائیں اور حملے کرتے پھریں۔ گھوش نے اس بات کی مخالفت کی کہ سنگھ کے لوگ ولنٹائن ڈے پر پارکوں اور عوامی مقامات پر لڑکے اور لڑکیوں پر حملے کرتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ بہت سے لوگ ہیں جو ہجڑے ہیں، یا انھوں نے تبدیلی جنس کرالیا ہے اور ان کی جنسی شناخت واضح نہیں ہے، ایسے لوگوں پر بھی ہندتو وادی گرو پ حملے کرتے ہیں۔ KIss of Loveتحریک میں ایسے لوگوں کی بھی حمایت مل رہی ہے جو
تیسری صنف سے ہیں یا ہم جنس پرست ہیں۔ گھوش کے مطابق اس تحریک کو ملک کے دوسرے علاقوں تک پھیلایا جائے گا اور ہندتو وادیوں کے مظالم کے خلاف احتجاج ومظاہرے کا سلسلہ آگے بڑھایا جائے گا۔ ان کا خیال ہے کہ پیار ،محبت میں کسی قسم کی قباحت نہیں ہے کیونکہ پیار کرنے والے کسی قسم کا تشدد نہیں کرتے ہیں، دوسروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے ہیں۔ گھوش کے مطابق سوشل میڈیا پر اس تحریک کو لوگ پسند کررہے ہیں اور ملک و بیرون ملک کے افراد اس سے جڑ رہے ہیں۔ وہ عوامی مقامات پر بوس وکنار کے فائدے میں بھی بہت سی دلیں پیش کرتے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ایسا کرنے سے خواتین کے خلاف جو مردوں کے سماج نے سخت پابندیاں عائد کررکھی ہیں ، اس سے آزادی ملے گی۔
سنگھ پریوار کے خلاف بوسہ بازی کی تحریک چھیڑنے والی کارین گبریل مانتی ہیں کہ ’’لوجہاد‘‘ کو سنگھ پریوار نے ایک پروپیگنڈے کا ہتھیار بنایا ہے ۔ محبت مذہب، ذات اور رنگ ونسل کی دیوار میں قید نہیں کی جاسکتی مگر انھوں نے اسے بھی نفرت انگیزی کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ ہر انسان کو اپنے جسم اور جنس پر اختیار ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ اس پر بندش لگائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری تحریک پر امن ہیں اور کہیں سے کوئی تشدد نہیں کیا جاتا مگر اسے روکنے والے تشدد کے ذریعے اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عوامی مقامات پر بوسہ لینا غیر قانونی نہیں ہے۔ یونہی لوجہاد کے خلاف ہندتو وادیوں کی تحریک بھی پر تشدد ہوتی ہے ۔ وہ سماجی ڈھانچوں کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش میں لگے ہیں۔ آخر دو مذاہب کے افراد کی شادیوں کو مسئلے کی شکل میں کیوں دیکھا جاتا ہے۔
خواتین کی ایک تنظیم آ ل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنس ایسوسی ایشن کی قومی نائب صدر سدھا سندرمن کا کہنا ہے کہ کیرل میں اس تحریک کا ایک متاثر کن سلوگن ہے Kiss don
جواب دیں