سمجھے تھے آکاش جسے نکلا وہ بھی پاتال

راجیہ سبھا میں مودی کے دست راست ارون جیٹلی نے کہا ہے کہ اگر تحویل آراضی بل پاس نہیں ہوگا تو مودی جی کچھ بھی نہ کرپائیں گے۔ گویا ان کے وکاس کی پوری عمارت کسانوں کی لاشوں پر تعمیر کی جائے گی۔
گذرے ہوئے سال کی فروری، مارچ، اپریل اور دس دن مئی کے مودی نے صرف یہ کہنے میں گذارے کہ اچھے دن آئیں گے بھارت کو کانگریس مکت بناؤ ورنہ کچھ نہیں ہوگا۔ 20 سے 35 سال تک کے نوجوانوں کو سب سے پہلے روزگار دیا جائے گا گھر گھر بجلی ہر کھیت پانی ہر دن بجلی ہر وقت پانی ہمارا وعدہ ہے ہندو مسلمان آپس میں نہ لڑیں دونوں مل کر غریبی سے لڑیں۔ اور پورے ملک کا کم سمجھ ہندوستانی ہر ہر مودی گھر گھر مودی کے ایسے نعرے لگاتا تھا کہ پورا ملک گونج اُٹھتا تھا۔ مودی نے جب تاریخی فتح حاصل کرلی اور عمر میں پہلی بار ایک فاتح کی طرح پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے لئے گئے تو پہلے اس کی سیڑھیوں پر ماتھا ٹیکا۔ اس کے بعد سینٹرل ہال میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک سال کے اندر پارلیمنٹ کے ہر داغی ممبر کا فیصلہ کرادوں گا جو واقعی مجرم ہوگا وہ جیل میں جائے گا اور جے بے گناہ ہوگا وہ دستور کے مندر کی رونق بڑھائے گا۔ مودی نے سب سے زیادہ تو کالے دھن کا ڈھول بجایا تھا کہ لاکھوں لاکھ کروڑ روپیہ تمہارا اُن کانگریسیوں اور اُن کے دلالوں نے دوسرے ملکوں کے بینکوں میں جمع کررکھا ہے۔ وہ وعدہ کرتے ہیں اور نہیں بتاتے کہ کہاں ہے؟ ہم صرف 100 دن میں وہ روپیہ لے آئیں گے اور ہر آدمی، ہر عورت اور ہر بچہ لکھ پتی ہوجائے گا۔ مودی اور بی جے پی کے دوسرے لیڈروں سے کہیں زیادہ اس خطرناک اور کھرب پتی بابا رام دیو نے کالے دھن کو موضوع بنایا تھا اور یہ صرف وہی تھا جس نے مودی کو سادھو سنت بناکر ملک کو گمراہ اور عوام کو بابا کے ساتھ مودی کا مرید اور کانگریس کا دشمن بنایا تھا۔ پورا ملک دیکھ رہا ہے کہ مودی کی تاج پوشی کے بعد وہ روپوش ہوگیا۔ اسے معلوم تھا کہ اب اس کے جھوٹ اور فریب کا بھانڈا پھوٹنے والا ہے اور عوام اس کی بوٹی بوٹی الگ کردیں گے۔ اور یہ مودی کو بھی معلوم تھا اسی لئے اس کی جان کی حفاظت کے لئے کمانڈو لگادیئے۔
اب نریندر مودی انگریز صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ میں اپنی شخصیت اور محبوبیت کی بنا پر کامیاب ہوا ہوں۔ مجھے عوام نے اس لئے ووٹ دیئے کہ انہیں اُمید تھی کہ میں ان کے لئے کچھ کرسکوں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہندوستانی ووٹروں کی خصلت رہی ہے کہ وہ کسی ایک نام کو تلاش کرتے ہیں اور پھر اسی کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس بار عوام نے مجھے بھروسہ کے قابل سمجھا اور میرے نام سے ہی میری پارٹی کو کامیاب کرایا۔ ہمارے نزدیک یہ ان سے بھی بڑا جھوٹ ہے جو انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی بولتے رہے۔ وہ ایک داغدار شخصیت کے مالک ہیں ان کی سب سے بڑی طاقت وہ سیوک سنگھ ہے جس نے ایک بے داغ اور نمایاں شخصیت اڈوانی کو نظرانداز کرکے پہلے مودی کو پارٹی کی پروپیگنڈہ کمیٹی کا چیئرمین بنایا اس کے بعد وزیر اعظم کا امیدوار۔ اگر موہن بھاگوت یہ مہربانی نہ کرتے تو وہ آج بھی گجرات میں ہی بجلی پانی کرتے رہتے۔ دوسری ذات اس ڈھونگی بابا کی تھی جو اب منھ چھپاتا پھر رہا ہے یا سامنے آتا ہے تو قہقہے لگاتا اور تالی بجاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی رنگے ہاتھوں پکڑا جائے تو وہ بے غیرتی دکھاتا ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ ملک کے عوام اب مودی کو پوری طرح سمجھ چکے ہوں گے اب اگر وہ صرف اپنے تحویل آراضی بل کو عنوان بناکر الیکشن کرادیں تو ان کی ضمانت ضبط ہوجائے گی۔ اور ان کی ترجمانی کرتے ہوئے جیٹلی کا یہ کہنا کہ اگر آراضی بل پاس نہ ہوا تو وہ صدر سے دوسرا آرڈی ننس بنوا لیں گے ان کا ڈکٹیٹر بننے کا ثبوت ہے۔ وہ جس گود کے پالے ہوئے اور جس بھٹی میں چالیس برس تپے ہیں وہاں جمہوریت کا تصور ہی نہیں ہے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ پانچ سال کے اندر مودی کو جو کرنا ہے وہ کرکے اپنے اور سنگھ کے سارے خواب پورے کردیں گے اور اگر ضرورت سے زیادہ مخالفت ہوئی تو وہ ایسی حرکت کریں گے جس کی خوشبو سے بھی ملک واقف نہیں ہے۔
کانگریس نے آراضی بل کو آر پار کی جنگ میں تبدیل کردیا ہے۔ وہ راجیہ سبھا میں تو مودی کو شکست دے ہی دے گی اب وہ کسان کی ہمدردی میں سڑک پر آگئی ہے۔ لیکن ہم یہ دیکھ کر حیران ہیں کہ چالیس سال پہلے کانگریس کو مخالفوں نے ملک سے بے دخل کردیا تھا۔ اس وقت بھی مرکزی حکومت ہو یا صوبائی کانگریسیوں نے لڑائی کے لئے وہی ہتھیار اٹھائے تھے جو اُن کے مخالفوں نے پھینک دیئے تھے۔ وہی پارلیمنٹ کا گھیراؤ وہی اسمبلیوں پر چڑھائی وہی سڑے ہوئے نعرے انقلاب زندہ باد، یہ سرکار نکمی ہے، یہ سرکار بدلنی ہے، اس گلی سڑی سرکار کو ایک دھکا اور دو وغیرہ وغیرہ پھر جیسے چالیس برس کانگریس کرتی رہی کہ جلوس کو طاقت سے روکنا نہ رُکیں تو پانی کی بوچھار پھر بھی نہ مانیں تو لاٹھی چارج جواب میں پتھر آئیں تو آنسو گیس ہوائی فائرنگ اور پھر فائرنگ بغیر یہ سوچے کہ کتنے زخمی ہوگئے اور کتنے مرے؟
یہ کام پہلے مخالف پارٹیاں کرتی تھیں اب کانگریس کررہی ہے۔ مخالف بھی جنتر منتر پر آتے تھے کانگریس کے اناڑی بھی جنترمنتر سے پارلیمنٹ جارہے تھے کانگریس بھی مارتی تھی اب مودی مار رہے ہیں۔ مسئلہ ہے کسان کا تو کیوں یہ فیصلہ نہیں کیا گیا کہ کانگریس کے سارے ورکر اور لیڈر دیہاتوں میں ڈیرے ڈالیں انہیں بتائیں کہ ہر ہر مودی کیا کرنے جارہے ہیں؟ اور وہ ان کے لئے جان دینے پر تیار ہیں۔ 1978 ء میں ملک میں ہر کسان نے گنا بو دیا نتیجہ یہ ہوا کہ مل اپنے وقت پر بند ہونے لگے اور گنا کھیتوں میں کھڑا رہ گیا۔ کانگریس کو ایک موضوع مل گیا اس نے پورے ملک میں تحریک کھڑی کردی کہ کسان لاکھوں ایکڑ میں کھڑی گنے کی فصل کو آگ لگانے پر مجبور ہورہا ہے لہٰذا ملوں کو پھر چلوایا جائے۔
اُترپردیش میں محسنہ قدوائی کانگریس کی صدر تھیں اور تیواری جی حزب مخالف کے لیڈر کانگریس نے صوبہ کے ورکروں کو آواز دی کہ ہاتھوں میں گنے لے کر نعرے لگاتے ہوئے لکھنؤ آجاؤ۔ ہر ضلع سے بیکار بیٹھا ورکر دوڑ پڑا۔ جھنڈے والے پارک سے نعرے لگاتا ہوا جلوس روانہ ہوا سب سے آگے ایک جیپ پر محسنہ صاحبہ، کملا پتی ترپاٹھی، بیگم حامدہ حبیب اللہ، سروپ کماری بخشی اُناؤ کے دیکشت کچھ اور لیڈر اس کے پیچھے بھی صوبائی اہم لیڈر ان کے پیچھے ہزاروں گنے بردار نعرے وہی سڑے ہوئے جلوس جب لال باغ نور منزل کے پاس پہونچا تو اسمبلی کی طرف جانے والی سڑک پر پولیس کی دیوار کھڑی تھی مجسٹریٹ اور ایس ایس پی نے اشارہ کیا کہ ناولٹی سنیما کی طرف (حکومت نے اسی راستہ پر جانے کی اجازت دی تھی) اسی وقت سامنے سے ایم ایل سی وینا دُگّل آئیں اور انہوں نے کہا کہ تیواری جی گرفتارہوگئے۔ محسنہ صاحبہ کو خیال ہوا کہ تیواری جی نے بازی مارلی وہ جیپ میں کھڑی تھیں انہوں نے ڈرائیور اور جلوس کو اشارہ کیا کہ دیوار توڑ دو ان کا خیال تھا کہ گرفتاریاں ہوجائیں گی لیکن مجسٹریٹ نے حکم دیا لاٹھی چارج اور جو لاٹھیاں برسنا شروع ہوئی ہیں تو کیسی محسنہ کیسے کملاپتی کیسے دیکشت اور لیڈر نیز ورکر ہر طرف آگے ترنگے پیچھے خاکی اور لاٹھیاں آنسو گیس کے گولے سارا میدان صاف پولیس اور پی اے سی نے کسی گذرنے والے شہری کو بھی نہیں معاف کیا اور سارا احتجاج مٹی میں مل گیا۔
شام کو ہم محسنہ قدوائی کے گھر عیادت کرنے گئے تو پٹے ہوئے سارے لیڈر جمع تھے اور ایک ہی موضوع تھا کہ سابق وزیروں کا بھی خیال نہیں کیا دکانوں پر سودا لینے والوں اور راہگیروں کو بھی نہیں چھوڑا جب سیاپا ہوچکا تو ہم نے کہا کہ بیشک بہت برا ہوا لیکن ہمارے اوپر انہوں نے احسان کردیا۔ ہم جو ہر فساد کے بعد آپ لوگوں کو دس دس صفحات پر لکھ کر دیتے تھے کہ پولیس نے پرامن مسلمانوں کو کیسے کیسے مارا اور کسی کو نہیں بخشا تو آپ کو یقین دلانا مشکل ہوجاتا تھا۔ اب آپ کی حکومت آئی تو ہم بس دو لائنیں لکھا کریں گے کہ جیسے مارچ کی….. تاریخ کو پولیس نے لکھنؤ میں آپ کو مارا تھا بس ایسے ہی مسلمانوں کو مارا ہے۔ اور آپ پورا مقدمہ سمجھ جائیں گے۔ اس پر قہقہہ بلند ہوا اور کہانی ختم کردی۔

«
»

آج کی دنیا کے قارون

آر ایس ایس اور عیسائی دنیا آمنے سامنے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے