سنبھل جاؤ ورنہ……!

لیکن اس ساری گہما گہمی ،رنگا رنگی اور رمضان کی نعمتوں اور بر کتوں کو سمیٹنے کے مو سم کے درمیان پتہ نہیں کیوں دل ایک ایسے گھرا نے کی تبا ہی اور بر با دی کے قصوں میں الجھا رہا۔جس گھر میں آج سے ایک دہائی پہلے ایسے ہی ہلا ل رمضان آتا ہو گا اور وہ ماں جس کا تعلق اپنے اللہ سے بہت پختہ تھایقیناًکتنے اہتمام کر تی ہو گی۔سحری جا گنے کیلئے الارم لگانا،صبح کی تہجد کا اہتمام،سحری کی لذت فجر کی تلاوت،پھر ا پنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو روزے کی ترغیب یہی سب کچھ تو ہے جو ہما رے گھر میں ہو تا ہے۔
مدتوں سے یہ مہینہ ہما رے گھروں میں اترتا ہے اور ہما رے معمولا ت ویسے ہی ہو جا تے ہیں ۔آج بھی بچے کم سنی میں روزہ رکھنے کی ضد کرتے ہیں،آج بھی ہما رے بڑے کسی کمسن بچے کی ضد کے سا منے ہا ر جا تے ہیں اور پھر پورا دن اس کے روزے کا اہتمام ہو تا رہتا ہے۔لیکن کئی سا ل سے یہ گھرانہ لا پتہ تھا ،کسی کو خبر تک نہ تھی ان پر کتنے رمضان اور کتنی عید یں بیت گئیں ۔ جن کو خبر ملتی اور بتا تے کہ بگرام کے جیل خا نے میں ایک عورت ہے جس کی چیخیں دل دہلا دیتی ہیں ،جو اس قید خانے کا بھوت بن چکی ہے۔جس کو علم تک نہیں کہ اس کے تین چھو ٹے بچے کس حال میں ہیں اگر علم ہے بھی تو اتنا کہ اسے اپنے سیل میں قید ان کے رونے کی آوازیں آتی ہیں اور بے بس ماں اس جکڑے ہو ئے ما حول میں نہ انہیں دلا سہ دے سکتی ہے اور نہ تسلی۔جن کو اس قید خا نے سے رہا ئی ملی وہ خبر دیتے ر ہے کہ وہ عورت جس کے سر پر حجاب اور جسم پر دے سے ڈھکا رہتا تھا ،قید خا نے کے افسروں کی ہوسناکی کا شکار ہو تی رہی اور اس کی دلدوز چیخیں قید یوں کا دل دہلا تی رہیں ۔
ہم سب لا علم بنے رہے ،ہم سب چپ سادھے رہے ۔ہما ری لا علمی،ہما ری چپ ضروری تھی۔کو ئی ا پنی بیٹی یا بہن غیروں کے ہا تھ فروخت کر کے عزت اور آبرو کے ساتھ گفتگو کر نے کے قا بل رہتا ہے۔سب کو معلوم تھا کہ وہ کہا ں ہے ۔وہ جن کے را بطے بین البر اعظمی تھے ان کو بھی اور جن کی تنظیمیں انسا نی حقوق کے عا لمی منظر نا مے میں ڈونز ز کی بھیک پر پلتی ہیں ان کو بھی۔صا حبان اقتدار بھی جا نتے تھے اور خفیہ ایجنسیوں میں کام کرکے رزق کما نے وا لے بھی۔لیکن سب کے ہو نٹوں پر تا لے تھے او ر ذہنوں پر مصلحت کی گرد جمی ہو ئی تھی۔ ا پنے بچے بیچ کر عا لمی برادری میں سر خرو ہو نے والی اس قوم کی غیرت کو ایسی خا تون نے جھنجھوڑا جو افغا نستان کے ا نہی طا لبان کی قید میں رہ کر آئی تو ان کے سلوک سے اس قدر متا ثر ہوئی کہ اسے راہ ہدائت میسر آ گئی۔اس نے اس قوم کو بتا یا کہ تمہا ری خوشحالی جس پر تم نا زاں ہو وہ تو غیروں کے ہا تھ اپنی بیٹیاں اور بیٹے بیچنے سے ملی ہے ۔اس کے اس پر زور احتجاج کے بعد ایک زخمی عا فیہ صدیقی امریکی عدالت میں پیش کر دی گئی۔زخموں سے نڈھال ،جس کا چہرہ اس پر گزرے دنوں اور ڈھائے گئے ظلم کی گو اہی دے رہا تھااوربالآخر ناکردہ گناہ کی پاداش میں۸۶سال جیل کاپراوانہ اسے تھمادیاگیا۔
آج سحری اور افطاری کے لمحوں میں صرف ایک خیال ذہن میں ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا کہ اب تو اس قوم کو علم ہے کہ وہ کہاں ہے؟اس پر یہ رمضان کا چاند کس عالم میں اترا ہو گا ۔ شاید کسی نے اپنے رب کے حضور سر بسجود ہو تے ہوئے ،افطاری کی دعا پڑھتے ہوئے ،سحری کی نیت کر تے ہوئے سوچا ہو کہ اس کا ئنات کا مالک جب نعمتوں کے بارے میں ہم سے سوال کر ے گا تو ہماری مجرمانہ خا موشی اور مصلحت بھری چپ کا حساب بھی تو ما نگے گا۔
یہ رمضان کا مہینہ ان پر بھی تو اترا ہو گا جن کے پیارے اس ملک میں عدل و انصاف کی با لا دستی پر قربان ہو گئے،جو با رہ مئی کے دن ایسے ذبح کئے گئے جیسے شہر میں ہلا کو یا چنگیز کی فو جیں داخل ہو گئیں ہوں۔ایسا تو وہ بھی نہ کر تے تھے کہ زخمی جان بچانے کیلئے ایمبو لنس میں ہسپتال جا رہے ہوں اور روک کر ان کو گو لیاں مار دی جائیں کہ یقین ہو جائے کہ وہ مر گئے لیکن ان مر نے والوں کے گھروں سے تھوڑے ہی فا صلے پر ان ججوں کے گھر تھے جن کیلئے یہ قر بان ہو ئے اور وہ آج سب سرکاری جھنڈوں والی گاڑیوں میں سفرکررہے ہیں، پتہ نہیں کیوں ٹھیک افطاری کے وقت یہ خیال آیا کہ ان حلف اٹھا نے والے ججوں میں سے کسی کوافطاری کے وقت یہ سب یادبھی آئے ہونگے کہ نہیں؟
بہت سے د کھ ہیں۔بہت سے المیے،کتنی سوچیں ہیں۔اس ہلا ل رمضان میں وہ گھر یا د آتے ہیں جو بموں کی یلغار میں تباہ ہو ئے اور جن کے مکین بے خا نماں اور بے دیارایک مرتبہ پھراس رمضان المبا رک کا استقبال کر رہے ہیں ۔وہ جن کی بیٹیاں اور جوان بیٹے لا ل مسجد اور جا معہ حفضہ میں سفید فاسفورس سے جلا کر بھسم کر دیئے گئے،ان کے مغموم گھروں میں،جن کے بچے لا پتہ ہیں،ان کے آنگنوں میں یہ رمضان اترا ہے اور ہلا ل عید بھی آئے گالیکن ان سب سے الگ ہما ری ا پنی دنیا ہے،اپنی د ھن میں مگن۔وہ جس نے اس ظلم و تشدد کا بیج بویا ،جواس ملک کے سیاہ وسفیدکامالک بن کرفرعونی اندازمیں فیصلے صادرکیاکرتاتھاآج اپنی قسمت کے فیصلے کیلئے عدالتوں کے سامنے اپنی صفائیاں پیش کررہاہے ۔ 
سب جا نتے ہیں کہ جب اس قدر ظلم سے آنکھیں پھیر لی جا ئیں ،ظالم ا پنے انجام سے خود کو آزاد کر لے، مصلحتیں ، ضرورتیں، صدارتیں، جمہو ریت اور گروہ بندیاں انسا نوں کے دکھوں اور اشکوں،آہنوں سے بے پروا ہو جا ئیں،گروہ کے گروہ خا موش،قوم کی قوم وقتی مصلحت کا لبادہ اوڑھ لے تو تبدیلی کیلئے زیادہ دن انتظار نہیں کر نا پڑتا۔وہ جو اہل نظر کل تک دعائیں ما نگتے تھے کہ آنے والا عذاب ٹل جائے،جو کہا کر تے تھے کہ وقت ہے سنبھل جاؤورنہ…..اور پھر ان کی زبانیں خوف سے گنگ ہو جا تی تھیں ۔اب جس کے پا س جاؤ کہتا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ دعائیں بند ہو گئیں ہیں ۔آندھیا ں ہی آندھیاں،پھر رو پڑتے ہیں اور کہتے ہیں یہ لو گ کیسے اپنی دھن میں مست ہیں اور طو فان ان کے سروں تک آ پہنچا ہے۔
اب بھی لو گوں سے تحریری طور پر پا کستان کیلئے دعاؤں کی درخواست لئے در بدر پھر رہے ہیں،مملکت خدادا دکیلئے قوم سے درد بھری اپیلیں کر رہے ہیں کہ اس رمضان المبارک مہینے کی نسبت سے اپنے رب کی طرف لوٹ آؤ،اپنے رب کو تلاش کرو،وہ رب کریم تمہارے شہہ رگ کے قریب ہے،تمہارے پڑوس اور ہر گلی محلے میں تمہیں مل جائے گا۔کسی غریب و بے کس کے گھر کا کھلا کواڑ تمہا را انتظار کر رہا ہے۔میر ا رب تو انہیں بے خانماں اور متوکل لو گوں کے دلوں میں بستا ہے۔چپکے سے ان کے گھر وں میں ماہ رمضان کی سحری اور افطاری کا اس طرح بندوبست کرو کہ ان کی عزت نفس پر بھی گراں نہ گزرے۔ ان کے بچے بھی عید کی خوشیوں کے متلا شی ہیں،ان کے ننگے تن تو معمولی سی توجہ چا ہتے ہیں،ان کے چہروں کی یا سیت اور آنکھوں کے آنسوؤں کا مداوا بن جایئے۔ اگر وہ یہ خوشدلی سے قبول کر لیں تو ان کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہوئے سر بسجود پا کستان کی سلا متی کیلئے دعائیں مانگیں۔مجھے میرے کریم رب سے قوی امید ہے کہ ہمارا یہ عمل اس کی بارگاہ میں مقبول بھی ہو گا اورپا کستان کی طرف یہ بڑھتے مہیب خطرات بھی ٹل جا ئیں گے۔

«
»

بے قصوروں کو پھنسانے والوں کوسزا کب ملے گی؟

عرب بہار پر خزاں لانے والے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے