یہی سبب ہے کہ مسلمانوں کو کبھی پاکستان کے طعنے دیئے جاتے ہیں تو کبھی انھیں غیرملکی ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ملک کے آبرو کی حفاظت کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ بہانے والے ٹیپوسلطان کی دیش بھکتی پر آج وہ لوگ سوال اٹھارہے ہیں جنھوں نے انگریزوں کی دلالی کرتے ہوئے عمربتائی ہے اور عامر خان سے حب الوطنی کا ثبوت وہ لوگ مانگ رہے ہیں جن کے خون میں دیش دروہ شامل ہے۔
کیاٹیپو سلطان مجاہدآزادی نہیں تھے؟ انھوں نے ملک کو غیرملکیوں سے بچانے کی کوشش نہیں کی تھی؟ کیا انھوں نے وطن کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان نہیں کی تھی؟ اگر ہاں تو پھر وطن کے نام پر اپنی جان کا آخری قطرہ بہانے والے ٹیپوسلطا ن کی مخالفت کیوں؟ آخر پورا سنگھ پریوار اور بھگوابریگیڈ جس پر خود انگریزوں کی دلالی کا الزام لگتا رہاہے ،ٹیپوسلطان کے خلاف کیوں کھڑا ہوا ہے؟ کیا وہ مجاہدین آزادی کو بھی اب فرقوں میں بانٹنے لگا ہے؟ ان سوالات کے پیچھے کرناٹک کا حالیہ تنازعہ ہے۔برطانوی فوج سے لوہا لینے والے میسور کے حکمران ٹیپو سلطان کے بارے میں ایک بار پھر ماحول گرم کیا جارہاہے اور انھیں کٹروادی مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندووں کا قاتل اور ایک ظالم انسان بناکر پیش کیا جارہاہے۔حال ہی میں ٹیپوسلطان کی جینتی پر کرناٹک سرکار کی طرف منعقد ہونے والے پروگرام کی سنگھ پریوار کی طرف سے سخت مخالفت کی گئی اور سڑکوں پر اتر کر ہنگامہ مچایا گیا۔اب سوال اٹھنے لگا ہے کہ کیا واقعی ٹیپوسلطان فرقہ پرست مسلمان حکمراں تھے یا انھیں دانستہ طور پر متنازعہ بنایا جارہاہے؟
ٹیپوسلطان کون؟
شیرمیسور ٹیپوسلطان اٹھارہویں صدی کے ایک ایسے حکمراں تھے جنھوں نے وطن کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی بازی لگادی تھی۔ وہ حقیقی سیکولر حکمراں تھے اور اپنے ملک میں رہنے والے مسلمان و ہندو کو ایک نظر سے دیکھتے تھے۔ انھوں نے جس طرح مسلمانوں کے مذہبی امور کے لئے جائیدادیں دیں اسی طرح ہندووں کے مندروں کے لئے بھی سرکار کی طرف سے مدد دی۔ اس
کے علاوہ انھوں نے ملک کی ترقی کے لئے صنعت وتجارت کو بڑھانے کا کام کیا۔ انھوں نے ساری دنیا سے کاروباری رشتے استوار کئے اور ملک کے اندر صنعتوں کو بڑھانے کا کام کیا۔ان کے زمانے میں سلک کی صنعت اہمیت کی حامل تھی جس کی مانگ پوری دنیا میں تھی لہٰذا ٹیپو نے چین سے رابطہ کیا اور ریشم کی صنعت کو کرناٹک میں فروغ دینے کا کام کیا۔اس کا ایک بڑامقصد برطانیہ کے قبضے سے تجارت کو چھڑانا بھی تھا۔ برطانیہ کے خلاف انھوں نے فرانس کو اپنے ساتھ مددگار کے طور پر رکھا تاکہ مغرب کو اسی کے ہتھیار سے پسپا کیا جائے؟
اصلی میزائل مین
ٹیپوسلطان کو معلوم تھا کہ دنیا میں مشینی انقلاب شروع ہوچکا ہے لہٰذا انھوں نے صنعت سے لے کر میدان جنگ تک اس کا استعمال شروع کیا۔ آج دنیا بھر میں دفاعی ہتھیار کے طور پر میزائل کی خاص اہمیت ہے مگر کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یہ ٹیپوسلطان کی ایجاد ہے۔ آج اگر اے پی جے عبدالکلام میزئل مین بنے اور ملک کو اس میدان میں خودکفیل بنایا تو یہ ٹیپو کی دین ہے۔ لندن کے مشہور سائنس میوزیم میں ٹیپو کے کچھ راکٹ رکھے ہیں۔ یہ ان راکٹوں میں سے ہیں جنہیں انگریز اپنے ساتھ 18 ویں صدی کے آخر میں لے گئے تھے۔یہ دیوالی والے راکٹ سے تھوڑے ہی لمبے ہوتے تھے۔ٹیپو کے یہ راکٹ اس معنی میں انقلابی کہے جا سکتے ہیں کہ انہوں نے مستقبل میں راکٹ بنانے کی بنیاد رکھی۔بھارت کے میزائل پروگرام کے خالق اے پی جے عبدالکلام نے اپنی کتاب ’’ونگس آف فائر‘‘ میں لکھا ہے کہ انہوں نے ’ناسا‘ کے ایک سینٹر میں ٹیپو کی فوج کی راکٹ والی پینٹنگ دیکھی تھی۔کلام لکھتے ہیں، ’’مجھے یہ لگا کہ زمین کے دوسرے سرے پر جنگ میں سب سے پہلے استعمال ہوئے راکٹ اور ان کا استعمال کرنے والے سلطان کی بصیرت کا جشن منایا جا رہا تھا۔ وہیں ہمارے ملک میں لوگ یہ بات یا تو جانتے نہیں یا اس کو توجہ نہیں دیتے۔‘‘
اصل میں ٹیپو اور ان کے والد حیدر علی نے جنوبی ہندوستان میں دبدبے کی لڑائی میں اکثر راکٹ کا استعمال کیا۔ یہ راکٹ انہیں زیادہ کامیابی دلا پائے ہوں ایسا لگتا نہیں لیکن یہ دشمن میں کھلبلی ضرور پھیلاتے تھے۔انہوں نے جن راکٹوں کا استعمال کیا وہ انتہائی چھوٹے تھے۔یہ راکٹ قریب دو کلومیٹر تک مار کر سکتے تھے۔سمجھا جاتا ہے کہ پوللور(تمل ناڈو) کی لڑائی میں ان راکٹوں نے ہی کھیل بدل کر رکھ دیا تھا۔1780 میں ہوئی اس جنگ میں ایک راکٹ شاید انگریزوں کی بارود گاڑی میں جا ٹکرایا تھااور انگریز یہ جنگ ہار گئے تھے۔ ٹیپو کے اسی راکٹ کومزید بہتر بنانے کے بعد انگریزوں نے اس کا استعمال نپولین کے خلاف کیا۔19 ویں صدی کے آخر میں بندوق میں بہتری کی وجہ سے راکٹ ایک بار پھر چلن سے باہر ہو گیا۔1930 کی دہائی میں گوڈارڈ نے راکٹ میں مائع ایندھن کا استعمال کیا لیکن ہندوستان کی سرزمین پر راکٹ تبھی واپس آیا جب 60 کی دہائی میں وکرم سارا بھائی نے ہندوستان کا خلائی پروگرام شروع کیا۔
انگریزوں نے بدنا م کیا
جس شخص نے ملک کی حفاظت کئے سب کچھ قربان کردیا اس کے خلاف سنگھ پریوار اور ہندتوادیوں کی مخالفت پر کسی کو تعجب نہیں ہوسکتا کیونکہ ان کا رویہ ہمیشہ سے اسی قسم کا رہاہے۔البتہ ٹیپو کو ہندو مخالف قرار دینے کے لئے جن تاریخی شواہد کا استعمال کیا جارہاہے وہ حیرت انگیز ضرور ہے۔ انگریزوں کی عادت رہی ہے کہ وہ اپنے مخالفوں کو ختم کرنے سے قبل انھیں بدنام کرتے ہیں تاکہ ان کے خلاف جنگ آسان ہوجائے۔ ہم نے حالیہ دور میں دیکھا ہے کہ عراقی حکمراں صدام حسین اورلیبیا کے کرنل معمر قذافی کو ختم کرنے کے لئے کیسی کیسی بے سر پیر کی باتیں ان کے خلاف پھیلائی گئیں اور جب ان کا خاتمہ ہوگیا تو اب کہا جارہاہے کہ وہ الزامات درست نہیں تھے۔ ان کے ثبوت نہیں ملے ہیں۔ ٹھیک ایسا ہی معاملہ انگریزوں نے اپنے سب سے بڑے دشمن ٹیپو کے ساتھ بھی کیا۔خوب بدنام کیا اور ہندو مخالف بناکر پیش کیا تاکہ ٹیپو کو ہندووں کی حمایت سے محروم کیا جاسکے۔ حالانکہ وہ ایسا سیکولر حکمراں تھا کہ اس کا وزیر اعظم پنڈت پرنیا ایک ہندو تھا۔ آج سنگھ پریوار بھی ٹیپو کی مخالفت کے لئے انگریزوں کی فراہم کردہ دلیلیں لارہا ہے۔ ٹیپواصل میں انگریزوں اور بھارت کے درمیان آخری چٹان تھا جسے سرکرنے کے بعد انھوں نے جنوبی ہند پر قبضہ جمالیا تھا۔ اگر ٹیپو کو اپنوں سے دھوکہ نہ دیا ہوتا تو آج ہندوستان کی تاریخ الگ ہوتی۔ہندتووادیوں کے برخلاف محققین، مصنفین اور تاریخ دانوں کا نظریہ کچھ اور ہی ہے۔ ٹیپو سے منسلک دستاویزات کی چھان بین کرنے والے مؤرخ ٹی سی گوڑا کہتے ہیں،’’ ٹیپو کے بارے میں کہانی گڑھی گئی ہے۔ٹیپو ایسے بھارتی حکمران تھے جن کی موت میدان جنگ میں انگریزوں کے خلاف لڑتے لڑتے ہوئی تھی۔‘‘
یہاں ایک بات توجہ طلب ہے کہ انگریزجہاں ٹیپو کو اپنا دشمن مانتے تھے وہیں ان کی بہادری کے سبب ان کا احترا م بھی کرتے تھے۔ آج بھی ان کے میوزیم میں جہاں بہادرفوجیوں کی مورتیاں اور شیروں کی کاھلیں رکھی ہیں وہاں ٹیپو کی خون آلودہ قمیص بھی رکھی ہوئی ہے۔
انصاف نہیں ہوا
آج بیشتر محققین مانتے ہیں کہ ٹیپوایک انصاف پسند حکمراں تھا جس کے ساتھ آزادی کے بعد انصاف نہیں کیا گیا۔ گیان پیٹھ ایوارڈ سے سرفراز ڈرامہ نگار اور اداکار گریش کرناڈ نے حال ہی میں کہا کہ 18 ویں صدی کے میسور کے حکمران ٹیپو سلطان اگر مسلم نہیں ہندو ہوتے تو انہیں مراٹھا حکمران چھترپتی شیواجی کی مانند درجہ ملتا۔کرناڈ نے ایک دوسرے بیان میں کہا کہ بنگلور بین الاقوامی ہوائی اڈے کا نام ٹیپو سلطان کے نام پر ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیپو کو ان کے مذہبی عقیدے کی وجہ سے یہ اعزاز نہیں ملا۔ ٹیپو سلطان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔مشہور کنڑ ڈرامہ نگار اور اداکار کا یہ تبصرہ ایسے وقت آیا ہے جب کرناٹک کی ریاستی حکومت نے ٹیپو سلطان کی جینتی پر تقریبات کا اہتمام کیا ہے۔ وزیر اعلی سدھا رمیا کی موجودگی میں یہاں ریاستی سیکرٹریٹ میں سخت حفاظتی انتظامات کے درمیان پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔جب کہ بی جے پی ان تقریبات کا بائیکاٹ کر رہی ہے۔ کئی ہندتووادی تنظیموں نے بھی اس کی مخالفت کی ہے، جن کی نظر میں ٹیپو سلطان مذہبی طور پر کٹر اور ہندومخالف تھے۔ٹیپوسلطان کے خلافمظاہروں کے درمیان بھگدڑ میں ایک شخص کی موت ہو گئی۔ حالانکہ بی جے پی کی طرف سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ تین افردا کی موتیں ہوئی ہیں۔کرناڈ کی بات سے وزیر اعلیٰ سدھارمیا نے بھی اتفاق کیا۔ انھوں نے کہا، اگر وہ ہندو کے طور پر پیدا ہوتے تو کرناٹک اور پورے ملک میں انہیں وہی احترام حاصل ہوتا جو شیواجی کو ملتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں کسی شخص کو اس کے مذہب یا ذات کے نظریہ سے نہیں، بلکہ لوگوں کے لئے ان کی طرف سے کرائے گئے اچھے کام کو ذہن میں رکھ کر دیکھنا چاہئے۔‘‘
کرناڈ کی بھی مخالفت
ٹیپو کی تعریف کرنے کے سبب گریش کرناڈ کو حال ہی میں جان سے مارنے کی دھمکی ملی ہے۔ انھیں ٹویٹر پر کہا گیا ہے کہ ان کا وہی حال ہوگا جو ایم ایم کلبرگی کا ہوا تھا۔ واضح ہوکہ کنڑ مصنف ایم ایم کلبرگی کو ان کی روشن خیالی کے سبب مارڈالا گیا تھا۔ کرناڈ کو کسی چندرا نامی کسی نامعلوم شخص نے ٹویٹ کر یہ دھمکی دی ہے۔ اگرچہ اس شخص نے اپنا ٹویٹ ہٹا لیا ہے۔ اس دھمکی کے بعد بنگلور میں ایک بیان جاری کر کرناڈ نے کہا کہ انہوں نے جو بھی کہا، وہ ان کی ذاتی رائے تھی۔اس کے پیچھے کوئی بدنیتی نہیں تھی۔ اگر کسی کو تکلیف پہنچتی ہے تو میں معافی مانگتا ہوں۔اس دوران گریش کرناڈ کے خلاف بی جے نے کرناٹک میں جگہ جگہ مظاہرہ بھی کیا۔غور طلب ہے کہ کرناٹک حکومت 18 ویں صدی میں سلطنت خداداد میسور کے حکمران رہے ٹیپو سلطان کا 265 واںیوم پیدائش منا رہی ہے.
جواب دیں